مکالمہ نگاری کا فن
مکالمہ نگاری کا فن، مکالمہ کے لغوی معنی کلام کرے ، گفتگو اور زبانی سوال و جواب کے ہیں۔ کلام کرنے والے کو متکلم اور جس سے بات کی جائے اُسے مخاطب کہتے ہیں ۔ آپس میں بات چیت کرنا مکالمہ کہلاتا ہے۔ بقول مولوی عبد الحق : ہم آپس میں جو بات چیت کرتے ہیں یہی ہماری زبان ہے۔
موضوعات کی فہرست
یہ زبان کی ابتدائی صورت ہے۔ اس کے بعد دوسرا درجہ ان شکلوں کا ہے جو تحریر میں اور پڑھنے میں آتی ہیں۔ گفتگو کے دوران ہم فطر نا تخلیقی عمل کے نتیجے میں مکالمات مجھے رہتے ہیں ۔ تخلیقی نثر کی ابتدائی اور سادہ ترین صورت ہے۔ مکالمہ تمام تخلیقی اصناف میں کسی نہ کسی صورت میں پایا جاتا ہے۔
مکالمے کی اقسام
مکالمے کی مختلف صورتیں ہیں، مثلاً دو اشخاص کا آپس میں مکالمہ مصنف خود متکلم متکلم کسی کردار کا ترجمان خود کلامی، سر گوشی غیبی آواز وغیر ہ تمام تخلیقی اصناف میں کردار ناگزیر ہیں، خواہ وہ واحد ہوں یا جمع: حاضر ہوں یا غائب انسانی کردار ہوں یا حیوان شجر حجر ہوں یا تصورات۔ ان تمام صورتوں میں مکالمہ ایک لازمی امر ہے۔ وہ اشخاص کے مکالمے کی مشق انٹرمیڈیٹ کی سطح تک کرائی جاتی ہے مثلا دکان دار اور گاہک کے درمیان مکالمہ
ڈاکٹر اور مریض کے درمیان مکالمہ، استاد اور شاگرد کے درمیان مکالمہ، دو دوستوں کے درمیان کسی خاص موضوع پر مکالمہ وغیرہ ۔ یہ سرگرمی تحقیقی صلاحیت کو بیدار کرنے اور اعتماد بحال کرنے کے لیے ہوتی ہے۔ اگر استاد طالب علم کو اپنے لیے لکھے ہو اعتماد دینے میں کامیاب ہو جائے تو سمجھ لینا چاہیے کہ تحریر میں تخلیقی عمل کی قلم لگ گئی۔
مشاہدے کی بات ہے کہ جن طلبہ کو مکالمہ لکھنے کی چاٹ لگ جائے ، انھیں چمکانے کے لیے بہت کم رہنمائی کی ضرورت باقی رہتی ہے۔ ان کی قوت متخیلہ۔ خود سے سابقہ تجربات کو ٹٹول ٹٹول کر جذبے اور احساس سے معمور دلچسپ مکالمات لکھنے پر قادر کر دیتی ہے۔ اس کامیابی پر طالب علم تحقیقی مسرت کو چکھتا ہے اور اس میں تحقیقی عمل کا ذوق نمو پاتا ہے۔
تخلیقی اصناف میں مکالمات اس ابتدائی مشق کی ترقی یافتہ صورت ہوتے ہیں۔ مصنف یا تو خود کہانی کا حصہ ہوتا ہے یعنی کردار ہوتا ہے اور کلام کرتا ہے یا پھر ترجمان ہوتا ہے۔
مصنف کے ذہن میں داستان ، ناول افسانہ غرض تخلیق کی جو بھی صورت جلوہ گر ہو، اس کے تمام کرداروں کی روح خود مصنف ہوتا ہے لیکن اُس کا کمال یہ ہے کہ وہ کہیں دکھائی نہیں دیتا، اس کے مخصوص تصورات ، نظریات اور عقائد کی چھاپ کہیں نظر نہیں آتی۔
مصنف خود کو کئی کرداروں میں تقسیم کر دیتا ہے۔ کہانی کا ہیرو، کہانی کی ہیروئن، با دشاہ گداگر ، سود اگر غرض تمام انسانی حالتوں کا تر جمان بنتا ہے ۔ نہ صرف یہ بل کہ وہ تو نباتات حیوانات اور جمادات کی زبان بھی بن سکتا ہے۔
خود کلامی، سرگوشی نہیں آواز بھی مکالمے کی مختلف صورتیں ہیں۔ خود کلامی میں کرداروں کے ذاتی ارادے قلبی کیفیت ، جذبات اور احساسات وغیر ہ کا اظہار ہوتا ہے۔ سر گوشی رازداری کے لیے ہوتی ہے لیکن بعض اوقات افشائے راز کے لیے بھی غیبی آواز مشکل میں رہنمائی ، کشمکش میں فیصلے اور پچھتاوے یا انجام کی خیر وہی کے لیے ہوتی ہے۔
مکالمہ نگاری کے رہنما اصول
مکالمہ سادہ ہونا چاہیے ۔ سادگی دو طرح سے ہے۔ ایک تو الفاظ آسان ہوں ، مشکل اور نا مانوس الفاظ استعمال نہ کیے جائیں ۔ دوسرا بات الجھی ہوئی نہ ہو۔ بالکل واضح ہو۔ مکالمے میں جو بات کہنا مقصود ہے، اس پر کافی غور و فکر کر لینا چاہیے۔
ایک بات کئی طرح سے کہی جاسکتی ہے۔ ابتدا مکالمہ لکھتے وقت رف عمل میں ایک بات کو کئی طرح سے لکھ لینا چاہیے تا کہ بہتر صورت کا انتخاب کیا جا سکے۔ مشق سے رفتہ رفتہ بہتر صورت مزاج میں در آتی ہے۔ واحد متکلم کا مکالمہ ملاحظہ کیجیے۔
میں علی الصبح وہاں پہنچا۔
میں صبح تڑ کے وہاں پہنچا۔
میں ارلی مارجنگ وہاں پہنچا۔
میں صبح سویرے وہاں پہنچا۔
میں سویرے سویرے وہاں پہنچا۔
ایک ہی بات ہے مگر پانچ طرح سے کہی گئی۔ یہ تمام مکالمے درست ہیں۔ تا ہم پہلے جملے میں علی اصح مرکب لفظ ہے ۔ یہ مرکب قدرے مشکل اور بھاری بھر کم ہے۔ دوسرے جملے میں تڑکے کا لفظ ہے کم مستعمل ہونے کے باعث، نامانوس ہو چکا ہے۔
تیسرے جملے میں ارلی ما رنگ انگریزی کے الفاظ ہیں۔ ان کی جگہ اردو میں صبح سویرے اور سویرے سویرے کے الفاظ آسانی سے ملتے ہیں۔ آخری دو صورتیں بہتر ہیں ۔ مکالمے میں اگر جز کی پہلو پر زور دینا مقصود ہو تو سویرے سویرے میں حرکت کا عنصر زیادہ ہے، یہ موزوں ہو گا۔ اگر سب پر زور دینا ہو تو صبح سویر ے موزوں ہے۔
مکالمہ نگاری میں موزوں الفاظ کا انتخاب ضروری ہے۔ الفاظ کی موزونیت کردار پر منحصر ہے۔ کردار کی ذہنی و معاشی حالت، ماحول اور معاشرتی حالت وغیرہ کا لحاظ رکھا جاتا ہے۔ حفظ مراتب کو پیش نظر رکھتے ہوئے مکالمہ لکھنا چاہیے۔ ہر مرتبے کے لوگوں کی نفسیات مختلف ہوتی ہے۔
لوگ مختلف طرح کے تکیہ کلام اور لاشعوری کلمات ادا کرتے ہیں۔ دیہاتی اور ان پڑھ کردار بہت سے لفظوں کا تلفظ اپنے کسی مخصوص انداز میں کرتے ہیں۔ یہ سب زبان کا حصہ ہیں۔ انھیں نظر انداز نہیں کرنا چاہیے۔
پریم چند کا مشہور افسانہ کفن” مثال کے طور پر دیکھا جا سکتا ہے۔ اس افسانے میں نچلے طبقے کے ہندو ( چمار) گھرانے کی نفسیات کو خوب صورتی سے پیش کیا گیا ہے کفن کو کپھن اور ضرور کو جہور اور خوب کو کھوب لکھا ہے ۔ الفاظ کے ان مخصوص تلفظ سے مکالمے فطری معلوم ہوتے ہیں۔ غیر فطری کلام مکالمہ نگاری کا عیب ہے۔
کلام فطری انداز میں روانی کے ساتھ ہونا چاہیے۔ فطری انداز یہ ہے کہ فطرت ، عادت ، طبیعت اور مرتبے کے موافق ہو۔ روانی یہ ہے کہ کلام میں ایسے الفاظ لائے جائیں جن کے ادا کرنے سے زبان کو رکاوٹ نہ ہو، مثلاً: تم یہاں سے کل کیا چلے گئے کہ گھر کی رونق ہی چلی گئی تھی۔
اس جملے کا مطلب واضح ہے لیکن کل کیا چلے گئے کہ“ کو زبان سے ادا کرنے میں رکاوٹ محسوس ہوتی ہے۔ اس کو اگر یوں لکھیں کہ گھر کی رونق تو تمھارے ساتھ ہی چلی گئی تھی ۔ تو جملے میں بہتری آئی ہے مگر تو تمھارے کی وجہ سے وہی عیب ایک دوسری صورت میں آگیا ۔ جب اس جملے کو یوں لکھا: گھر کی
رونق تمھارے ساتھ ہی چلی گئی تھی۔ تو اس میں روانی کے ساتھ حسن بھی پیدا ہو گیا ۔
مکالمہ | جملہ چست ہونا چاہیے ۔ چست کے معانی ہیں: درست کھچا ہوا ، تیز ۔ مکالمہ صرف اور نحو کے اعتبار سے درست ہو، یعنی درست انداز میں الفاظ ترتیب دیے گئے ہوں۔ لفظوں کا درست ہونا تین طرح سے ہے۔ الفاظ کا املا درست ہو ۔ یعنی کے اعتبار سے موزوں ہوں۔ تلفظ کی غلطی نہ ہو۔ علاو وازیں قواعد زبان، روزمرہ اور محاورہ کی غلطی نہ ہو۔ مکالمہ چست ہو، اس میں ڈھیلا پن نہ ہو۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ادائے مطلب کے لیے ضرورت سے زائد
الفاظ نہ ہوں ۔ آپ نے روزمرہ گفتگو کے دوران کبھی غور کیا کہ جو شخص طول کلام سے کام لیتا ہے ہم اس سے بھاگتے ہیں ۔ ہم چاہتے ہیں کہ مطلب کی بات فورا پہنچ جائے۔ مزے دار با تیں ہمیشہ مختصر ہوتی ہیں، چشکہ مختصر مگر تیز ہوتا ہے اس لیے ہم بڑے شوق سے چٹکلے کا مزہ لیتے ہیں۔
اچھا مکالمہ وہ ہوتا ہے جس میں نہ تو کسی لفظ کی بدلنے کی ضرورت پڑے نہ ہی کسی کمی کا احساس ہو، اور نہ ضرورت سے زائد الفاظ موجود ہوں۔ جملے میں سے اگر غیر ضروری لفظ نکال دیے جائیں تو جملہ کس جاتا ہے۔ ہماری روزمرہ گفتگو کے بہت سے غیر ضروری الفاظ ہمارے اسلوب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ پھر یہی الفاظ ہماری تحریر میں بھی آجاتے ہیں۔
اچھی گفتگو مختصر ، جامع موزوں اور نا گزیر الفاظ پر منی ہوتی ہے ۔ان اوصاف کے حامل فقرے چست کہلاتے ہیں۔ آیئے انشا اور تلفظ کی روشنی میں چند جملوں کو چست کرنے ( زائد لفظ نکالنے ) کی مشق کرتے ہیں ۔ چوں کہ وہ بیمار تھے ، اس لیے میں ان کو دیکھنے کے لیے گیا تھا۔ وہ بیمار تھے، اس لیے میں انھیں دیکھنے گیا تھا ۔
وہ اگر چہ مصروف نہیں تھے، مگر وہ میرے پاس نہیں بیٹھے۔ وہ مصروف نہ تھے مگر میرے پاس نہیں بیٹھے۔
اب تم کدھر کو جاؤ گے؟
اب تم کدھر جاؤ گے؟
محمود وہاں گئے تو ہیں، لیکن دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
محمو د و ہاں گئے تو ہیں، دیکھیے کیا ہوتا ہے۔
یہ مانا آپ وہاں نہیں جائیں گے۔
یہ مانا کے آپ وہاں نہیں جائیں گے۔
وہ سوچتا رہا تھا کہ اگر اس دفعہ فیل ہو گیا تو رسوائی ہوگی۔
وہ سوچ رہا تھا کہ اس دفعہ فیل ہوا تو رسوائی ہوگی۔
میں نے کہا ضرور تھا کہ میں تمھارے ساتھ چلوں گا۔ میں نے کہا ضرور تھا کہ تمھارے ساتھ چلوں گا۔
تم کبھی بھی اس کام کو مکمل نہ کر سکو گے۔
ہم وہیں پر بیٹھے تھے۔
تم کبھی اس کام کو مکمل نہ کر سکو گے۔
ہم وہیں بیٹھے تھے۔
مکالمات میں برجستگی ضروری ہے۔ برجستہ کے معنی ہیں، فی البدیہ، بے سوچے ، بے بغیر فکر کیے لیکن پر محل ، موقع کے مطابق ۔ ہماری عام گفتگو عموماً یہ برجستہ ہوتی ہے ۔ اس کے بر عکس ابتدا میں لکھتے وقت عموماً تکلف در آتا ہے۔ یوں مکالمہ مصنوعی محسوس ہوتا ہے۔ یہ برجستہ اور مصنوعی مکالمے میں آمد اور آورد کا فرق ہوتا ہے۔
جذبہ اور احساس تخلیقی نثر کی جان ہیں۔ جان دارمکالمہ وہی ہو گا جو جذبے سے معمور اور احساس سے لبریز ہو۔ ہم مختلف کیفیات کے لیے مختلف الفاظ استعمال کرتے ہیں، مثلاً مرحباء والله، لا حول ولاقوة ہائے ، وائے، آہا، آہا ہا، تف وغیرہ جذبے کی کیفیت قوسین میں بھی لکھی جاتی ہے جیسے: (فرط جذبات سے ) ( نحیف آواز میں ) ( لجاجت سے ) وغیرہ ۔
کیفیت کے لیے بعض اوقات رموز اوقاف بہت اہم کردارادا کرتے ہیں ۔ ندا ئیہ، فجائیہ ” سوالیہ تفکیری خط اور زنجیرہ وغیرہ کے استعمال سے کیفیت اور مقدار کیفیت کو پیش کیا جاتا ہے۔ یہ مکالمے کے ضروری لوازمات ہیں ۔
تخلیقی نثر کا مکالمہ علمی مباحث کا تحمل نہیں ۔ ان سے گریز لازم ہے ۔ تخلیقی مکالمہ ہمیں ادبی پیرائے میں شعور بخشتا ہے ۔ اس کی خوبی لطافت میں ہے فن پارے کی لطافت ہمارے تعمیر کے بوجھل پن اور جذبے کی حسن کم کرتی ہے ۔ اس کے بر عکس ادبی تحریر میں علمی پیرائیہ بیان بو جھل پن کا باعث ہوتا ہے۔
کلام با هم مربوط ہونا چاہیے۔ باتوں کا آپس میں ربط ہو۔ ایک خیال چند مکالمات میں ادا ہوتا ہے۔ دوسرا خیال کسی نہ کسی ربط کی بنا پر پیش کیا جانا چاہیے ۔ اسی طرح خیال در خیال کی پیش کش سے مکالمے میں ربط اور تسلسل کو قائم رکھا جا سکتا ہے۔ تسلسل کو ارتقا پذیر ہونا چاہیے ۔
دوران گفتگو ہمارے خیالات اور جذبات آواز اور لہجے کے زیر و بم سے مختلف کیفیات پیدا کرتے ہیں۔ نظر کی دیگر تحقیقی اصناف کی طرح مکالمہ بھی ابتدا سے نقطہ عروج کی طرف بڑھتا ہے۔ یہاں تک که مکالمه اختتام پذیر ہو جاتا ہے۔ مکالمہ تحریر کرتے وقت ان امور کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔
حواشی
موضوع:مکالمہ
کتاب کا نام۔تحریروانشا(عملی تربیت)
کورس کوڈ۔9008
ص۔105 تا 109
مرتب کردہ۔Hafiza Maryam