میاں محمد بخش سوانح اور خدمات
موضوعات کی فہرست
سیف الملوک کو پنجابی میں یوں تو لطف علی بھی سیال نامہ کے عنوان سے لکھا تھا اور احمد یار نے بھی لیکن زیادہ شہرت میاں محمد بخش کے لکھے ہوئے قصے کو ہی حاصل ہوئی۔ میاں صاحب انیسویں صدی کی دوسری دہائی کے آغاز میں پیدا ہوئے اور بیسویں صدی عیسوی کی پہلی دہائی ختم ہونے میں چار سال باقی تھے کہ اس جہان فانی سے رحلت کر گئے۔
آپ کا مزار میر پور ویکھن کے جانب چک کراس کر کے باہر پیر شاہ غازی کے مزار کے پاس ہے جن کے دربار کی جاروب کشی آپ زندگی بھر کرتے رہے۔ جوانی کے ایام میں آپ اکثر ایک سیلانی کی طرح کھڑی کے علاقے میں گھوم پھر کر وقت گزارا کرتے تھے اور یہی وہ دن تھے جب آپ نے 32 سال کی عمر میں اس قصے کو نظم کیا۔
قصے کا اختصار
سارستان ( پریوں کے ملک میں جہاں کی حکمرانی تھی ۔ اس کی لڑکی بدیع الجمال اور مصر کے ایک حاکم عاصم کے بیٹے کی ایک جائی ،تصویر عاصم کے باپ صفوان کے زمانہ میں شاہ سلمان کی جانب سے ریشمی کپڑے پر بنائی ہوئی تھی جسے مصنف نے شاہ مبر لکھا ہے۔ اس کو کسی نے کبھی کھول کر نہیں دیکھا تھا۔
جب عاصم کے ہاں بیٹا پیدا ہوا اور جوانی کے قریب پہنچا تو باپ نے اپنے زیادہ قیمتی جان کر وہ شاہ مہرہ بیٹے کو دیا۔ بیٹے نے تنہائی میں جب اسے دیکھا تو دم بخودرہ گیا کہ ایک تصویر تو اس کی اپنی تھی جسے اس نے پہچان لیا لیکن دوسری تصویر کسی عورت کی تھی جسے وہ جان نہ سکا اور پھر آخر خواب کے ایک اشارے پر اس کی تلاش میں نکل کھڑا ہوا۔
بری اور بحری سفر کرتا ہوا آخر وہ ایک قلعہ میں پہنچ جاتا ہے جہاں وہ ایک پری ملکہ خاتون کو ایک دیو کی قید میں دیکھ کر اسے چھڑانے کی کوشش کرتا ہے اور بالاخر وہ اس میں کامیاب ہو جاتا ہے۔ ملکہ خاتون اتفاق سے نپال کے ایک دوست کی بیٹی نکل آتی ہے اور خود اس حوالے سے بدیع الجمال کی دوست ۔
وہ وعدہ کرتی ہے کہ دونوں کا ملاپ کرا دے گی ۔ چنانچہ پہلے دونوں سراندیب جاتے ہیں جہاں کی ملکہ خاتون تھی۔ یہاں ہی اس کے زندہ واپس آنے کی تقریب رچائی جاتی ہے جس میں بدیع الجمال بھی آتی ہیں اور وہ بھی شاہزادے کو چاہنے لگتی ہے اور آخر میں دونوں کی باہم شادی ہو جاتی ہے۔
۔۔۔۔۔قصے کی شعری اور معنوی خصوصیات۔۔۔۔۔۔
( الف ) اس قصے کا اصل نام سفر العشق ہے اور یہ علامتی طور پر اس سفر کی داستان ہے جو عاشق کا مقدر ہے۔ عاشق سے یہاں مراد عشق حقیقی کا عاشق ہے۔ اسے عاشق عشقیہ قصے کے روپ میں بیان کیا گیا ہے تا کہ ہر کوئی لطف اندوز ہو سکے۔
شہزادے کا تصویر دیکھ کر اصل کی تلاش میں نکلنا حقیقت میں کائنات کے اس خالق کی تلاش کا سفر ہے جس کا عکس یہ ساری مخلوق و موجودات ہے۔ ان دونوں کا شاہ میر کی شکل میں پہلے ہی سے ہونا اس طرف اشارہ ہے کہ یہ وصال ضروری امر ہے اور منشائے تخلیق بھی یہی ہے کہ انسان مجاز سے حقیقت کی طرف سفر کرے۔
(ب) میاں صاحب بھی عرفانی شعرا کی طرح مرشد پکڑنے کو بہت اہمیت دیتے ہیں اور عشق کو حاصل زندگی مانتے ہیں
(ج) اشعار سوز و گداز سے بھرے ہیں۔ خاص طور پر جہاں شوق وصال اور شکوہ ہجراں ہے یا دنیا کی بے ثباتی کا ذکر ہے۔
(د) اعلیٰ اخلاقی اقدار کے پرچار کے حامل اشعار اس خوبصورتی اور سادگی سے پیش کئے گئے ہیں کہ ضرب الا مثال کی حیثیت اختیار کر چکے ہیں۔
(ہ) منظر نگاری بہت بھر پور ہے ۔ شاید اس لیے کہ انجانی فضاؤں کی داستان میں قلم پر کوئی قید نہیں ہوتی اور پریوں کے معاملے میں کوئی مبالغہ نہیں رہتا۔
حواشی
کتاب کا نام ؛ پاکستانی زبانوں کا ادب
کوڈ نمبر ؛ 5618
موضوع ؛ میاں محمد بخش
صحفہ نمبر ؛ 262 تا 263
مرتب کردہ ؛ عارفہ راز
پروف ریڈ: نیشا نور