نعت رسول کا مختصر پس منظر

نعت رسول کا مختصر پس منظر

نعت کی روایت تخلیق آدم سے آغاز ہوتی ہے۔ کہتے ہیں حضرت آدم کو جب پہلا الہام ہوا، توہ آپ کو ابو محمد، کہ کر پکارا گیا ، آپ نے نور محمدی کو دیکھ کر تعجب سے پوچھا: اے میرے پروردگار ! یہ کیسا نورہے؟ ارشاد ہوا:

"یہ نور اس نبی کا ہے جو تمہاری اولاد میں سے ہوگا۔ جس کا نام آسمانوں پر احمد اور زمین پر محمد ہوگا۔ اگر یہ نور نہ ہوتا تو میں نہ تمہیں پیدا کرتا ، نہ یہ زمین و آسمان پیدا کئے جاتے ۔“

یہی وہ توصیفی کلمات تھے ، جو بطور تعارف خالق کا ئنات جل شانہ کی طرف سے اپنے خاص بندے اور رسول اولین و آخرین کی شان میں ارشاد ہوئے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو نعت میں غیر اسلامی عناصر کا تحقیقی و تنقیدی pdf

لازم تھا کہ جس کی منزلت و شان خود مالک کا ئنات نے بیان کی اور اپنے پہلے بندے آدم کو اُس سے آگاہ کیا، وہ بھی اُس کے حضور خراج پیش کرے، جس کے صدقے میں اُسے خلافت ارضی کا منصب جلیلہ ملنے والا تھا۔ آخر وہ وقت بھی آ گیا، یہی مشیت ایزدی تھی ۔ آدم و حوا زمین پر اتارے گئے اور آدم کو حوا سے قرب کی خواہش ہوئی، تو مہر کے عوض ارشاد ہوا:

"اے آدم ! ہمارے حبیب محمد رسول اللہﷺ پر بیس مرتبہ درود بھیجو۔ (۹)

روئے زمین پر حبیب خدا کا یہ پہلا ذکر تھا۔ پہلی مدح پہلا درود اور پہلی نعت جو انسانوں کے جد امجد نے اللہ کے حکم سے آنے والے محمدﷺ بن عبد اللہ کے حضور پیش کی ۔ اگر چہ ان روایات کی استنادی حیثیت اتنی محکم نہیں، جتنی ان کی شہرت ہے، تاہم سابق آسمانی کتابوں کے مطالعہ سے یہ ضرور معلوم ہوتا ہے کہ اب ہر آنیوالے پر فرض ہو گیا کہ جانے سے پہلے ممدوح کا ئنات ﷺ کے آنے کی بشارت دے،

اُس کی نشانیاں بتائے ( نعت کہے ) اور اُس کی صفات بیان کرے ( مدح کہے ) ۔ اس سلسلے کا آغاز خصوصاً عربی سے ہوتا ہے، خلیفہ دوم حضرت عمر فاروقؓ کے ہاتھوں فتح ایران کے بعد نعت کو فارسی میں بھی رواج ملا۔

جس کی بدولت ہندوستان کی علاقائی زبانیں بھی نعت کے نور سے مستنیر ہو ئیں ۔ یوں اُردو زبان جو ہندوستان کی تمام تر علاقائی زبانوں کی شستہ ورفتہ صورت ہے ۔ اپنے آغاز ہی سے نعت بداماں نظر آتی ہے۔ چنانچہ مناسب ہے کہ اردو نعت کی روایت سے قبل عربی فارسی نعت کا سرسری جائزہ لے لیا جائے۔

نعت کے ادوار

  1. عہد رسالت تک عربی نعت ، کتب سماوی کی بشارات ، کہان و احبار کی پیش گوئیوں پر مشتمل تھی۔ اس میں قرآن حکیم میں ذکر رسول کو بھی شامل کر لیا جائے ، تو یہ نعت کا دور اول کہلانے کا مستحق ہے۔
  2. نعت کے دوسرے دور میں نعت ، قریش مکہ کی ستم رانیوں یا اہل ایمان کی صبر آزما مظلومیت اور دوسری طرف آپ کی دعوت توحید کی روز افزوں تائید کی رودادوں پر مشتمل ہے۔
  3. اس عہد کی نعت کا تیسرا دور حرکت اسلامی کا وہ شاندار تذکرہ ہے، جو ہجرت مدینہ سے وفات رسول تک کامیابیوں اور کامرانیوں اور قربانیوں اور جاں فشانیوں کی تاریخ ہے۔

ذیل میں ہر دور کے چند منتخبات درج ہیں۔

یوحنا ، لو قا ، اعمال، کتاب پیدائش، مکاشفہ ، یوحنا اور استثناء میں حضور نبی کریمﷺ کی صفات بیان ہوئی ہیں اور آپ کو مثیل موسی جامع الکمالات نبی کہا گیا ہے ۔ (۹)

گوتم بدھ نے مرتے وقت نندا سے آخر بدھ کی جو صفات بیان کیں، وہ بھی خصوصاً تیر یا ( رحمتہ للعالمین ) اور مکمل ضابطہ حیات اور مکمل نظام زندگی کی تبلیغ کے حوالے سے حضورﷺ ہی کی نعت ہے۔

ویدوں میں آپ کے والد بزرگوار کا نام و شنو بھگت (عبدالله ) والدہ کا نام سمانی (آمنہ ) جگہ پیدائش سالمدیپ ( عرب ) اور تاریخ پیدائش بارہواں دن سوموار بتائی گئی ہے (۱۱)

ویدوں نے آپ کو جگت گرد ( سرور عالم ) کلینکی اوتار ( خاتم النبین ) کے لافانی القابات سے یاد کیا ہے۔ بھگوت گیتا کی پر ان اور بھوشیہ پر ان کے علاوہ بام وید کے پھاٹک کھنڈ ا منتر ۸ میں آپ کا نام احمد لے کر، اپنے رب سے پر حکمت شریعت پانے کی خبر دی گئی ہے ۔ (۱۲)

حضرت عبداللہ ابن عمر و ابن العاص نے تو رات کے حوالے سے آپ کی یہ صفات بیان کیں ۔

امت کے حال کا گواہ بشارت دینے والا ڈرانے والا گروہ اُمیین کا پناہ دہندہ میرا بندہ، میرا پیغمبر نہ بد خلق ، نہ سخت مزاج، برائی کا بدلہ بُرائی سے نہ دینے والا ، بلکہ معاف کر دینے اور بخش دینے والا نا بینا آنکھوں کو بینا اور ناشنوا آنکھوں کو شنوا کر دینے والا سربستہ دلوں کو کشادگی دینے والا (۱۳)

پہلی با قاعدہ نعت منظوم یمن و حضرموت کے بادشاہ ابا کرب المعروف به تبع ثانی نے یثرب پر چڑھائی کے دوران اہلِ یثرب کے اخلاق سے متاثر ہو کر اُس وقت کہی ، جب اُسے معلوم ہوا کہ یہ شہر ایک نبی کی فرودگاہ ہونے کے باعث شہر مامون ہے اور اہل یثرب کو تبع کی ناکامی کا یقین تھا۔

ترجمہ: میں اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ احمد (صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول ہیں، جو جان ڈالنے والا ہے۔ آپ کے ظہور تک اگر میری زندگی نے وفا کی ، تو میں آپ کا وزیر ( مددگار ) اور چچا زاد بھائی ہوں گا۔

تلوار سے آپ کے دشمنوں سے جنگ کروں گا، حتی کہ آپ کی دل تنگی ، کشادگی اور فرحت میں بدل جائے اور آپ کے دل سے سارے غم دور ہو جائیں ۔ آپ کی اُمت بہترین امت ہوگی ، جس کا ذکر کتاب زبور میں ہے۔

جیسا کہ سمیت فی الزبور سے واضح ہے۔ یہ سب کچھ کتب وصحف سماوی میں درج تھا۔ حضور نبی اکرمﷺ کے جد امجد کعب ابن لوئی پہلے بزرگ تھے۔ جو عروبہ ( جمعہ ) کے دن خطبہ دیا کرتے تھے، وہ اپنے خطبات میں ایک رسول کی بعثت کی نویدیں سناتے رہتے تھے۔ انہوں نے بھی تبع کی طرح یہ آرزو کی:

حواشی

موضوع۔ – نعت رسول ﷺ کا مختصر پس منظر،کتاب کا نام۔اردو ادب کا پاکستانی دور1۔،ص۔75تا 77،کورس کوڈ۔5615،مرتب کردہ۔Hafiza Maryam

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں