جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر کی تشریح
(1)
جنوں میں اب کے کام آئی نہ کچھ تدبیر بھی آخر
گئی کل ٹوٹ میرے پاؤں کی زنجیر بھی آخر
میری دیوانگی اس حد تک چلی گئی ہے کہ اسے تدبیروں یا مشوروں سے اب روکا نہیں جا سکتا۔ میرے جنوں کا علاج اب ممکن نہیں ۔ کیونکہ کل میرے پاؤں میں باندھی گئی زنجیر بھی آخر کار ٹوٹ گئی شاعر بتانا چاہ رہا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر از ڈاکٹر عبادت بریلوی | pdf
کہ عشق کی کیفیت نے عاشق پر کچھ اس درجہ اثر کیا کہ وہ دیوانہ سا ہو گیا۔ کوئی عقل مندی یا فرزانگی والی بات اُس پر اب اثر نہیں کر پا رہی . عاشق کو قابو میں رکھنے کے لیے جو زنجیر اس کے پاؤں میں باندھی گئی تھی بالآخر عاشق اُسے توڑنے میں کامیاب ہو گیا ہے۔
شعر کا ظاہری مفہوم تو عاشق کی دیوانگی کی حدیں پھلانگنے کی طرف اشارہ کر رہا ہے مگر اصل میں شاعر جذب کی اُس صورت حال یا کیفیت کو بیان کرنا چاہ رہا ہے جس میں ایک عاشق کو دنیا کی کوئی طاقت نہیں روک سکتی ۔
یہ عشق کسی بھی بڑے مقصد کے لیے ہو سکتا ہے۔ بڑے لوگوں کی دیوانگی کو دنیا کی بڑی بڑی طاقتیں مل کے بھی نہیں روک سکتیں۔ تاریخ میں ایسے دیوانوں کے نام مل جاتے ہیں جن کے پاؤں کی زنجیر بھی انھیں بڑے مقاصد سے باز نہیں رکھ سکی۔
(۲)
اگر ساکت ہیں ہم حیرت سے پر ہیں دیکھنے کے قابل
کہ اک عالم رکھے ہے عالمِ تصویر بھی آخر
شاعر کہہ رہا ہے کہ اگر تم ہمیں ساکت یعنی بغیر کسی حرکت و تغیر کے دیکھ رہے ہو تو اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم کسی قابل نہیں رہے۔ ہماری یہ گم سُم یا خاموش ہو جانے والی کیفیت بھی دیکھنے کے قابل ہے کیوں کہ یہ ہم ہیں کوئی عام آدمی نہیں۔
شاعر اس کی مثال میں اُن تصاویر کا حوالہ دیتا ہے، جو بالکل ساکت و بے حرکت ہونے کے باوجود اتنی اہم ہوتی ہیں کہ ان پر ایک خاص کیفیت دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں عالم رکھنے سے مراد بے حرکت ہونے کے باوجود اہمیت رکھنا ہے۔
دوسرا مفہوم یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ہم تمھیں دیکھ کے تصویر کی طرح بے حس و حرکت ہو گئے ہیں، ہم سے گویائی چھن گئی ہے مگر اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہم عاشقی کے قابل نہیں رہے۔ اس کیفیت میں بھی ہم سب سے منفرد اور جدا ہیں۔ ایک جگہ میر نے محبوب کی مناسبت سے خود کو تصویر سے تشبیہ دی ہے:
رات ہم بھی تری محفل میں کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ
یہ بھی پڑھیں: میر تقی میر کی شخصیت و شاعری کا نفسیاتی مطالعہ
(۳)
یکا یک یوں نہیں ہوتے ہیں پیارے جان کے لاگو
کھو آدم ہی سے ہو جاتی ہے تقصیر بھی آخر
میرا اپنے محبوب کے سامنے اپنی تقصیر یعنی غلطی کا اعتراف کر کے اس سے معافی کے طلب گار ہیں وہ کہتے ہیں کہ تم ہماری جان کے پیچھے ایسے کیوں پڑ گئے ہو کیوں کہ آدمی ہی سی تقصیر ہوتی ہے آدمی تو خطا کا پتلا ہے غلطی کا امکان موجود رہتا ہے۔
میر یہاں بتانا چاہ رہے ہیں کہ انسان خطاؤں کے باوجود اپنے مقاصد کو پانے کی تگ و دو میں لگا رہتا ہے۔ ایسے انسان جو اپنی غلطیوں یا نقصانات سے شکست کھا جاتے ہیں، وہ جلد ہار جاتے ہیں۔ میر محبوب سے بھی یہی توقع رکھتے ہیں کہ اُسے معاف کر دیا جائے ۔
احمد ندیم قاسمی کا ایک شعر ہے:
درگزر کرنے کی عادت سیکھو
اے فرشتو! بشریت سیکھو!
اسی طرح میر نے ایک اور جگہ ایسے ہی خیالات کا ظہار کیا ہے:
در پنے خون میر ہی نہ رہو
ہو بھی جاتا ہے جرم آدم سے
ایک پہلو اس شعر کا یہ ہے کہ عاشقی میں خطا لازم و ملزوم ہے اور محبوب کا کام ہے کہ وہ درگزر فرماتا رہے۔ خدا اور بندے کا تعلق بھی انھی رشتوں پر منحصر ہے۔
(۴)
کلیجہ چھن گیا پر جان سختی کش بدن میں ہے
ہوئے اس شوخ کے ترکش کے سارے تیر بھی آخر
یہاں بھی میر اپنے عزم و استقلال اور بلند ہمتی کو اپنا فخر بتا رہے ہیں۔ میر کہتے ہیں کہ ہمارا کلیجہ محبوب کے تیروں سے چھلنی ہو گیا ہے مگر ہمارا بدن سختی برداشت کر رہا ہے۔ حتی کہ میرے محبوب کے ترکش سے سارے تیر ختم ہوگئے ہیں۔
محبوب کی جگہ اگر ظالم حکمران یا کوئی بھی ظلم کرنے والا لیا جائے تو یہاں شاعر مظلوم کو بلند ہمتی کا درس دے رہے ہیں۔ اگر مظلوم ظالم کے سامنے شکست نہ کھائے تو ایک دن آتا ہے کہ ظلم کرنے والا مظلوم کے آگے بے بس ہو جاتا ہے یا خود شکست کھا جاتا ہے۔ میر نے لکھا ہے:
تم شیخ جور کھینچ کے کیا سوچ میں گئے
مرنا ہی اپنا جی میں ہم آئے ہیں ٹھان کر
گویا اگر طاقت اور حوصلہ موجود ہے تو انسان کبھی شکست نہیں کھا سکتا۔ زمانہ اور فطرت دونوں انسان کے آگے جھک جاتے ہیں۔
(۵)
نہ دیکھی ایک واشد اپنے دل کی اس گلستاں میں
کھلے پائے ہزاروں نونچہ دلگیر بھی آخر
کچھ اسی قسم کے خیالات کا اظہار خواجہ میر درد نے بھی کیا ہے:
مرا غنچہ دل ہے وہ نا شگفتہ کہ
جس کو کسو نے کبھی وا نہ دیکھا
میر انسان کے ازلی غم کی طرف اشارہ کرنا چاہ رہے ہیں۔ انسان ہر طرح کے لمحات سے گزرتا ہے کبھی خوشی کبھی دکھ بھی راحت مگر دل کی کلی ہمیشہ کھلی نہیں رہتی۔ شاعر اپنے عاشقانہ جذبات کے ہاتھوں ہمیشہ دکھوں کا مرکز بنا ہوا ہے۔ وہ کہتا ہے کہ اس باغ میں ہر ناممکن کام ہو گیا ہے مگر میرے دل کی کلی نہیں کھل پائی۔
اس باغ میں ہزاروں ادھ کھلی کلیاں کھل کے پھول بن گئیں مگر ہمارے دل کی وہی کیفیت ہے جو پھول نہیں ہو پایا۔ یہاں کلی اور دل کو ایک دوسرے کی تشبیہ قرار دیا گیا ہے کیوں کہ شاعر کا دل بھی اس کلی کی طرح ہے جو کھلنا ہی بھول گیا ہے۔ پژمردگی نے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ میر نے ایک جگہ پوری غزل میں اس کیفیت کو بیان کیا ہے ، متذکرہ غزل کا مطلع یوں ہے:
سینہ دشنوں سے چاک تا نہ ہوا
دل جو عقدہ تھا سخت وا نہ ہوا
(۲)
سروکار آه کب تک خامه و کاغذ سے یوں رکھیے
رکھے ہے انتہا احوال کی تحریر بھی آخر
میر کہتے ہیں کہ ہم تو سمجھے تھے کہ ہماری آہ و بکا ہمارے قلم سے کاغذوں میں ڈھلتی جارہی ہے اور ہمارا محبوب ان کاغذوں کو جب پڑھے گا تو یہ ساری آہ و بکا بے کار جاتی رہے گی ۔
مگر محبوب نے نظر التفات نہ ڈالی ہم سمجھتے تھے کہ یہ تحریریں کبھی محبوب کی نظروں سے گزریں گی مگر ہر چیز کی انتہا ہوتی ہے ہم کب تک اس طرح اپنے دل کا حال تحریروں میں لکھتے رہیں گے۔ غالب نے کیا خوب اس کیفیت کو پیش کیا ہے:
حال دل لکھوں کب تک،
جاؤں ان کو دکھلا دوں انگلیاں فگار اپنی
خامه خونچکاں اپنی تحریر اگر کار گر ثابت نہیں ہو رہی یعنی جس کو پڑھنا ہے وہ اگر نہیں پڑھ رہا تو لکھنے والے کا جذباتی رجحان مانند پڑ جاتا ہے۔
(4)
پھرے ہے باؤلا سا پیچھے ان شہری غزالوں کے
بیاباں مرگ ہوگا اس چلن سے میر بھی آخر
شہری غزالوں یعنی خوبصورت ہرنوں کے پیچھے دیوانہ ہو کے پھرنے سے انجام یہ ہو گا کہ مجنوں کی طرح صحرا میں ہی موت آجائے گی۔
اس طرح کے طور طریقوں سے اس قسم کا انجام سامنے آتا ہے۔ میرسختی سے تاکید کر رہے ہیں کہ اگر عاشقی کا پیشہ اپنانا ہے تو اس کے انجام سے خبر دار ہونا بھی ضروری ہے۔ کوئی عاشق راہ عشق میں یونہی نہ نکل پڑے۔ اس شعر کی مثال میں کہا جا سکتا ہے کہ حسین کی طرح عشق کی راہ اپنانی ہے تو اپنے بچوں تک کی قربانی دھیان میں رہنی چاہیے۔
میر نے یہاں خوبصورت تلازمے بنائے ہیں ۔ شوخ و شنگ اور سبک رفاتر حسین چہروں کے لیے شہری غزال کا استعارہ استعمال کیا ہے۔ غزال اور بیاباں، باؤلا اور چلن کی رعایات کا خیال رکھا ہے۔ میر نے ایک جگہ اور اسی قسم کے خیالات کا اظہار کیا ہے:
میر کو واقعہ کیا جائیے کیا تھا در پیش کہ طرف دشت کے جوں سیل چلا جاتا ہے.
ریڈر : نور فاطمہ انصاریہ