میرا جی کی نفسیاتی تنقید
موضوعات کی فہرست
مولانا صلاح الدین احمد کے بقول:
میرا جی کو بجا طور پر اردو کی جدید شعری تنقید کا مورث کہہ سکتے ہیں ۔ (۲۷)
میرا جی اردو کے باقاعدہ نفسیاتی نقاد مانے جاتے ہیں۔ خود میرا جی کی شخصیت اور شاعری نفسیاتی تنقید کا ایک بہت بڑا موضوع ہے مگر انہوں نے مشرق و مغرب کے نغمے میں جس طرح مختلف شعرا کا ذکر اور تنقید نفسیاتی انداز سے کی ہے اس کی مثال اردو تنقید میں ان سے پہلے نہیں ملتی ۔ نہ صرف یہ کہ انہوں نے مختلف شعرا کا ان کی زندگی کے واقعات کے لحاظ سے جائزہ لیا بلکہ ان کے کلام کا تعلق زندگی سے مربوط انداز میں جوڑا۔ شعراء کے ناموں کے ساتھ جس طرح کرداروں کو جوڑا وہ بھی نفسیاتی تنقید کی ایک مثال ہے۔
- 1. فرانس کا آوارہ شاعر …. فرآنس ولاں
- 2. مغرب کا ایک مشرقی شاعر … طامس مور
- 3. امریکہ کا تخیل پرست شاعر … ایڈگر ایلن پو
- 4. روما کا رومانی شاعر کیٹوبس
- 5. انگلستان کا پیامی شاعر .. ڈی ایچ لارنس
میرا جی کی شخصیت اور تخلیقات
میرا جی کی ابنارمل زندگی اختیاری تھی یا کسی سانحہ کا نتیجہ اس پر بہت مباحث ہوئی ہیں اور ایک رائے جو سامنے آئی وہ یہ کہ ایک بنگالی لڑکی میراسین کے عشق میں مبتلا ہو کر میرا جی نے اپنا یہ حلیہ بنارکھا تھا۔
ثنا اللہ ڈار سے نام کی تبدیلی بھی اس لڑکی کی وجہ سے ہوئی ۔ مگر ایک سوال جو ذہن میں اٹھتا ہے وہ یہ کہ میرا جی عشق میں بظاہر تو برباد ہوئے مگر پھر بھی اس قدر مربوط شاعری اور تحریریں کیوں چھوڑ گئے؟ کیا عشق نے میرا جی کی صلاحیتوں کو زیادہ اجاگر کیا یا یہ صرف میرا جی کا ایک ڈرامائی انداز تھا جس سے انہوں نے ظاہری دنیا کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے ذہنی سوچ اور تخلیقات کو مقدم جانا۔
اس کے بارے میں کوئی واضح رائے تو قائم نہیں کی جاسکتی ہاں صرف ان کی تحریروں کی افادیت اور اردو تنقید میں ان کی اولیت اور اہمیت کو ضرور دیکھا جا سکتا ہے۔ اردو میں ایک نئے تنقیدی دبستان کے پیش رو بنے۔
اس کے علاوہ اردو شاعری کو نئی ہیئت دی نئے موضوعات، نئے احساسات نئے جذبے سے ہم کنار کیا اور جدید دور میں داخل کیا۔ میرا جی ایک جدت پرست شاعر اور زرخیز ذہن رکھتے تھے، بلا شبہ وہ ایک منفرد شاعر تھے۔
میرا جی کا ظاہری وضع قطع اور تخلیقی فلسفہ
میرا جی کی ذات کے بارے میں یہاں زیادہ لکھنے کی گنجائش نہیں مختصر انقشہ یوں ہے لمبے لمبے بال، ہر موسم میں اوور کوٹ کا استعمال ، گندے کپڑے جسم سے بدبو کا آنا، پچی لیٹے تین گولے جو کہ وہ ہر وقت پاس رکھتے تھے، شراب نوشی کی کثرت یہ باتیں ظاہری وضع قطع کی تھیں ۔ یہ وضع ان کو بہت عزیز تھی ایک مرتبہ جب انہیں علاج کے لئے ہسپتال داخل کروایا گیا تو انہوں نے ایک نرس کی کلائی چبالی ۔
جب انہیں کہا گیا کہ یہ تو تمہارا علاج کر رہی ہے تو انہوں نے کہا کہ وہ ایسا علاج نہیں کروانا چاہتے جس سے ان کے کو مپلیکسر ختم ہو جائیں اور وہ نہ لکھ سکیں جو کچھ وہ لکھنا چاہتے ہیں۔ مطلب یہ کہ تخلیقات کو جاندار بنانے کے لئے انہوں نے کو مپلیکسز کو پال رکھا تھا وہ جو کچھ لکھنا چاہتے تھے اور لکھنے کے لئے جو شرائط درکار تھیں وہ انہوں نے پوری کر رکھی تھیں۔
میرا جی کو افسانوی ناکامی کا تصور بہت عزیز تھا جس شاعر کے ہاں یہ تصویر ملا اسےخاص طور پر نمایاں کیا۔ ویمن (امریکی شاعر ) نے تمام عمر شادی نہیں کی اور اس کی وجہ بھی یہی افسانوی نا کامی قرار دی جاسکتی ہے۔ (۲۸)
اسی طرح جرمن شاعر کے بارے میں لکھتے ہیں :
ہائے ( جرمن شاعر ) کی شخصیت کا انسانی پہلو تو اپنے اس ناکام افسانہ محبت کی تلخی کے اثرات سے عہدہ برآ ہو گیا ۔
حوالہ جات
- مقالے کا عنوان: اُردو تنقید اور حلقہ ارباب ذوق (70کی دہائی تک)
- مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
- مقالہ نگار: خالد حسین شاه
- نگران مقالہ: ڈاکٹر رشید امجد
- یونیورسٹی: نیشنل یونیورسٹی آف ماڈرن لینگوئجز ، اسلام آباد
- صفحہ نمبر: 57-56
- آپ تک پہنچانے میں معاون: مسکان محمد زمان