مجھے دل کی خطا پر پاس شرمانا نہیں آتا کی تشریح

مجھے دل کی خطا پر پاس شرمانا نہیں آتا

1.4- یگانہ کی غزل (انتخاب)

غزل گو شعرا

مجھے دل کی خطا پر پاس شرمانا نہیں آتا
پرایا جرم اپنے نام لکھوانا نہیں
آتا

لغت :
خطا : غلطی
پرایا: کسی اور کا

تشریح

مطلع میں یگانہ نے دل کے بارے میں یہ اطلاع دی ہے کہ وہ اپنی مرضی کا خود مالک ہے۔ شاعر کا اثر ورسوخ دل پر نہیں ہے۔ لہذا اس نے جو غلطی کی کہ ایک بندے پر عاشق ہو گیا ہے اس میں میرا کوئی دوش نہیں۔ جب جرم کسی اور نے کیا ہے تو مجھے اس پر شرمندہ ہونے کی کیا ضرورت ہے۔ دل کے معاملات دل جانے ۔ وہ عقل کی کسی دلیل کو نہیں مانتا۔ نفع و نقصان کی پروا اسے نہیں ، اس لیے غلطی کا ذمہ دار وہی ہے۔ عمومی طور مقتل نفع و نقصان کے تخمینے لگاتا ہے لیکن عشق جو دل کا فیصلہ ہوتا ہے وہ نتائج کی پرواہ نہیں کرتا۔ اس لیے شاعر نے دل سے لاتعلقی کا اظہار کیا ہے۔

شعر 2

مجھے اے نا خدا آخر کسی کو منہ دکھانا ہے
بہانہ کر کے تنہا پار اتر جانا نہیں آتا

لغت:
نا خدا : ملاح
بہانہ : عذر توجیه

تشریح

اے کشتی چلانے والے ( پنچھی ) میں اپنے دوست کو کیا جواب دوں گا اگر میں اکیلا دریا کے پار جا اترا۔ جب محبوب کو دیکھا ہے اور بوجوہ وہ کشتی پر سوار نہیں ہو سکا تو میں اس کے بغیر ہرگز دوسرے کنارے ( منزل مقصود ) پر نہ جاؤں گا۔ ملاح نے وقت پر کشتی کو دریا میں چھوڑنا ہے۔ شاعر کا یار ابھی تک کنارے پر نہیں آیا۔ عاشق کے طور پر دو منت سماجت کر کے ملاح کو سمجھ رہا ہے کہ دوستوں کو چھوڑ جانا بے وفائی کے مترادف ہوتا ہے۔ یہ شرفا کا شیوہ نہیں اور پھر معشوق کو جب ملوں گا تو کس منہ سے اس کا سامنا کروں گا۔ مجھے شرمندہ ہونے سے بچالو اور یار کے ساتھ ہی پار لگاؤ۔

شعر

مصیبت کا پہاڑ آخر کسی دن کٹ ہی جائے گا
مجھے سر مار کر تیشے سے ، مر جانا نہیں آتا

لغت :
مصیبت کا پہاڑ : مشکل دن
تیشہ : پتھر توڑنے کا آلہ

تشریح

یہ روش زمانہ ہے کہ زندگی میں جو مشکلات آتی ہیں تو پھر اچھے دن بھی آجاتے ہیں۔ محبوب نے جو ظلم کے پہاڑ عاشق پر توڑے ہیں اس سے دلبرداشتہ نہیں ہونا چاہیے اور شیریں کے نہ ملنے پر فرہاد کی طرح تیشے سے خود کشی نہیں کر لینی چاہیے۔ میں ہرگز ایسا نہ کروں گا۔ مجھے پوری امید ہے کہ ایک روز میرا معشوق اپنی جفاؤں سے ہاتھ کھینچ لے گا اور خدا مجھےمرے صبر کے عوض وصال یار سے ہم کنار کرے گا۔ مایوس ہو کر اپنی جان گنوانا عقلمندی نہیں ہے۔ ہر حال میں امید کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاہئے ۔

شعر :

دل بے حوصلہ ہے اک ذرا سی ٹھیس کا مہماں
وہ آنسو کیا ہے گا جس کو غم کھانا نہیں آتا

لغت :
بے حوصلہ : بے قرار
ٹھیس :تکلیف

آنسو پینا اور غم کھانا ( محاورے ہیں )
مصائب جھیلنا
دکھ اٹھانا

تشریح

دل بہت عجیب چیز ہے یہ ہر کام کی تکمیل جلد چاہتا ہے۔ ہجر کی تکلیف اسے برداشت نہیں ہوتی ۔ اب تھوڑی سی بھی کوئی اور اونچ نیچ کوئی صدمہ اس کے لیے جان لیوا ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ جو غم سہنے کی ہمت نہیں رکھتا وہ آنسو کیسے روک پائے گا۔ دوسرے مصرعے میں دو محاوروں کو خوبصورتی سے استعمال کیا گیا ہے، آنسو پینا اور غم کھانا۔ عاشقی میں ایسے کمزور دل حضرات کا کوئی کام نہیں بلکہ یہاں عزم و ہمت کے کوہ گراں ہی کامیاب ہو پاتے ہیں۔

شعر:

سراپا ناز ہوں میں کیا بتاؤں کون ہوں ، کیا ہوں
سمجھتا ہوں مگر دنیا کو سمجھانا نہیں آتا

لغت :
سراپا ناز: نازک مزاج

تشریح

اردو کے علاوہ ناز فارسی شاعری میں بھی کثرت سے استعمال ہوا ہے۔ عشق حقیقی ومجازی دونوں کے مضامین میں اس کو باندھا گیا ہے۔ یاس یگانہ چنگیزی اپنی پہنچانے سے قاصر رہتا ہوں۔

پروف ریڈر نائمہ خان

حواشی

کتاب کا نام: شعری اصناف تعارف و تفہیم
کوڈ: 9003،صفحہ: 130،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں