ناصر کاظمی کی شاعری پر کچھ باتیں
2019 کی بات ہے جب پہلی مرتبہ ناصر کاظمی کے اشعار حیطہِ سماعت میں آئے، اور ذہن کے کسی طاقچے میں پڑے رہ گئے. پھر کورونا کے دنوں میں باقاعدہ شاعری پڑھنا شروع کی اور دیکھتے ہی دیکھتے 2024 آن پہنچا جب ناصر پر ایک مقالہ ہاتھ لگا جس نے ناصر کے مصرعوں کو ذہن کے اس طاقچے سے اٹھا کر دل کی سب سے محفوظ الماری میں مقفل کردیا. پھر ایک دن آیا کہ اپنے جیب خرچ سے ناصر کی کتابیں خرید لایا اور پڑھنا شروع کردیں
پڑھنے کے دوران ہر مصرعہ، ہر شعر، یوں لگتا تھا جیسے بنا بنایا خدا نے ان کے قلم کی نوک تک پہنچا دیا ہو. یاد کی بات آتی تو لگتا، ناصر سے اچھا کبھی کسی نے کسی کو یاد نہیں کیا ہوگا، رات کی بات آتی تو لگتا رات بنائی ہی اسلیے گئی کہ ناصر اس پر بات کریں، چاند بھی ناصر کی سہولت کیلیے زمین کے مدار میں چھوڑ دیا کہ جب رات کو کوئی ناصر کا ہم راہ نہ بن پاتا تو چاند ان کا ہم راہ ہوتا. ترکِ شوق کا خوف ذہن پر طاری ہوتا تو خوف اردگرد کے تمام عناصر پر چھاپ ڈالتا اور سب کچھ ڈرا ڈرا لگتا. رونا غالب آتا تو بغیر کسی ہچکچاہٹ کے اسکو خدا کی نعمت اور سہولت سمجھتے. جب کبھی اپنوں کے جا چکنے کا خیال آتا تو سب کچھ غیر ضروری لگنے لگتا اور وہ یادوں کے واروں کا مقابلہ کرتے رہتے، خود میں کھوئے رہتے.
مختصر یہ کہ کوئی بھی کیفیت ہو، ناصر اسے کسی عام انسان سے الگ طور پر محسوس کرتے. اگر ہم بیان کی بات کریں تو سادہ اور مکمل ہوتا، کبھی نامکمل ہوتا نامکمل ہونے کے باوجود مکمل ہوتا، سوالیہ انداز گاہے گاہے سننے کو ملتا جو کہ سوال ہونے کے ساتھ ساتھ جواب بھی ہوتا، سوچ کو تحریک دینا ان کی غزل کا خاصہ ہوتا.
یوں ان کی غزل کا مطالعہ جاری ہے ابھی تک،ویسے تو ناصر کی شاعری پر سالوں سے بات ہورہی ہے اور تاقیامت ہوتی رہے گی، وقت کی قلت کی وجہ سے بالکل مختصر سی تحریر پیش کر رہا ہوں، کچھ پسندیدہ اشعار :
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
………
جی جلاتا ہوں اور سوچتا ہوں
رائیگاں یہ ہنر نہ جائے کہیں
……….
بھری دنیا میں جی نہیں لگتا
جانے کس چیز کی کمی ہے ابھی
یاد کے بے نشاں جزیروں سے
تیری آواز آ رہی ہے ابھی
وقت اچھا بھی آئے گا ناصرؔ
غم نہ کر زندگی پڑی ہے ابھی
………
اپنی لہر ہے اپنا روگ
دریا ہوں اور پیاسا ہوں
………
وہ شہر میں تھا تو اس کے لیے اوروں سے بھی ملنا پڑتا تھا
اب ایسے ویسے لوگوں کے میں ناز اٹھاؤں کس کے لیے
مدت سے کوئی آیا نہ گیا سنسان پڑی ہے گھر کی فضا
ان خالی کمروں میں ناصرؔ اب شمع جلاؤں کس کے لیے
……….
وہ کوئی دوست تھا اچھے دنوں کا
جو پچھلی رات سے یاد آ رہا ہے
کسے ڈھونڈوگے ان گلیوں میں ناصرؔ
چلو اب گھر چلیں دن جا رہا ہے
………..
جدائیوں کے زخم درد زندگی نے بھر دیے
تجھے بھی نیند آ گئی مجھے بھی صبر آ گیا
پکارتی ہیں فرصتیں کہاں گئیں وہ صحبتیں
زمیں نگل گئی انہیں کہ آسمان کھا گیا
گئے دنوں کی لاش پر پڑے رہو گے کب تلک
الم کشو اٹھو کہ آفتاب سر پہ آ گیا
………..
میری ساری عمر میں
ایک ہی کمی ہے تو
آفتوں کے دور میں
چین کی گھڑی ہے تو
میں خزاں کی شام ہوں
رت بہار کی ہے تو
…………
دھوپ سے چہروں نے دنیا میں
کیا اندھیر مچا رکھا ہے
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصرؔ
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
…………..
کیا زمانہ تھا کہ ہم روز ملا کرتے تھے
رات بھر چاند کے ہم راہ پھرا کرتے تھے
جہاں تنہائیاں سر پھوڑ کے سو جاتی ہیں
ان مکانوں میں عجب لوگ رہا کرتے تھے
اتفاقات زمانہ بھی عجب ہیں ناصر
آج وہ دیکھ رہے ہیں جو سنا کرتے تھے
………….
خامشی حاصلِ موسیقی ہے
نغمہ ہے نغمہ نما غور سے سن
………….
وہ دل نواز ہے لیکن نظر شناس نہیں
مرا علاج مرے چارہ گر کے پاس نہیں
کبھی کبھی جو ترے قرب میں گزارے تھے
اب ان دنوں کا تصور بھی میرے پاس نہیں
………
میں کیوں پھرتا ہوں تنہا مارا مارا
یہ بستی چین سے کیوں سو رہی ہے
نہ سمجھو تم اسے شور بہاراں
خزاں پتوں میں چھپ کر رو رہی ہے
ہمارے گھر کی دیواروں پہ ناصرؔ
اداسی بال کھولے سو رہی ہے
………
دفعتاً دل میں کسی یاد نے لی انگڑائی
اس خرابے میں یہ دیوار کہاں سے آئی
……….
تحریر : عبدالواحد صابر
ناصر کی شاعری میں رات کا استعارہ عموماً گہرے جذبات، تنہائی، غم، یا بے چینی کی کیفیت کو ظاہر کرتا ہے۔ رات کا وقت اکثر انسان کی اندرونی کیفیات کی عکاسی کرتا ہے، جہاں انسان اپنے خیالات، احساسات اور خوابوں میں گہرائی سے غوطہ زن ہوتا ہے۔
شاعر رات کے اندھیرے کو ایک ایسے وقت کے طور پر پیش کرتا ہے جب انسان اپنی مشکلات اور چیلنجز کا سامنا کرتا ہے۔ یہ ایک علامت ہو سکتی ہے کہ جب سب کچھ خاموش ہوتا ہے، تب انسان اپنے اندر کی جنگ لڑتا ہے۔ ناصر کی شاعری میں رات کا استعارہ اس بات کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ کیسے انسان اپنی تنہائی میں خود کو تلاش کرتا ہے اور اپنی زندگی کی پیچیدگیوں کا سامنا کرتا ہے۔
یہ استعارہ کبھی کبھی امید کی کرن بھی پیش کرتا ہے، کیونکہ رات کے بعد صبح کا آنا ایک نئی شروعات کی علامت ہوتا ہے۔ ناصر کی شاعری میں یہ تضاد بھی نظر آتا ہے کہ کس طرح رات کی تاریکی میں انسان اپنی روشنی تلاش کر سکتا ہے۔
اس طرح، رات کا استعارہ ناصر کی شاعری میں ایک گہرا اور متنوع معنی رکھتا ہے، جو انسانی تجربات کی مختلف جہتوں کو اجاگر کرتا ہے۔
ناصر کاظمی کی غزل اور راویت
ناصر ہمیشہ نئی روایات کے حامی رہے ہیں۔ فرسودہ خیالات اور دقیانوسی ذہنیت کا ان کے یہاں کوئی مقام نہیں ہے۔ انھوں نے غزل کی حد درجہ مخالفت کے اسباب پر غور کیا اور اس نتیجے پر پہنچے کہ غزل میں کچھ نیا ہونا چاہیئے ۔
وہ کہتے ہیں:
"لیکن دراصل میں نے غور کیا کہ غزل کے خلاف لوگ نہیں تھے، بلکہ غزل میں Cliche کی پرانی ڈگر جو تھی اس کے خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ میاں نئی بات کرو۔”
ناصر کی شاعری کا بغور مطالعہ کریں تو ہم پائیں گے کہ انھوں نے غزل کی قدیم روایات سے کافی حد تک اجتناب کیا ہے حالاں کہ ان کی اکثر غزلوں میں کلاسیکی شاعری کا عکس نمایاں ہے۔ ناصر کہتے ہیں:
"جو فنکار نئی روایت نہیں بنا سکتا وہ کوئی تحقیقی کارنامہ بھی نہیں کر سکتا۔(12)
ناصر کے اشعار اس امر کے غماز ہیں کہ انھوں نے ہمیشہ نیا سوچا ہے، نیا کیا ہے اور نیا کرنے کا ہی پیغام بھی دیا ہے۔ وہ ایک نئی دنیا کے متلاشی ہیں۔ ایک نیا جہاں تعمیر کرنا چاہتے ہیں۔
نت نئی سوچ میں لگے رہتا
ہمیں ہر حال میں غزل کہتا
میں تو ایک نئی دنیا کی دھن میں بھٹکتا پھرتا ہوں
میری تجھ سے کیسے نبھے گی ایک ہیں تیرے فکر و عمل
کب تک بیٹھیں ہاتھ ملیں
چل ساتھی کہیں چلیں
ماخذ: مقالہ ناصر کاظمی شخصیت اور ادبی خدمات، ڈاکٹر شریف احمد