نظم معری اور نظم عاری (Blank verse)
ایسی نظم جس میں وزن اور بحر موجود ہو۔ لیکن قافیہ اور ردیف کا با قاعدہ التزام نہ ہو ” نظم معرا” کہلاتی ہے۔ حفیظ صدیقی کے مطابق: ” قافیے سے نجات پانے کی خواہش نظم معریٰ کی صورت میں ظہور پذیر ہوئی۔
موضوعات کی فہرست
نظم غیر مقفع اور نظم عاری کی اصطلاحات نظم عاری کے لیے استعمال ہوتی ہیں۔ ایسی نظموں میں قافیے کی پابندی نہیں ہوتی ۔ یعنی قافیہ یا تو سرے سے ہوتا ہی نہیں اور اگر ہو تو کسی معین اور روایتی نظام کا پابند نہیں ہوتا”۔
اہم بات یہ ہے کہ نظم معریٰ میں قافیہ ردیف کے التزام کے بغیر مربوط اور بامعنی بات کہی جاسکتی ہے۔ لیکن اس میں کہیں کہیں قافیہ ردیف بھی اپنی چھب دکھا جاتے ہیں ۔ اس صنف میں نادر کاکوروی، طباطبائی، اسماعیل میرٹھی، اور ساحر لدھیانوی کی طبع زاد اور ترجمہ شدہ نظمیں بھی موجود ہیں۔
نعت
نعت ایک ایسی صنف سخن ہے جو نبی آخرِ الزمان حضرت محمد ﷺ کے اوصاف حمیدہ، سراپائے مبارک اور حیات الزماں طیبہ کے بیان سے مخصوص ہے۔ نعت عربی سے اردو میں آئی ہے۔ دنیا کی پہلی نعت کہنے کا سہرا حضرت خدیجہ کے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے سر جاتا ہے۔ حضور ﷺ پہلی وحی اترنے کے بعد جب گھر تشریف لائے تو ورقہ بن نوفل نے تیرہ اشعار پر مشتمل نعت کہی جو آج بھی محفوظ ہے۔ اس کے بعد حضرت حسان بن ثابتؓ اور دیگر شعرائے عرب نے نعت کا سلسلہ شروع کیا۔
یہ بھی پڑھیں: اردو نظم کا تعارف
فارسی شعرا میں خاقانی، رومی، سنائی اور شیخ سعدی نے اعلیٰ پائے کی نعتیں لکھیں۔ اردو ادب میں حمد کی طرح نعت کا آغاز بھی جنوبی ہند سے ہوا ۔ شمالی ہند کے بھی تقریباً سبھی بڑے شعرا کو نعت کہنے کی سعادت حاصل ہوئی ۔ یہ حضور ﷺ کی ذات کا معجزہ ہے کہ غیر مسلم شعرا نے بھی نعتیں کہی ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: نظم معری اور آزاد نظم کا آغاز | pdf
واسوخت
واسوخت ایک موضوعی صنف شاعری ہے ۔ اس میں شاعر محبوب کے ظلم و جور ، تغافل ،رقیب سے تعلق ، بے وفائی اور ستم کشی کا گلہ کرتا ہے ۔ "واسوخت” فارسی لفظ ” واسوختن سے مشتق ہے جس کے معنی اعراض برتنے اور روگردانی کرنے کے ہیں۔
” واسوخت "کا مقصد محبوب کو راہ راست پر لانا ہوتا ہے۔ اس میں محبوب کی بے وفائی ، سنگ دلی اور اس کے ظلم و ستم کا ذکر کر کے اسے برا بھلا کہا جاتا ہے۔
تلخ لہجے میں اسے جلی کٹی سنائی جاتی ہیں اور دھمکی بھی دی جاتی ہے کہ اگر محبوب نے اپنے رویے میں تبدیلی پیدانہ کی اور عاشق کی طرف ملتفت نہ ہوئی تو وہ اس کی محبت سے دست بردار ہو کر کسی اور شخص سے دل لگا لے گا۔ معاملہ بند شعرا کے سرخیل فارسی شاعر وحشی یزدی کو "واسوخت "کا موجد سمجھا جاتا ہے۔
محمد حسین آزاد، عبدالحی ( مؤلف ,گل رعنا ,) اور قاضی عبدالودود کے مطابق اردو میں "واسوخت” میر تقی میر کی ایجاد ہے۔ بعض محققین اردو کا ابتدائی وا سوخت” نجم الدین شاہ مبارک آبرو” سے بھی منسوب کرتے ہیں۔
میر تقی میر ،میر حسن ،محتشم علی خان ، قائم ، سودا، انشاء، جرات، مؤمن اور امانت لکھنوی نے اس صنف میں طبع آزمائی کی ہے۔ اس ضمن میں امانت لکھنوی نے زیادہ شہرت پائی۔ انھوں نے دو واسوخت تصنیف کیے ۔ ” واسوخت” پرمشتمل مجموعہ کلام ” شعلہ جوالا” دو جلدوں میں لکھنو سے شائع ہوا ۔
جس میں میر وسودا سے لے کر داغ کے زمانے تک کے "واسوخت "موجود ہیں ۔ واسوخت کی بات ہو تو امیر مینائی کو بالکل بھی نظر انداز نہیں کیا جا سکتا۔” واسوخت” پرمشتمل ان کا ایک مجموعہ کلام "مینائے سخن” کے نام سے شائع ہو چکا ہے۔ "واسوخت” کی کوئی مخصوص ہیئت نہیں۔ آبرو کا واسوخت "جوش و خروش” جو بعض محققین کے نزدیک اردو کا پہلا واسوخت ہے یہ مثمن کی ہیئت میں ہے۔
Haikku/Hokkou ہائیکو
ہائیکو جاپان کی مقبول ترین صنف سخن ہے ۔ اس سبب یہ جاپان سے سفر کر کے بہت سے ممالک کی زبانوں میں بطور صنف رواج پاچکی ہے۔ اس کا پہلا اہم شاعر سوکان (Sokan) تھا۔ مت سود باشو نے سترہویں صدی عیسوی
میں ہائیکو کو جدا گانه صنف کے طور پر عروج بخشا۔ اٹھارہویں صدی میں ایسا (Issa) اور بوسون اس کے نمائندہ شاعر کہلائے جبکہ انیسویں اور بیسویں صدی میں شکی (Shiki ) اور سوسکی (Soski) نے ہائیکو کے نمائندگی کا حق ادا کیا۔ انور سدید لکھتے ہیں:” ہائیکو کی صنف جاپانی سے اردو میں آئی ہے۔
یہ صنف سخن تجربے اور مشاہدے کو اختصار اور کفایت لفظی سے پیش کرتی اور جاپانی مصوری کی طرح اشیاء اور مظاہر میں ایک واضح فاصلہ قائم رکھتی ہے۔ قاری اس فاصلے کو تخلیق مکرر کے دوران میں اپنے تخیل سے طے کرتا اور حظ اٹھاتا ہے۔ مظاہر فطرت اور اشیا یعنی موسم ما حول ، چین ، پھول، پرندے ہائیکو کا جسم بھی ہیں ۔
اس کی روح بھی اور یہ سترہ صوتی اوزان ۵۰۷۰۵ الفاظ کے تین منظوم مصرعوں میں پیش کیے جاتے ہیں ۔ انھی تین مصرعوں سے پوری معنویت تلازماتی انداز میں منکشف ہو جاتی ہے۔ اُردو شعرا نے ہیت اور خیال کے اس جاپانی انداز کی کچھ زیادہ پابندی نہیں کی بل کہ اس میں مختلف نوع کی تبدیلیاں پیدا کر لی ہیں ۔
یوں اردو ہائیکو کا مزاج اپنے ملک کے تہذیبی عناصر سے ابھارنے کی کوشش کی ہے ۔” [۸] اردو میں تین مصرعوں پر مشتمل اس صنف سخن کا پہلا مجموعہ ہائیکو پرو فیسر محمد امین کا ہے جو ۱۹۸۱ ء میں چھپا جب کہ اردو” ہا ئیکو "کے اولین نمونے قاضی سلیم کے ہاں ملتے ہیں ۔
حواشی
موضوع🍁 🍁🍁🍁نظم معریٰ /نظم عاری (Blank Verse)**،کتاب 📚ادبی اصطلاحات،صفحہ👈 ۔41تا 43،کورس کوڈ⭐ ۔9015،مرتب کردہ🖊️ فاخرہ جبین پروف ریڈر ساغر علی ارداس