غزل : اس بے ثمر شجر سےاتر جانا چاہیے

غزل: اس بے ثمر شجر سے اتر جانا چاہیے | Ghazal: One Should Descend from This Fruitless Tree

اس بے ثمر شجر سےاتر جانا چاہیے
اب عشق سے ہمیں بھی مکر جانا چاہیے

چاہت میں اس کی اور کوئی مبتذل نہ ہو
اس کی گلی میں بارِ دگر جانا چاہیے

دشتِ زوال تیری شبیہ بننے کے لیے
شاخِ شجر سے پتوں کو جھڑ جانا چاہیے

گر روح کو قفس جو قفس لگنے ہے لگا
خاکی بدن کو خاک میں گر جانا چاہیے

اس سے پہل کہ رات نہ رہ جائے رات ہی
ہر شخص کی نظر سے گزر جانا چاہیے

پردہ میں رہ کے باقی ہے شہرت کی گر ہوس
پھر تو وجود ِ زن کو بھی ڈر جانا چاہیے

قندیل بجھ چکی ہے مگر درد باقی ہے
شب کو بھی اب تو گرچہ گزر جانا چاہیے

تھک ہار کر سو دل نے پکارا یہی مجھے
دنیا کو چھوڑ کر سو کدھر جانا چاہیے

خوش ہے کسی کے ساتھ وہ تو اس خوشی میں سو
قاسم ترا بھی چہرہ نکھر جانا چاہیے

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں