کتاب کا نام: اردو شاعری 1
صفحہ: 205 سے 206
مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
سحر البیان کی کردار نگاری
سحر البیان کے بنیادی کردار شہنشاہ گیتی پناہ شہزادہ بے نظیر شہزادی بدرمنیر، نجم النساء، پر ماہ رخ اور جنوں کے بادشاہ کا بیٹا فیروز شاہ ہیں۔ بادشاہ کا کردار بہت مختصر سا ہے، جو مثنوی کے آغاز اور اختتام میں مثنوی کے اشعار کا حصہ بنا ہے، لیکن میرحسن نے چند اشعار میں ہی اس کی شخصیت کا نقشہ کھینچ دیا ہے، جس سے اس کے جاہ وجلال اور عزت و وقار کا اندازہ ہوتا ہے۔ شہزادہ بے نظیر اس کہانی کا ہیرو ہے۔ شہزادی بدر منیر ہیروئن ہے، جو حسن و جمال کا مجسمہ ہے۔ شہزادی بدر منیر کی سہلی نجم النساء اگر چہ اس کہانی میں سائڈ ہیروئن کے طور دکھائی دیتی ہے، مگر اس کا کردار اس مثنوی میں بہت فعال اور جاندار ہے۔ ماہ رخ پری اور فیروز شاہ کے کردار مافوق الفطرت عناصر کے روپ میں ہمارے سامنے آتے ہیں لیکن میر حسن نے اپنے کمال فن سے ان میں ایسا انسانی رنگ بھرا ہے، جس سے وہ جیتے جاگتے انسان نظر آتے ہیں۔ ان تمام بنیادی کرداروں کے علاوہ بھی اس مثنوی میں متعدد ضمنی کردار ہیں ۔ مثلاً کنیزیں، مصاحب، نجومی ، جنوں کا بادشاہ ، مسعود شاہ اور درباری وغیرہ ۔ یہ تمام کردار مثنوی کے قصے کو آگے بڑھانے میں معاون ثابت ہوتے ہیں اور اس زمان کی سماجیات اور درباری دلچسپیوں کا پتہ دیتے ہیں ۔
مثنوی کے کردار ضروری نہیں کہ ناول اور افسانے کی طرح ہوں لیکن چونکہ مثنوی میں ایک قصہ ہوتا ہے اور وہ قصو کرداروں ہی کے حوالے سے آگے بڑھتا ہے، اس لیے مثنوی نگار کو کرداروں کی حرکات و سکنات ، ان کے جذبات ، ان کی ذہنی کیفیات اور دیگر چیزوں کا خیال رکھنا پڑتا ہے۔ سحر البیان میں یوں تو بہت سے کردار آتے ہیں۔ مثلاً خادمائیں، ملازم، پریوں کی دنیا وغیرہ جو سحر البیان کے حسن میں اضافہ کرتے ہیں اور اپنی اپنی جگہ پر قابل توجہ ہیں لیکن بنیادی طور پر مثنوی سحر البیان کا قصہ تین کرداروں کے گرد گھومتا ہے اور یہ کردار بے نظیر، بدر منیر اور نجم النساء کے ہیں۔ باقی تمام کردار قصے کے رخ کو آگے بڑھانے کے لیے استعمال ہوتے ہیں ، مگر یہ تین کردار لیے ہیں، جو واضح کرداروں کے طور پر ہمارے سامنے آتے ہیں ۔ ان میں سے بے نظیر اور بدرمنیر کے کردار شاہی طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور نجم النساء دختر وزیر ہے۔ نقادوں کا یہ کہنا ہے کہ اس زمانے میں شہزادوں اور نوابوں کی تعلیم و تربیت کا انداز اور عادات و خصائل کو میر حسن نے پس منظر کے طور پر ڈھالا ہے۔ چنانچہ بے نظیر کے پیدا ہونے کے بعد جو رسمیں ادا کی جاتی ہیں ، ان کے
حوالے سے اس زمانے کا سارا ماحول زندہ ہو کر ہمارے سامنے آجاتا ہے۔ مگر یہ عجیب بات ہے کہ یہ دونوں مرکزی کردار نہایت قابل توجہ ہیں اور اپنے طبقے کے پوری طرح سے نمائندے ہیں، مگر ان میں حرکت اور قوت ذرا کم نظر آتی ہے۔ چنانچہ اپنے معاشقے کو کامیاب بنانے کیلیے بھی انہیں نجم النساء کی ضرورت محسوس ہوتی ہے ۔ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کا خیال ہے کہ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ جس زمانے میں یہ مثنوی لکھی گئی اس زمانے کے شہزادوں اور نوابوں کے بیٹوں میں پہلے جیسی قوت باقی نہ رہی ہو۔ نجم النساء کو کردار اس پس منظر میں مرکزی کرداروں سے بھی نمایاں ہے۔ بعض نقاد تو اسے اصل ہیروئن بھی کہتے ہیں، کیونکہ ہیرو اور ہیروئن تو وہی ہوتے ہیں، جو مرکزی کردار ادا کرتے ہیں۔
مجنون گورکھپوری ، احتشام حسین، ڈاکٹر فرمان فتح پوری ، ڈاکٹر عبادت بریلوی اور ڈاکٹر وحید قریشی نے مثنوی سحر البیان کی کردار نگاری کے حوالے سے بحث کرتے ہوئے نجم النساء کے کردار کو کامیاب قردار دیا ہے۔ اس کا چنچل پین، اس کی شرارتیں اور اس کا جوگن پن کو بے نظیر اور بدر منیر کی مددکرنا، یہ ایسی چیزیں ہیں، جو اس کے کردار کو بقول احتشام حسین بہت زیادہ فعال بنادیتی ہیں جس، کے اندر تحرک اور زندگی ہے ۔ ان کرداروں بالخصوص نجم النساء کے کردار کے حوالے سے میر حسن کو ایک کامیاب کردار نگار کہا جا سکتا ہے۔ بعض نقاد نجم النساء کے کردار کو اردو مثنویوں میں سب سے جاندار اور توانا سمجھتے ہیں ۔ گلزار نسیم“ میں چونکہ معنی آفرینی زیادہ ہے اور قصے کو پھیلانے کے بجائے اختصار کی طرف مائل رکھا گیا ہے، اس لیے اس میں کردار نگاری اتنے وسیع پیمانے پر نہیں آئی، مگر میر حسن چونکہ قصے کو وضاحت کے ساتھ لکھ رہے تھے، اس وجہ سے کردار نگاری کی طرف انہوں نے خصوصی توجہ دی اور یہی ان کی کامیابی ہے۔ سحر البیان میں کرداروں کا بادشاہوں سے لے کر شہزادوں اور شہزادیوں سے لے کر کنیزوں تک ایک جال بچھا ہوا ہے، لیکن میر حسن نے کوشش کی ہے کہ وہ اپنے کرداروں سے انصاف کریں اور اس میں وہ ایک حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے جب اپنے کرداروں کی خوشی پر نغمہ نجی کی تو پورا ماحول گنگنا اٹھا ہے اور جب ان کے غموں پر ماتم کیا تو پورا ماحول سوگوار ہو گیا ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں