پشتو کی لسانی خصوصیات
موضوعات کی فہرست
حرف تہجی
جیسا کہ پہلے بتایا جا چکا ہے کہ پشتو ہند آریائی زبان مانی جاتی ہے۔ اس کا رسم الخط نسخ ہے۔ یہ عربی ، اردو اور فارسی کی طرح دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ اس کے کل حروف تہجی چوالیس ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: بیسویں صدی پشتو ادب پر انگریزی ادب کے اثرات | PDF
پشتو حروف تہجی میں عربی کے تمام حروف شامل ہیں۔ ساتھ ہی فارسی کے اضافی حروف، پیشو کی اپنی مخصوص آوازیں اور پشتو میں _”ی“_ کی مخصوص پانچ شکلیں بھی اس میں موجود ہیں۔
اس کے علاوہ پشتو حروف تہجی میں چار حروف لکھنے میں قدرے مختلف ہیں مگر ان کی آواز وہی ہے جو اردو حروف کی ہوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: پشتو ادب میں انشائیہ
**یہ حروف* * ٹ ، ڈ، ڑ ، اورگ ہی* ں ۔ ان میں فرق صرف یہ ہے کہ ٹ ، ڈ، اورڈ کے اوپر والے نشان _ط_ ‘ کو حذف کر دیا گیا ہے اور اسکی جگہ انھی حروف کے نیچے کنڈے ( °) کا اضافہ کیا گیا ہے
جیسے ت ، د، ر چوتھے حرف گ کے دوکش میں سے ایک کو ہٹا دیا گیا ہے اور اس کی جگہ وہی کنڈہ لگا دیا گیا ہے جوٹ ، ڈ، ڑ میں موجود ہے ۔
آج کل اردو جاننے والوں کو یہ سہولت کسی حد تک دی گئی ہے کہ اگر وہ انھی حروف کو اردو رسم الخط میں لکھنا چاہیں تو کوئی مضائقہ نہیں لیکن پشتو رسم الخط کو زیادہ بہتر مانا جاتا ہے۔
پشتو زبان میں کچھ زاید حروف تہجی بھی موجود ہیں جن کی تعداد چار ہے ۔
ان زاید حروف کی صحیح آواز جانئے اور پہچاننے سے پشتو زبان صحیح معنوں میں اور درست لہجے میں لکھی اور پڑھی جا سکتی ہے۔ لہجے کے لحاظ سے یہ زاید حروف تہجی "ج” (زیم ) ” خ“ (سے)” ر “ ( گے ) اور بنن ( خین ) ہیں ۔
ان میں سے پہلے دو تو عام طور پر سب پشتو بولنے والے ایک ہی طرح ادا کرتے ہیں مگر باقی دو حروف مختلف علاقوں میں مختلف طریقوں سے پڑھے جاتے ہیں۔
ایک اور مرکب آواز کے لیے پشتو حروف میں ”ان “ ( نُونز ) بھی موجود ہے جو ن کے بعد لکھا جاتا ہے۔ اس مخصوص حرف ن (ٹونز) کی آواز گویا ان _“ اور ”_ کی آوازوں کا امتزاج ہوتی ہے۔
پشتو نئی املا کے مطابق _”ی“_ کی پانچ مختلف شکلیں ہیں۔ انھیں بروئے کار لانے سے مختلف الفاظ کے تلفظ اور
گرامر کے لحاظ سے ان کی شناخت میں آسانی پیدا ہوگئی ہے۔
1_یائے مجہول ے
2_یائے مخصوص ي
3_یائے مصروف ي
4_ ے تانیث ئ
5_یائے فعلی
2.2 :لہجے
پشتو زبان کے دو نمایاں لہجے ہیں
یہ لہجہ صوبہ سرحد کے جنوبی علاقوں ، جنوبی افغانستان اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں رائج ہے۔ اس لہجے کو نرم لہجہ بھی کہا جاتا ہے۔
(الف) قندھاری لہجہ
(ب) یوسف زئی لہجہ
(الف) قندھاری لہجہ
یہ لہجہ سرحد کے جنوبی علاقوں،جنوبی افغانستان اور بلوچستان کے پشتون علاقوں میں رائج ہے ۔اس لہجے کو "نرم لہجہ " بھی کہا جاتا ہے ۔
(ب) یوسف زئی لہجہ
یہ لہجہ صوبہ سرحد کے شمالی علاقوں کے علاوہ افغانستان کے بعض علاقوں میں بولی جانے والی زبان کی نمایندگی کرتا ہے۔ اس لہجے کو "سخت لہجہ” بھی کہتے ہیں۔
لہجوں کا فرق
ان دو بڑے لہجوں میں اگر چہ کوئی نمایاں فرق نہیں لیکن بعض الفاظ کی ادائیگی میں قندھاری لہجہ بولنے والے ”ش“ اور ” ژ "کے حروف استعمال کرتے ہیں، جبکہ یوسف زئی لہجہ بولنے والے بالترتیب نہیں ( خین اور (گے ) تلفظ کرتے ہیں، تاہم ادبی لحاظ سے سخت لہجہ بولنے والوں کی زبان ہی رائج ہے جسے سب تسلیم کر چکے ہیں۔
بعض اسما ہر دولہجوں میں ایسے مختلف ہیں کہ نہ صرف یہ اختلاف نرم اور سخت لہجوں تک محدود ہے بلکہ نرم لہجہ بولنے والوں میں بھی کئی الفاظ ایک دوسرے سے مختلف انداز میں بولے جاتے ہیں ۔ مثال کے طور پر سخت لہجہ بولنے والے رضائی کو” بڑستن” کہتے ہیں ۔
اس کو نرم لہجہ بولنے والے” خنک شیرک، گنڈہ پور اور مروت کنجنڑ “ کہتے ہیں ( اور سخت لہجہ بولنے والے خلیل اور مہمند اسے نالئی کہتے ہیں)
لہذا متفقہ طور پر اس مسئلے کو یوں حل کیا گیا ہے کہ کسی مضمون یا کتاب میں وہ الفاظ لکھے جائیں گے جو عام طور پر سخت لہجے والے بولتے ہیں۔
پشتو اور اردو کا تعلق
دیگر پاکستانی زبانوں کی طرح پشتو کے اردو سے گہرے روابط ہیں جو کئی سطحوں سے نمایاں ہیں۔ اگر صرف ذخیرہ الفاظ کے حوالے سے ہی دیکھا جائے تو ان دونوں زبانوں میں عربی اور فارسی کے بہت زیادہ مشترک الفاظ نظر آئیں گے جس کی وجہ یہ ہے
کہ عربی ہماری مذہبی زبان ہے اور فارسی اس علاقے میں دفتری زبان کے طور پر مستعمل رہی ہے، چنانچہ عربی اور فارسی کا اثر نہ صرف اردو پر پڑا بلکہ پشتو بھی اس سے مبرا نہیں رہی یہی وجہ ہے کہ ان دونوں زبانوں کے ذخیرہ الفاظ کی ایک معقول تعداد یا تو مشترک ہے یا ان میں قریبی اشتراک پایا جاتا ہے۔
پروفیسر پریشان خٹک نے اپنی کتاب ” اردو اور پشتو کے مشترک الفاظ میں” 5022( پانچ ہزار بائیس ) الفاظ دیے ہیں
جو پشتو اور اردو میں مشترک ہیں یا قریبی اشتراک رکھتے ہیں۔ ڈاکٹر انعام الحق کوثر نے اپنی کتاب ” بلوچستان میں بولی جانے زبانوں کا تقابلی مطالعہ "میں ” ہشت لسانی گلدستہ” کے نام سے روز مرہ زندگی میں استعمال ہونے والے 1612 اردو الفاظ ، اسما اور افعال کا ایک لسانی سروے پیش کیا ہے
جس مطابق ان 1612 الفاظ میں میں اردو اور پشتو کے مشترک یا قریبی الفاظ کی تعداد 863 ہے اور اس حساب سے اردو اور پشتو کے مشترک الفاظ کا تناسب
53.5 فی صد بنتا ہے۔
پشتو اور اردو کے صوتی نظام میں بھی کوئی زیادہ بعد موجود نہیں۔ ذیل میں دیے گئے الفاظ کی طرح بے شمار الفاظ ان زبانوں میں معمولی تغیر کے ساتھ ادا کیے جاتے ہیں ۔ مثلاً
اردو . . . . . . . . . پشتو
جنگل. . . . . . . . . .زنگل( حُنکل)
زنجیر. . . . . . . . . زنزیر ( زنحیر )
خارش. . . . . . . . . . خارنبں (خارخ)
شاخ. . . . . . . . . . . . بناخ (خاخ )
اسی طرح ان زبانوں میں بعض مرکب الفاظ مستعمل ہیں مثلاً خیر خبر، سراسر، بلا ناغہ، دوا دارو اور گڑ بڑ وغیرہ ۔ علاوہ ازیں یہ زبانیں مشترک محاوروں ، کہاوتوں اور ضرب الامثال کی
امین بھی ہیں۔
اردو اور پشتو کے اشتراک کی طرف اشارہ کرتے ہوئے پشتو زبان کا انگریز اسکالر میجر راور ٹی اپنی کتاب "پشتو انگریزی لغت” کے دیباچہ میں لکھتا ہے:
"یہ حقیقت ہے کہ پشتو زبان میں بہت سے ایسے الفاظ ملتے ہیں جو اردو میں نظر آتے ہیں جب کہ اس کا واضح طور پر سنسکرت میں سراغ نہیں ملتا۔ کم از کم اس وقت تک جب تک کسی اور زبان میں ان کی نشان دہی نہیں ہوتی ۔
میں انھیں خالص پشتو اصطلاحیں سمجھنے کی طرف مائل ہوں جو بالکل اسی طرح ریختہ میں شامل ہو کر گھل مل گئیں جیسے سنسکرت ، عربی اور فارسی وغیرہ۔”
اردو اور پشتو کے اس باہمی تعلق کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ جس طرح اردو کے بیشتر حروف تہجی عربی ، فارسی سے لیے گئے ہیں ۔
اسی طرح پشتو کے حروف تہجی میں عربی کے تقریبا تمام حروف شامل ہیں جب کہ تین حروف تہجی فارسی سے بھی لیے گئے ہیں ۔
اردو کی طرح پشتو بھی دائیں سے بائیں لکھی جاتی ہے۔ اس کا رسم الخط نسخ ہے جو کہ عربی و فارسی میں مستعمل ہے اور اردو کے نستعلیق رسم الخط سے قریبی مشابہت رکھتا ہے اور اردو خواں طبقے کے لیے اجنبی نہیں ہے۔
پشتو اور اردو کی قربت کا اندازہ آپ اس بات سے بھی لگا سکتے ہیں کہ کسی دور دراز کے پشتون علاقے میں بھی آپ کسی پشتون سے اردو میں بات کریں تو آپ کا مافی الضمیر وہ فوراً سمجھ جائے گا۔
پشتونوں کا مذہب کے ساتھ تعلق نہایت گہرا ہے چنانچہ وہ چیز ان کو پسند آتی ہے جس میں مذہب کی چھاپ نظر آئے چوں کہ اردو زبان میں بھی ایسے مذہبی لڑیچر کی بہتات ہے۔
اس لیے پشتو بولنے والوں کے لیے عربی کے بعد اردو زبان نہایت ہی عزیز اور محترم ہے اور اس کے ذریعے وہ مذہبی مسائل اور تاریخ اسلام سے با آسانی واقفیت حاصل کرتے رہے ہیں۔
اردو زبان کو یہ فوقیت حاصل رہی ہے کہ یہ رنگ ونسل کے امتیاز کے بغیر ہر کسی کی زبان رہی ہے اور ہر کسی نے بلا امتیا ز قوم وملت اس کی ترویج و ترقی میں حصہ لیا ہے۔ اسی تسلسل میں پشتو اور اردو کا تعلق بالواسطہ، براہ راست ہر دو انداز میں ہمیشہ سے قائم رہا۔
یہاں تک کہ اردو نثر کا ایک قدیم نمونہ پشتو نثر کی اولین کتاب "خیر البیان” میں بھی ملتا ہے جسے بایزید انصاری المعروف بہ پیر روشن نے ۹۸۰ھ کے لگ بھگ تحریر کیا تھا۔ اردو نثر کا نمونہ یہ ہے
"اے بایزید لکھ کتاب کے آغاز کے بیان کے سارے اکھر صحیح ہُسن بسم اللہ !
پشتو اردو کے قواعد اور گرامر میں بھی بعض جگہ اشتراک پایا جاتا ہے مثلاً اردو کے بعض اسما کے آخر میں "ہ” کو "یائے مجہول " سے بدل کر جمع بناتے ہیں جیسے بچہ سے بچے اور بستہ سے بستے وغیرہ۔
پشتو میں بھی امالے کا یہی قاعدہ رائج ہے ۔ جیسے کو نہ سے کونے اور ریزہ سے ریزے وغیرہ۔ علاوہ ازیں ان دونوں زبانوں میں اسم فاعل ایک جیسے لاحقوں سے ملا کر بنایا جاتا ہے۔
مثلاً گر سے زرگر اور جادوگر اور گر اور گار سے پر ہیز گار اور خدمت گار وغیرہ اسی طرح اردو اور پشتو میں ماضی مطلق کا قاعدہ بھی ملتا جلتا ہے۔ تاہم تذکیر و تا نیت کے معاملے میں بعض جگہ اردو اور پشتو میں فرق پایا جاتا ہے۔ یعنی کچھ الفاظ جو پشتو میں مذکر ہیں۔
اردو میں مؤنث بولے جاتے ہیں ۔ مثلاً پنسل یا کتاب وغیرہ پشتو میں مذکر ہیں اور اردو میں مؤنث ۔ اسی طرح پشتو بولنے والوں کی اکثریت سنسکرت کی دو چشمی ھ آسانی سے ادا نہیں کر سکتی جب ایک پشتون کہے کہ پٹھان کھانا کھا رہا ہے تو سننے والوں کو یہ فقرہ یوں سنہ ” سنائی دے گا ” پٹان کا نا کا رہا ہے۔
یہاں اس بات کا اعادہ بھی غیر ضروری نہ ہوگا کہ پشتو کے اکثر کلاسیکی شعرا کے کلام شعرا کے کلام میں نہ صرف اردو کے الفاظ استعمال ہوتے ہیں بلکہ ایسی تراکیب و اصطلاحات بھی ملتی ہیں جو اردو شاعری میں مستعمل ہیں اور اردو پشتو کے قدیم روابط کی آئینہ دار ہیں۔
مثلا پشتو کے پہلے صاحب دیوان شاعر ارزانی خویشگی کے کلام میں اردو الفاظ کا استعمال پایا جاتا ہے اسی طرح سترہویں صدی عیسوی کے شاعر خوشحال خان خٹک کا کلام دیکھیے تو اس میں بھی آپ کو اردو کے کئی الفاظ نظر آئیں گےیہی صورت حال ان کے معاصر شاعر رحمان بابا کے کلام کی بھی ہے
جبکہ دولت لونزی ، قاسم علی خان آفریدی ، عبدالحمید مومند ، معز الله خان مومند ، کاظم خان شیدا کے ہاں بھی بلا جھجک اردو کے الفاظ کا استعمال ملتا ہے۔
یہی نہیں بلکہ ان میں سے بعض شعرا نے تو باقاعدہ اردو شاعری میں طبع آزمائی کی جن میں رحمان بابا ، قاسم علی خان آفریدی اور معز اللہ خان مومند شامل ہیں۔
دہلی اور لکھنو اردو کے دو بڑے مراکز رہے ہیں۔ ان دونوں کے بیچوں بیچ روہیل کھنڈ کا علاقہ تھا جو پشتو بولنے والوں اور افغانوں کا گھر کہلاتا تھا
یہ وہ جگہ تھی جہاں ابتدا ہی سے شہروں اور دیہاتوں میں روانی سے اردو بولی جاتی تھی اور اس اردو میں پشتو کے سینکڑوں الفاظ مستعمل تھے۔
اسی تناظر میں امتیاز علی عرشی اپنی کتاب "اردو میں پشتوکا حصہ” میں لکھتے ہیں کہ اس پورے علاقے ( روہیل کھنڈ ) میں بہت سے غیر مانوس الفاظ آپ کے سننے میں آئیں گے۔
یہ سب لفظ پشتو کے ہیں اور معمولی سے لفظی یا معنوی فرق کے ساتھ دن رات بولے جاتے ہیں۔
ڈاکٹر جمیل جالبی نے” تاریخ ادب اردو” میں جو یہ لکھا ہے کہ پٹھانوں نے اردو زبان کو اور اردو نے پٹھانوں کو اتنا کچھ دیا ہے کہ ایک کی شخصیت دوسرے سے جھلکنے لگتی ہے۔ تو اس کی بھی یہی وجہ ہے کہ ہندوستان کے جن علاقوں میں اردو ابتدائی دور میں ارتقائی مراحل طے کر رہی تھی۔
ان علاقوں میں افغان خاصی تعداد میں آباد تھے اور دونوں زبانوں یعنی اردو اور پشتو کا لفظی سطح پر آپس میں گہرا لین دین تھا۔
اردو اور پشتو کے لسانی روابط کے بارے میں ایک اور حوالہ بہت اہم ہے اور وہ یہ کہ اردو زبان میں نرمی ، میانہ روی اور رکھ رکھاؤ کا عنصر پایا جاتا ہے جب کہ پشتو کا یوسف زئی لہجہ بھی ان خصوصیات کا حامل ہے۔
وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اردو اور پشتو کی قربت میں اضافے کا ایک سبب یہ بھی ہے کہ صوبہ سرحد کے مدرسوں میں بیشتر جگہوں پر بنیادی ذریعہ تعلیم اردو ہے نیز نصاب میں بھی اردو ایک لازمی مضمون کے طور پر شامل ہے جس کے باعث پشتو بولنے والے بچے بہت چھوٹی عمر میں ہی اردو سے آشنا ہو جاتے ہیں اور اردو سمجھنے اور بولنے لگ جاتے ہیں۔
مختصر یہ کہ اردو اور پشتو تہذیبی اور تاریخی لحاظ سے گہری مشابہت رکھتی ہیں اور لسانی گروہ کے حوالے سے بھی دونوں آریائی زبانیں ہیں۔
پروف ریڈر : نمرہ سخی
حواشی
کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب