مرزا غالب کی غزل گوئی کی | بی ایس اردو

مرزا غالب کی غزل گوئی

مرزا غالب کی طبیعت آزادی پسند تھی۔ وہ کسی قانون، قاعدے اور رواج کی پابندی کے روادار نہ تھے۔ شعر و شاعری انھیں قدرت کی طرف سے ودیعت ہوئی تھی۔ مرزا غالب اردو کے عہد ساز شاعر ہیں۔ وہ اپنی طرز کے موجد بھی ہیں اور خاتم بھی۔ انھوں نے روایتی اردو غزل میں فنی اور موضوعاتی ہر دو اعتبار سے نئے تجربات کیے۔

ان کے ہاں حسن و عشق کے ساتھ ساتھ فلسفہ و منطق جیسے ادق مضامین بھی غزل میں ملتے ہیں۔ تراکیب، تشبیہات، علامات اور استعارات کا ایک وسیع نظام انھوں نے وضع کیا۔ ان کی غزل میں شوخی، ظرافت اور استفہامیہ انداز اشعار کو جاندار بناتے ہیں۔

ان کے کلام میں ابہام، وقتِ بیان اور مشکل پسندی قاری سے فہم و ادراک کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کے اشعار میں معنویت اور فنی لطافت قاری کو سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔ غالب کی غزل میں فلسفیانہ خیالات اور منطقی توجیہات فنی تہہ داری کے ساتھ موجود ہیں۔ روح اور مادہ، طبیعیات اور مابعد الطبیعیات جیسے مضامین کو بھی انھوں نے شعر کے قالب میں ڈھالا ہے۔

ان کا لہجہ پُر استدلال اور جذبات و احساسات سے بھرپور ہوتا ہے۔ سیاسی و سماجی مسائل کو غزل میں سمونا بھی ان کا منفرد کارنامہ ہے۔ مرزا کا کلام پختہ اور پر تاثیر ہے۔ تہذیبی رچاؤ اور تاریخی شعور ان کے اشعار کی پہچان ہیں۔ ناقدین کے مطابق وہ اب تک اردو کے سب سے بڑے شاعر تسلیم کیے جاتے ہیں۔

چند اشعار

جب وہ جمالِ دل فروز صورتِ نیم روز
آپ ہی ہو نظارہ سوز، پردے میں منہ چھپائے کیوں؟

ذکر اُس پری وش کا اور پھر بیاں اپنا
بن گیا رقیب آخر، تھا جو رازداں اپنا

وہ آئے گھر میں ہمارے، خدا کی قدرت ہے
کبھی ہم ان کو، کبھی اپنے گھر کو دیکھتے ہیں

چاہتے ہیں خوب رُوئوں کو اسد، آپ کی صورت تو دیکھا چاہیے
اُسے کون دیکھ سکتا کہ یگانہ ہے وہ یکتا
جو دوئی کی بُو بھی ہوتی تو کہیں دو چار ہوتا

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود
پھر ہنگامہ اے خدا کیا ہے؟

دہر جز جلوۂ یکتائی معشوق نہیں
ہم کہاں ہوتے اگر حسن نہ ہوتا خود بیں؟

مرزا غالب کا شعری اختصاص

غالب نے عشق کو زندگی کا ایک جزو بنا کر پیش کیا، جس سے کنارہ کشی ممکن نہیں۔ عشق ایک ایسی قوت ہے جو انسان کو غم جھیلنے اور اُسے ایک خوشگوار تجربہ بنانے کی طاقت عطا کرتی ہے۔ عشق آفاقی موضوع ہے، اور دنیا بھر کی شاعری میں اسے ایک روحانی قوت کے طور پر پیش کیا جاتا رہا ہے۔ غالب کے ہاں یہ قوت عشق و محبت دونوں صورتوں میں جلوہ گر ہے۔ کبھی وہ شوخی سے کام لیتے ہیں، تو کہیں نفسیاتی پہلوؤں کو اجاگر کرتے ہیں۔

غالب شاعر ہونے کے ساتھ ساتھ انسانی نفسیات کے نباض بھی ہیں۔ کبھی وہ دوسرے عاشقوں پر طنز کرتے ہیں، اور کبھی اپنے جذبۂ عشق اور دیوانگی کو بلند مقام عطا کرتے ہیں۔ یہی وہ پہلو ہے جہاں غالب عشق کو حیات آفرین قوت کے طور پر، زندگی کی ہر حالت میں دیکھنے کے متمنی نظر آتے ہیں۔

اسلوبی حوالے سے غالب کا ظریفانہ انداز انھیں دوسرے شعرا سے ممتاز کرتا ہے۔ بڑے سے بڑا خیال بھی کلامِ غالب میں شگفتہ انداز سے فکری پیغام دیتا ہوا نظر آتا ہے۔

چند اشعار

اِن پری زادوں سے لیں گے خلد میں ہم انتقام
قدرتِ حق سے یہی حوریں اگر واں ہو گئیں

پکڑے جاتے ہیں فرشتوں کے لکھے پر ناحق
آدمی کوئی ہمارا دمِ تحریر بھی تھا؟

عشق نے غالب نکمّا بنا دیا
ورنہ ہم بھی آدمی تھے کام کے

دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت، درد سے بھر نہ آئے کیوں
روئیں گے ہم ہزار بار، کوئی ہمیں ستائے کیوں؟

غالب محض شاعر نہیں بلکہ تہذیبی تاریخ کے ایک اہم موڑ پر ایک بڑے مفکر بھی ہیں۔ انھوں نے برصغیر کی فکری روایت کو نیا رخ دیا۔ سرسید کی جدیدیت نے جس شخص کی رہنمائی میں اپنا سفر شروع کیا، وہ غالب تھے۔ غالب نے سرسید سے کہا تھا:

"تم کیا پرانے مقبروں میں جھانکتے پھرتے ہو، ذرا ان انگریزوں کو اور ان کی دخانی کشتیوں کو دیکھو کہ یہ کیا کر رہے ہیں۔”

غالب اردو کے پہلے جدید ذہن سمجھے جاتے ہیں۔

لازم نہیں کہ خضر کی ہم پیروی کریں
مانا کہ اِک بزرگ ہمیں ہمسفر ملے

PROOF READER : Misbah

حواشی

کتاب :شعری اصناف ،تعارف و تفہیم
کورس کوڈ :9003
صفحہ:177 تا 119
مرتب کردہ:فاخرہ جبین

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں