مفت اردو ادب وٹسپ چینل

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

نوجوان نسل میں روز افزوں نفسیاتی مسائل، اسباب اور سدباب

📖 0 min  |  👁️ 1

تحریر: تنویر حسن

جب سے کائنات اپنی حیات نو کی جلوہ گری سے آشنا ہوئی ہے تو اسے نظم و ضبط اور تدارک و توازن کے حسین امتزاج سے منور کیا گیا ہے۔

کائنات کی رنگ و بو کی تخلیق کا عنوان احسن تقویم ہے۔ اس کائنات کی رونق و بہار میں روز ازل سے تعمیری اور تخریبی قوتیں سر گرم عمل ہیں۔ یہ قوتیں نسل نو کے خارجی ماحول کو خوبصورت یا بدصورت بناتی ہیں لیکن داخلی طور پر انسان کے اندر دونوں کا عکس ہوتا ہے۔

انسانی روح کے مطالعہ کو نفسیات کہتے ہیں لیکن سائنس نے اس نظریے کو تسلیم نہیں کیا کہ روح ایک مجرد پہلو ہے تو مختلف ماہرین نفسیات کی تحقیقات کے بعد انسانی برتاؤ کا مطالعہ نفسیات کہلایا اور انسان کے رہن سہن ، چال چلن اور زندگی گزارنے کے طور و طریقے میں خلل کے عمل کو نفسیاتی مسائل سے تعبیر کیا گیا۔

پہلے یونانی طبیب اور فلاسفر کے نزدیک نفسیاتی مسائل کی تعریف کچھ یوں ہے:

کسی شخص کا اداس رہنا، کسی کام میں دل نہ لگنا، رونے کو دل کرنا اور مایوسی بڑھ جانے سے خودکشی کا رجحان، ڈپریشن وغیرہ کو عام الفاظ میں نفسیاتی مسائل کا نام دیا جاتا ہے”

نوجوان نسل کو کسی بھی معاشرے کا مستقبل قرار دیا جاتا ہے کیونکہ نوجوان معاشرے کی ترقی میں کلیدی کردار ادا کرتے ہیں۔ قوتوں، حوصلوں، امنگوں، جوش، عزائم، اور ولولے کا نام نوجوانی ہے اور جب یہ تمام اوصاف کسی قوم کے نوجوان میں ہوں تو سمجھ لیجئے کے وہ ریاست بساط عالم پر اپنا لوہا منواتی ہے۔

تاریخ شاہد ہے کہ ہر دور اور ہر زمانے کے انقلابات میں نوجوانوں کا کردار جزلاینفک رہا ہے۔ جس انقلاب یا تحریک کا ہر اول دستہ نوجوان نسل ہو، اسے تاریخ کا دھارا موڑنے سے کوئی نہیں روک سکتا لیکن آج حالات حاضرہ کا مشاہدہ کیا جائے تو نوجوان نسل مختلف نفسیاتی مسائل مثلاً بے چینی ، احساس کمتری ، ذہنی تناؤ ، احساس محرومی، حسد اور جنسی گھٹن وغیرہ سے دو چار ہے۔

ذہنی و نفسیاتی تفریحات کے لیے نئ نئ ایجادات کے باوجود روز افزوں نفسیاتی مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے جس کی وجوہات میں ” مشترکہ خاندانی نظام کی تنزلی، انسانوں کے بدلتے رویے، دنیا کی ہوس، ایک دوسرے سے سبقت لے جانے کی چاہت کے علاؤہ باہمی تعاون کا فقدان اور لاعلاج مرض وغیرہ قابل ذکر ہیں۔

نفسیاتی مسائل سے متاثر نسل نو کی اس کیفیت کو ایک ماہر نقاد کچھ یوں بیان کرتا ہے:

آج کا نوجوان نفسیاتی الجھنوں کے باعث ماضی سے بیگانہ ، حال سے بیزار اور مستقبل سے ناامید نظر آتا ہے "

(آل احمد سرور )
جہاں تک ہمارے معاشرے کی بات ہے تو اس میں اکثر و بیشتر نوجوانوں کی مثال جسد بے جان کی سی ہے۔

آج ہمارا ہر دوسرا نوجوان افسردگی ، ڈپریشن اور پریشانی کے گہرے اور ویران کنویں میں پڑا ہے، کسی کے چہرے کے خدو خال بتا رہے ہیں تو کسی کی آپ بیتی و جگ بیتی سے معلوم ہو رہا ہے۔

نفسیاتی مسائل سے دو چار نوجوان، ان کے حل کے لیے جدید سائنسی طریقوں کی بجائے قدیم رسم و رواج کے مطابق تعویز یا دم کروانے پیر فقیر کے در کا رخ کرتا ہے جس سے یہ بیماری مزید طویل پکڑتی جاتی ہے۔ بقول ماہر نفسیات:

جب آپ کسی بیماری کا مکمل علاج نہیں کرواتے، اسے نظر انداز کرتے ہیں، دبا دیتے ہیں تو وہ چلی نہیں جاتی بلکہ ایک بڑا مسلہ بن کر دوبارہ ابھرتی ہے”

( سگمنڈ فرائڈ )

نسل نو میں نفسیاتی عارضوں کے بڑھنے کی ایک وجہ مشترکہ خاندانی نظام میں پیار و محبت کی بجائے پیسوں کی زیادہ اہمیت ہے۔

اس مہنگائی اور بدتر معاشی حالات کے دور میں ایک فرد کی کمائی سے گھر کا نظام چلانا بہت مشکل ہے اور اگر بد قسمتی سے اس شخص کو کوئی حادثہ پیش آ جائے تو پورے کا پورا خاندان ڈپریشن میں چلا جاتا ہے اور بعض دفعہ والدین خود سمیت اپنے بچوں کو ختم کر لیتے ہیں جو کہ مایوسی کی انتہا ہے۔ موجودہ تحقیق کے مطابق نوجوان نسل میں نفسیاتی مسائل کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔

اس کی بڑی وجہ والدین کے جھگڑے، بے جا پابندیاں اور دباؤ ہے۔ جب نوجوان اپنے والدین کی امیدوں پر پورا نہیں اترتے تو وہ شدید قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتے ہیں یا پھر خود کشی کا راستہ اختیار کرتے ہیں جو کہ اسلام کے منافی ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد باری تعالیٰ ہے:
اور اپنے ہی ہاتھوں خود کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور صاحبانِ احسان بنو، بے شک اللہ احسان والوں سے محبت فرماتا ہے”
( سورہ البقرہ )

والدین کو چاہیے کہ وہ اپنے بچوں کے ساتھ دوستانہ ماحول رکھیں ، ان کے تمام مسائل کو سنیں، پیار سے بات کریں تاکہ وہ اپنے دل کی بات آپ سے شئیر کر سکیں، لیکن افسوس کی بات یہ ہے کہ ہماری نوجوان نسل کے مسائل کو سمجھنے کی بجائے، مسائل کو ان کی ہٹ دھرمی اور ضد سمجھا کر نسل نو پر زندگی کو مزید تنگ کر دیا جاتا ہے، جس سے بچوں کے رویوں میں خرابی اور غلط راہ کی طرف رجحان بڑھ جاتا ہے۔ بقول شاعر

؂ کر کے میری زندگی حرام
اب کہتے ہو خود کشی ہے حرام

ترقی یافتہ ممالک کی نسبت ہمارے ہاں نفسیاتی مسائل بہت زیادہ ہیں اور اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ ہمارے مسائل کی فہرست بہت لمبی ہے۔ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن کی ایک رپورٹ کے مطابق ہر چالیس سیکنڈ میں دنیا میں کہیں نہ کہیں ایک انسان موت کو گلے لگاتا ہے، جس کی ایک بڑی وجہ ذہنی مسائل ہیں۔

جن میں ڈپریشن ، اینزائٹی ، سکٹزوفرینیا ، بائی پولر ڈس آرڈر ، بارڈر لائن پرسنیلٹی اور پی ٹی ایس ڈی وغیرہ عام ہیں۔ یاد رہے کہ ذہن اور جسم کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور نفسیاتی مسائل اکثر جسمانی بیماریوں کی شکل میں بھی رونما ہوتے ہیں، جس کو نفسیات کی زبان میں سائیکو سومیٹک کنڈیشن کہتے ہیں۔

ان مسائل کا علاج ادویات اور تھراپی کی مدد سے کیا جا سکتا ہے لیکن ہمارے ہاں جاہلانہ اور بے وقوفانہ رویے ان مسائل کے حل میں بڑی رکاوٹ ہیں۔ جدید دور میں بھی نفسیاتی مسائل کو آسیب اور جن بھوتوں سے جوڑ کر لوگ ماہرین نفسیات کے پاس علاج کے لیے رجوع نہیں کرتے۔

دیہاتوں کی حالت اس حوالے سے تشویش ناک ہے اور اگر کوئی شخص ذہنی و نفسیاتی طور پر پریشان ہو تو وہ اس لیے بھی کسی سے اظہار نہیں کرتا کہ کہیں اسے پاگل نہ سمجھ لیا جائے اور شہر کی نسبت گاؤں میں لوگ اس لیے بھی ماہر نفسیات کے پاس نہیں جاتے کہیں یہ بات لڑکی کے رشتے میں دراڑ نہ بن جائے اور گاؤں کی بزرگ عورتیں اکثر یہ کہہ رہی ہوتی ہے کہ شادی کے بعد خود بخود ٹھیک ہو جائے گی۔ اس کیفیت کی عکاسی کرتا ایک شعر ملاحظہ ہو:

؂ کہاں گئیں میرے گاؤں کی رونقیں جواد
تو کیا یہاں بھی روایت کا قحط پر گیا ہے
( جواد شیخ )

نوجوان نسل میں بڑھتے ہوئے ذہنی و نفسیاتی مسائل اس امر کی طرف توجہ دلانے کے لیے کافی ہیں کہ اجتماعی طور پر اس معاشرے میں عدم برداشت ، بے حسی ، تشدد اور ناانصافی عام ہے۔ یہ معاشرتی مسائل ان ذہنی امراض کو جنم دیتے ہیں جو نفسیاتی مسائل کا باعث بنتے ہیں، جن کا سدباب ضروری ہے کیونکہ ایمان کے بعد صحت اللہ تعالیٰ کی بہت بڑی نعمت ہے۔

بیماری خواہ کسی بھی قسم کی ہو انسان کو پریشانی اور تکلیف میں مبتلا کر کے معمول کی سرگرمیوں پر منفی اثرات مرتب کرتی ہے اور اگر نوجوان نسل کسی قسم کے نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جائے تو غضب ہو جائے کیونکہ نوجوانی ایک جوش اور ولولے کا نام ہے۔

یہ ایک انوکھا اور ابتدائی وقت ہوتا ہے جس کے جوش میں انسان کئ مرتبہ اچھے اور برے کی تمیز کرنا بھول جاتا ہے۔ انسان کو پتہ ہی نہیں چلتا کہ وہ کب ، کیسے اور کس مرض اور برائی میں مبتلا ہو چکا ہے۔ بقول شاعر

؂ عجیب حال تھا عہد شباب میں دل کا
مجھے گناہ بھی کار ثواب لگتا تھا
(ہیرا نند سوز )

حالات حاضرہ میں دیکھا جائے تو سوشل میڈیا انسان کی ایک اہم ضرورت بن چکا ہے۔ نوجوان نسل دن میں اتنی مرتبہ کھانا پانی نہیں کھاتی پیتی جتنی بار وہ سوشل میڈیا کی کھڑکیوں میں جھانک کر آتی ہے۔ سوشل میڈیا کا استعمال ایک حد تک تو مناسب ہے لیکن حد سے زیادہ استعمال انسان کو نفسیاتی مریض بنا دیتا ہے۔ نسل نو کا ہر فرد جدید فون کی بھول بھلیوں میں بھٹک رہا ہے۔

یہ ایک ایسا جنون ہے جس میں کھو کر ہم اپنے آپ کو فراموش کر بیٹھتے ہیں، جس کے سبب ہم اپنے گرد و پیش کے فطری اور امن و سکون پر مبنی حالات کو ترک کر کے سوشل میڈیا کے مصنوعی حالات کو ہی حقیقی سمجھنے لگتے ہیں، جس سے نوجوان نسل کے جذبات کھلونے کی طرح استعمال ہونے لگتے ہیں اور وہ مختلف سنگین ذہنی و نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔

امریکہ کے فلوریڈا اسٹیٹ انٹرنیشنل اسکول کے محققوں کے مطابق اسمارٹ فون پر زیادہ وقت گزارنے سے ڈپریشن اور ڈپریشن سے خود کشی کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔

تھومس جوئنر کا کہنا ہے:
اسکرین پر زیادہ وقت گزارنے، خودکشی کے خیالات آنے اور اس کی کوشش کرنے کے درمیان گہرا ربط ہے”

نسل نو میں نفسیاتی عارضوں کو حل کرنے کے لیے تین بڑے طریقے ” بائیولوجیکل ٹریٹمنٹ ، کاؤنسلنگ تھراپی اور سوشل ٹریٹمنٹ موجود ہیں۔

اس کے علاؤہ مزید حکومت کی جانب سے دماغی صحت کے متعلق آگاہی مہم شروع کی جائے، جس میں ماہر نفسیات ، مشیران نفسیات، سائیکیٹرسٹ اور میڈیکل افسران کو تربیت دی جائے تاکہ ذہنی و نفسیاتی مسائل کی نشاہدہی کی جا سکے۔

یہ خوش آئند پہلو ہے جبکہ اس کے علاؤہ تمام ضلعی ہسپتالوں اور چند سب ضلعی ہسپتالوں میں نفسیاتی مسائل کے علاج کے لیے او پی ڈی کا قیام اور میڈیکل کالجوں میں شعبہ نفسیات کا قیام ایسے اقدامات ہیں جن سے اس سنگین بحران کا حل کچھ حد تک مکمن ہے۔

نفسیاتی مسائل کو مزید نظر انداز نہیں کیا جا سکتا اور اگر اب ان کا حل تلاش نہ کیا گیا تو مختلف نوعیت کے بڑے ذہنی و نفسیاتی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔

حکومت اور معاشرے کی ذمہ داری ہے کہ وہ مایوسی کے ماحول کو نوجوانوں کے لیے امیدی سے بدل دیں۔

کوشش کی جائے کہ ان کی ترقی اور کامیابی میں حائل تمام رکاوٹیں دور ہو جائیں اور انہیں زندگی میں یکساں اور منصفانہ مواقع ملیں۔ اس طرح کے اقدامات ان کی زندگی میں تناؤ اور مایوسی کی سطح کو کم کرنے میں مدد گار ثابت ہو سکتے ہیں۔

المختصر مقامی اور بین الاقوامی سطح پر والدین ، اساتذہ اور روحانی و دینی راہنماؤں کی مثلث سے نسل نو میں تغیر ممکن ہے۔

1 خیال ”نوجوان نسل میں روز افزوں نفسیاتی مسائل، اسباب اور سدباب“ پر

  1. profoundlya9d7aa33a4

    آج کا نوجوان جس کا سامنا کرتا ہے اور جو اسے نفسیاتی مسائل کی طرف لے جاتا ہے اس کی بنیادی وجہ وہ ماحول ہے جو اس کے آس پاس موجود ہے۔ جب وہ دیکھتا ہے کہ معاشرہ غیر منصفانہ ہے، معاشرے میں قانون کی کوئی حکمرانی نہیں ہے۔ ذاتی طور پر اسے تکلیف ہوتی ہے جب قابلیت کے باوجود کسی اور کو اس پر ترجیح دی جاتی ہے اور اس کے پاس اس رویے کے خلاف لڑنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا ہے۔ پھر وہ نفسیاتی مسائل کا شکار ہو جاتا ہے۔ ایک لمبی فہرست ہے لیکن اس وقت کے لیے یہ کافی ہیں۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں