مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

نیم کے سائے تلے

نیم کے سائے تلے

شام ڈھلنے کو تھی۔ گاؤں کی کچی گلیوں پر سورج کی آخری کر نیں کسی اداس چادر کی طرح بکھری تھیں۔ ٹھنڈی ہوا چل رہی تھی اور کہیں کہیں بچوں کی ہنسی خاموشی کو توڑ رہی تھی۔ مسجد سے اذان مغرب کی آواز گونجی تو ایک بزرگ مغرب کی نماز ادا کر کے مسجد سے باہر آ رہے تھے۔ درمیانہ قد، سانولا رنگ ، گھنگھر یالے بال جس میں آدھی چاندی جھلک رہی تھی ۔ ان کے چہرے پر سکون کی ایک گہری لہر تھی۔ وہ آہستہ آہستہ گلی کے موڑ کی طرف بڑھا۔

اسی وقت ایک عورت نے دور سے اُسے دیکھا۔اس کی آنکھوں میں ، چمک سی دوڑ گئی۔ وہ کچھ دیر کھڑی رہی پھر دبے قدموں اُس کے پیچھے چل پڑی۔ گلی کے کونے پر ایک بزرگ چارپائی بن رہا تھا۔عورت رکی اور بزرگ سے پوچھا ” باباجی ، یہ جو ابھی شخص یہاں سے گزرے ہیں یہ کون ہیں؟ ” بزرگ نے رک کر کہا ” بیٹی ، وہ محبوب صاحب ہیں مسجد میں امام ہیں، بڑے نیک دل اور درویش صفت انسان ہیں "

عورت نے ہلکا سا مسکرا کر شکر بھرا سانس لیا ۔ جیسے کسی نے اندھیرے میں چراغ جلایا ہو جیسے ایک امید جاگی ہو۔ کچھ ہی دیر میں وہ خود کو محبوب کے دروازے پر پاتی ہے اس نے ہچکچاتے ہوئے دروازے پر دستک دی۔ اندر سے ایک بچے کی آواز آئی کون ہے؟” عورت نے کوئی جواب نہ دیا ، اور وہ دروازے سے اندر داخل ہوگئی۔ سامنے صحن میں ایک نیم کا درخت تھا۔ جو آدھے صحن کو سایہ دیے ہوئے تھا اور صحن کے دوسری طرف کمرہ تھا اور اس میں سے تلاوت کی آواز آ رہی تھی ۔کمرے میں ایک طرف عورت چارپائی پر بیٹھی قرآن ہاتھ میں لیے تلاوت کر رہی تھی اس نے تلاوت مکمل کی اور پوچھا "بی بی آپ کون "

عورت نے بولنا چاہا مگر گلے میں آنسو اٹک گئے کچھ لمحے بعد وہ ٹوٹے الفاظ میں بولی۔ میں سعب بی ہوں۔ بہت دور سے آئی ہوں۔ سکینہ نے اسے اپنے پاس بیٹھایا اور اس کے آنے کی وجہ پوچھی۔

سعب بی بتا نا شروع کرتی ہے کہ وہ یہاں تک کیسے پہنچی۔ سعب بی نے آہستہ آہستہ بولنا شروع کیا” میں چھوٹے ہوتے ہی یتیم ہوگئی اس کے بعد ماں اور بھائیوں نے پالا میرے بھائی ڈاکو تھے۔ اور بہت سخت دل انسان تھے۔ ہمیں نہ قرآن پڑھنے جانے دیتے اور نا ہی کوئی اور تعلیم لینے جانے دیتے ۔مگر میں اور میری بہن چھپ کر اکثر چلے جاتے تھے۔ ایک دن ان کو اس بات کا پتا چلا اور انہوں نے ماں اور ہمیں بہت برا بھلا کہا۔ میری بڑی بہن کی شادی میرا بھائی اپنے ڈاکو دوست سےکروانا چاہتا تھا مگر میری بہن اور ماں راضی نہ تھے میری بہن نے بغاوت کی اور ماری گئی۔ میرے بھائیوں نے اسے قتل کر دیا۔ اس کے بعد وہ لوگ میری شادی اس ڈاکو سے کروانا چاہتے تھے مگر میں گھر سے بھاگ گئی ۔ چھ دن میں اپنی قرآن والی باجی کے گھر غلہ دان میں چھپی رہی پھر باجی نے میری کچھ مالی مدد کی اور میں ایک دوسرے شہر آگئی۔
سعب بی کے چہرے پر درد کی لکیریں گہری ہو گئیں۔دوسرے شہر میں مجھے ایک آدمی ملا مجھے بیٹی کی طرح رکھا مگر میری حیثیت نوکرانی جتنی تھی۔ ان کے گھر ایک شخص آصف کا آنا جانا تھا۔ اسے میں پسند آئی اور ہمارا نکاح ہو گیا۔ ہمیں الله نے اولاد کی نعمت سے نوازا میر ےگھر ایک بیٹا پیدا ہوا مگر میرے بھائیوں کو میرے ٹھکانے کا پتا چل چکا تھا اس لیے مجھے وہاں سے بھاگنا پڑا ورنہ وہ مجھے بھی مار دیتے۔ اور اس طرح میں یہاں پہنچی۔ مجھے کچھ دنوں کی پناہ دے دیں”

سکینہ نے یہ سن کر اسے تسلی دی اور سب نے واقعہ محبوب کو سنایا ۔ محبوب نے دو ہفتوں میں سعب بی کے شوہر کا پتا ڈھونڈا۔ کیوں کہ وہ بھی اپنے گھر سے بچوں کے ساتھ کہی اور چلا گیا تھا اسے ڈھونڈ کر خط لکھا۔
چند دنوں بعد دروازے پر دستک ہوئی۔ لڑکے نے دروازہ کھولا تو ایک دراز قد ، سانولی رنگت والا آدمی آصف کھڑا تھا۔

اسی نے اپنا تعارف کروایا اور بتایا کہ وہ سعب بی کو لینے آیا ہے۔ سعب بی آصف کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ زندگی میں امن لوٹ آیا، مگر تقدیر نے پھر ایک تلخ موڑ لیا۔

ایک دن آصف ایک راستے پر جا رہا ہوتاہے دیکھتا ہے کہ راستے پر چار آدمی ایک شخص کو بہت مار رہے ہیں۔ آصف اس کو بچاتا ہے اور پٹی کرواتا ہے اس کو گھر چھوڑنے کا کہتا ہے تو وہ شخص کہتا ہے کہ میرا گھر سب کچھ انہیں آدمیوں نے قبضہ کر لیا ہے۔ میرے رہنے کی اب کوئی جگہ نہیں ہے۔وہ شخص آصف سے مدد مانگتا ہے۔ آصف اسے اپنے گھر لے آتا ہے۔
آصف ان چار آدمیوں اور اس شخص کے گھر کے بارے میں پتا لگاتا ہے۔ اس دوران آصف پر ایک راز افشا ہوتا ہے۔ وہ گھر واپس ہی آ رہا ہوتا ہے کہ کچھ لوگ اسے گھیر لیتے ہیں۔ وہ آصف اور اس کے بیٹے کے گولی مار کر چلے جاتے ہیں۔ وہی سعب بی گھر میں کرسی پر بیٹھی چائے پی رہی ہوتی ہے۔ دروازہ اچانک زور سے کھلتا ہے۔ محلے کا ایک لڑکا ہانپتا ہوا اندر آتا ہے۔

لڑکا:
“سعب بی… آصف بھائی… آصف بھائی کو گولی مار دی گئی ہے!”

یہ الفاظ جیسے گھر کی دیواروں سے ٹکرا کر بار بار گونجنے لگتے ہیں۔
سعب بی کے ہاتھ سے چائے کا کپ چھوٹ کر زمین پر گر جاتا ہے۔ وہ لمحہ بھر کے لیے ساکت رہ جاتا ہے۔

سعب بی (بھاری، کانپتی آواز میں):
“کیا کہا تم نے؟… آصف؟ نہیں… نہیں یہ سچ نہیں ہو سکتا…”

وہ لڑکا روتے ہوئے سر ہلاتا ہے۔
سعب بی کے چہرے کا رنگ اڑ جاتا ہے۔ وہ جیسے اپنی جگہ کھڑی رہ نہیں پاتی۔ اس کے قدم لڑکھڑاتے ہیں، اور وہ کرسی پر بیٹھتے ہی پھوٹ پھوٹ کر رونے لگتی ہے۔ اور جو شخص اس کے گھر تھا وہ سعب بی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگتا ہے وہ شخص سعب بی کے بھائیوں کا دوست ہوتا ہے جس سے سعب بھی کی شادی ہونی تھی مگر سعب بی بھاگ گئی اور انتقام لینے کی آڑ میں وہ سعب بی تک پہنچ ہی گیا۔ اور اس کے شوہر اور بیٹے کو مروا دیا۔ سعب بی کسی طرح اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ جاتی ہے اور محبوب اور سکینہ کے پاس آکر پوری کہانی سنادیتی ہے۔

سعب بی کئی دنوں تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پاتی مگر وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہو جاتی ہے اور وہ ایک مدرسہ بنانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اسی صحن میں نیم کے درخت کے نیچے بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا شروع کر دیتی ہے۔ پہلے پانچ پھر دس اور اس طرح بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سعب بی کا دماغی توازن درست نا رہا تھا کچھ بگڑ سا گیا تھا۔مگرسعب بی کے شوہر کی وفات کے بعد بھی وہ زندگی کو کسی طرح گھسیٹے جا رہی تھی۔ ایک دن وہ اکیلی بیٹھی ہوتی ہے اور سکینہ اسے بات کرتے ہوئے سنتی ہے۔

وہ سعب بی کو زبردستی اپنے ساتھ لے جانے لگتا ہے وہ شخص سعب بی کے بھائیوں کا دوست ہوتا ہے جس سے سعب بھی کی شادی ہونی تھی مگر سعب بی بھاگ گئی اور انتقام لینے کی آڑ میں وہ سعب بی تک پہنچ ہی گیا۔ اور اس کے شوہر اور بیٹے کو مروا دیا۔ سعب بی کسی طرح اپنی جان بچا کر وہاں سے بھاگ جاتی ہے اور محبوب اور سکینہ کے پاس آکر پوری کہانی سنادیتی ہے۔

سعب بی کئی دنوں تک اس صدمے سے باہر نہیں نکل پاتی مگر وقت کے ساتھ ساتھ بہتر ہو جاتی ہے اور وہ ایک مدرسہ بنانے کا فیصلہ کرتی ہے۔ اسی صحن میں نیم کے درخت کے نیچے بچوں کو قرآن کی تعلیم دینا شروع کر دیتی ہے۔ پہلے پانچ پھر دس اور اس طرح بچوں کی تعداد میں اضافہ ہوتا جاتا ہے۔ سعب بی کا دماغی توازن درست نا رہا تھا کچھ بگڑ سا گیا تھا۔مگرسعب بی کے شوہر کی وفات کے بعد بھی وہ زندگی کو کسی طرح گھسیٹے جا رہی تھی۔ ایک دن وہ اکیلی بیٹھی ہوتی ہے اور سکینہ اسے بات کرتے ہوئے سنتی ہے۔

نورالایمان
انٹر نیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد
بی۔ایس اردو
ساتواں سمیسٹر

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں