مثنوی کی تعریف

کتاب کا نام: تاریخ ادب اردو
کوڈ: 5601
صفحہ: 79 , 80

مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

مثنوی کی تعریف

مثنوی (ع) اسم مونث منسوب بہ مثنے دو دو کیا گیا۔ چونکہ مثنوی کے بہتوں میں ایک بیت کے دو قافیے علیحدہ علیحدہ ہوتے ہیں۔ لہذا البیات مختلف القوائی کو مثنوی کہنے لگے یا کہو کہ ایسے اشعار جن کے ہر بیت کا قافیہ جدا اور دو مصرعوں کا متفق ہو ۔ ایک مثنوی کل ایک ہی وزن میں ہوتی ہے اور وہ بحر ہنرج رمل سریع خفیف متقارب متدارک کے سوا اور بحروں میں بھی کسی جاتی ہے اس کے اشعار کی خاص تعداد نہیں ( فرہنگ آصفیہ )مثنوی کو اگر طویل نظم کہا جائے تو پھر یہ دنیا کی ہر زبان میں کسی نہ کسی صورت میں مل جائے گی۔ یونان میں رزمیہ (Epic) اس کا نام ہے اور یہ ڈرامے سے زیادہ قدیم ہے۔ ایران میں مثنوی نے بطور خاص مقبولیت حاصل کی چنانچہ بڑے غزل گو شعراء کے ساتھ ساتھ بڑے مثنوی نگار بھی ملتے ہیں۔

2۔ اردو میں مثنوی

اردو زبان میں ابتدا ہی سے مثنوی سے تخلیقی شغف کا اظہار کیا گیا چنانچہ ہم گزشتہ یونٹوں میں گجری اور دکنی کے مطالعہ میں مثنوی کا تذکرہ کر چکے ہیں۔ بلکہ دکن میں تو بطور خاص مثنویوں سے دلچسپی کا اظہار کیا گیا چنانچہ بہمن قطب شاہی اور عادل شاہی عہد کے بیشتر معروف شعراء نے اپنی تخلیقی صلاحیتوں کے اظہار کے لیے مثنوی کا انتخاب کیا۔
غزل کے متوازی مثنوی کی مقبولیت کی وجہ سمجھنی مشکل نہیں۔ غزل میں دو مصرعوں میں قافیہ ردیف کی پابندی ملحوظ رکھتے ہوئے بات مکمل کرنی ہوتی ہے اس لئے بڑا خیال تمام جزئیات اورتفصیلات کے ساتھ غزل میں ادا نہیں ہو سکتا اسی لئے خیال کی تعمیل کے لئے رمز و ایماء کا سارا لیتے ہوئے اشاراتی انداز اپنانا پڑتا ہے جبکہ اس کے بر عکس مثنوی میں ناول یا افسانہ کی مانند تمام جزئیات تفصیلات اور کوائف کے بیان کی سہولت حاصل ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ موضوع کی کوئی قید نہیں چنانچہ مثنوی نگار اس آسمان تلے ہر شخص نے وقوعہ کیفیت ماجرا اور کہانی بیان کر سکتا ہے۔ رزم ہو یا بزم ، شکار ہو یا جنگ ، عشق حقیقی ہو یا عشق مجازی ، تصوف ہو یا جنس آپ ہ ق ہو یا . جگ بیتی ہر موضوع پر مثنوی لکھی جاسکتی ہے اسی لئے مثنوی کو منظوم بیان / منظوم و داور منظوم داستان کے بھی مترادف سمجھا گیا بلکہ ڈاکٹر فرمان فتح پوری کی مثنویوں پر کتاب کا نام ہی ”اردو کی منظوم داستانیں(کراچی 1971) ہے۔
جنوبی ہند کی مانند شمالی ہند میں بھی بیشتر اہم بڑے اور معروف شعراء نے مثنویاں قلم بند کیں چنانچہ دلی کے د شاہ مبارک آبرو سراج اورنگ آبادی جیسے مقتد مین سے چلیں تو سودا میر اثر ، مصحفی جیسے شعرا کی مثنویاں نظر آتی ہیں ۔اور پھر دہلی میں مومن کی مثنویاں ملتی ہیں ۔لیکن لکھنو نے تین ایسے بڑے مثنوی نگار دیے جن کے تذکرے کے بغیر مثنوی کی تاریخ مکمل نہیں ہو سکتی ۔
مثنوی کے فن تاریخ اور معروف مثنویوں کے مطالعے کے لئے ان کتب کا مطالعہ کیا جاسکتا ہے ۔
عبدالقادر سروری
اردو مثنوی کا ارتقاء حیدرآباد دکن ادارہ ادبیات اردو 1940
ڈاکٹر فرمان فتح پوری
اردو کی منظوم داستانیں کراچی انجمن ترقی اردو 1871
ڈاکٹر سید محمد عقیل
اردو مثنوی کا ارتقاء
شمالی ہند میں الہ آباد یونیورسٹی 1965

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں