اشکوں کو موتی میں پرو رہی تھی
یا اپنی قسمت پر وہ رو رہی تھی
وہ جاگی تھی یا پھر سو رہی تھی
یا وہ تسبیح یادوں کی پرو رہی تھی
اشکوں کو دھو کر وہ ایسے ہو رہی تھی
برسوں سے کسی خواب میں جیسے کھو رہی تھی
یادوں کی زنجیروں کو سانسوں میں سمو رہی تھی
جیسے برسوں سے میلا داغ کوئی دھو رہی تھی
آرزو!
وہ رب سے جڑتے وقت ایسے ہو رہی تھی
جیسے بچی کوئی ماں کی گود میں سو رہی تھی
از قلم (سدرہ میر)