مولانا رومی کے احوال و آثار

مولانا روم کے احوال و آثار

مولانا رومی کے احوال و آثار، مولانا جلال الدین رومی اپنے وطن / مولا بلخ کی نسبت سے بلخی بھی مشہور ہیں لیکن زیادہ تر ان کے لئے مولانا مولوی اور رومی کے الفاظ استعمال کئے جاتے ہیں۔ ان کی ولادت سلطان العلما محمد بہاء الدین کے ہاں بلخ میں ۲۰۴ / ۱۲۰۷ء میں ہوئی۔ ابتدائی رسمی تعلیم اپنے صاحب کمال والد سے حاصل کی اور تربیت کے دیگر مراحل سید برہان الدین محقق نے انجام دیئے ۔

اٹھارہ انیس برس کی عمر تک گھر سے دور رہ کر مراحل تربیت طے کئے اور پھر والد کی خدمت میں حاضر ہو گئے والد کے انتقال کے بعد قونیہ کی سکونت ترک کرتے ہوئے حلب اور دمشق کی طرف نکل کھڑے ہوتے حلب پہنچ کر مولانا نے شیخ کمال الدین بن عدیم طلبی سے رشتہ تلمذ استوار کیا۔

یہ بھی پڑھیں: علامہ اقبال اور مولانا روم کے تصور فقر کا تقابلی جائزہ | PDF

مولانا کے احباب میں صلاح الدین زرکوب اور شیخ صلاح الدین چلپی کے نام اہم ہیں لیکن جس شخصیت نے مولانا کی زندگی میں انقلاب پیدا کر دیا وہ ان کے مرشد روحانی حضرت شیخ شمس تبریز کی ہے جو بابا کمال الدین کے خلیفہ تھے اور جنہوں نے قونیہ جا کر مولانا سے ملاقات کی تھا ۔

شمس تبریز سے مولانا کا تعلق

شیخ شمس تبریز سے مولانا کا تعلق خاطر عشق کو پہنچ گیا تھا۔ اپنے شیخ کے ساتھ غایت درجہ محبت کا ایک اظہار اس بات سے بھی ہوتا ہے کہ مولانا نے اپنے دیوان غزلیات کو اپنے نام کی بجائے اپنے شیخ کے نام سے منسوب کر کے ”دیوان شمس تبریز قرار دیا ہے

شیخ شمس تبریز کے ساتھ مولانا کی غایت درجہ عقیدت و وابستگی کو کچھ لوگوں نے اچھی نظر سے نہ دیکھا چنانچہ روایات کے مطابق شیخ شمس تبریز کو قتل کر دیا گیا یا کم از کم وہ ۱۳۵ ھ میں منظر عام سے غائب ہو گئے ۔

شیخ کی جدائی

شیخ کی جدائی مولانا کو بہت شاق گزری اس دوری سے ان کے دل میں پایا جانے والا شعری ولولہ جوان تر ہو گیا اور انہوں نے شیخ کی یاد میں بے پناہ شاعری کی۔

شمس تبریز کی رفاقت سے محرومی کے بعد مولانا کا ایسا ہی تعلق صلاح الدین زرکوب سے ہوا لیکن صلاح الدین زرکوب جلد انتقال کر گئے ان کی وفات کے بعد مولانا کا رشتہ محبت حسام الدین علمی سے استوار ہوا انہی کے ایماء پر مولانا نے اپنی شہرہ آفاق مثنوی، مثنوی معنوی تخلیق کی ۔

مثنوی کی تخلیق میں حسام الدین چلمی کی تحریک اس قدر اہم تھی کہ درمیان زمانہ تخلیق میں جب حسام الدین اپنی بیوی کی وفات کے باعث مشکلات کا شکار رہے تو مولانا کے ہاں مثنوی کی تخلیق کا سلسلہ بھی رک گیا جس کی طرف انہوں نے خود اس طرح سے اشارہ کیا ہے

"مدتی ایی مثنوی تا خیر شد مہلتی بایست تا خون شیر شد”
یہ مثنوی ایک مدت تک تاخیر کا شکار رہی، خون کو دودھ بننے کے لئے کچھ مہلت درکار ہوتی ہے۔ )

جمادی الاخر ۲۷۲ / ۱۷ دسمبر ۱۹۷۳ء کو مولانا نے قونیہ میں انتقال فرمایا اور و ہیں مدفون ہوئے مولانا کی تصانیف میں مذکورہ بالا مثنوی کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ پروفیسر بدیع الزمان فروز انٹر کے مطابق با انسانی مکر نے جو انگشت شمارا میں اہم تصانیف پیش کی ہیں ان میں ایک مثنوی ہے

مثنوی

یہ مثنوی چھ دفتروں (حصوں) پر مشتمل ہے جس میں اصلاحی، عرفانی اخلاقی حکایات و واقعات کئے گئے ہیں ۔ انداز بیان سادہ فارسی کا بہترین نمونہ ہے خیالات میں آزا د برملا خیال کی سی کیفیت پائی جاتی ہے اردو اور دنیا کی بعض دوسری زبانوں میں
Free Association of Ideas.

( اس مثنوی کے متعدد ترجمے ہو چکے ہیں اور بے شمار تحریریں لکھی جاچکی ہیں انگریزی میں ڈاکٹر آراے نکلسن کا ترجمہ اور مقدمہ اس سلسلے میں خاص اہمیت رکھتا ہے ان کے علاوہ ڈاکٹر اے جے اربیری نے مولانا کے حوالے سے وقیع کام کیا ہے۔

دیگر تصانیف میں دیوان شمس تبریز اور فنی مانی شام میں دیوان میں غزلیات کے علاوہ قصائد قطعات ترجیعات اور رباعیات بھی شامل ہیں جبکہ فیہ ما فیہان کے اقوال و انگار کا مجمع ہے یہ مائی کا اردو ترجمہ لملفوظات روی / عبد الرشید تجسم لاہور سے شائع ہو چکا ہے ، علاوہ ازیں مولانا کے کونیات اور تعلیمات کا ایک مجموعہ اردو زبان میں ڈھال کر ڈاکٹرمحمد ریائی نے مکتوبات و طلبات روحی کے نام سے شائع کیا ہے

حواشی

موضوع ۔۔۔{مولانا رومی کے احوال و آثار}
کتاب کا نام ۔۔۔{علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ}(1)
کوڈ نمبر ۔۔۔۔{5613}
مرتب کردہ۔۔۔{عارفہ راز}
پروف ریڈ: نیشا نور

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں