مرید پور کا پیر ( تجزیہ )اس مضمون کو پطرس نے صیغہ واحد متکلم میں لکھا ہے یعنی ہر جگہ ” میں ” کا لفظ استعمال کیا ہے اور اس طرح انہوں نے خود اپنے آپ کو مرید پور کا پیر بنا کر پیش کیا ہے۔ لیکن اگر غور کیجئے تو صاف معلوم ہوتا ہے کہ انہوں نے اپنے زمانے کی کسی ایک یا ایک سے زیادہ سیاسی شخصیات کو سامنے رکھ کہ یہ مضمون لکھا ہے ۔ جس زمانے میں یہ مضمون لکھا گیا وہ زمانہ ہندوستان میں سیاسی جدوجہد کا دور تھا اور انگریزی حکومت کے خلافت سیاسی پارٹیوں کی سرگرمیاں اپنے عروج پر تھیں ۔ سیاسی پارٹیوں میں ہر طرح کے لیڈر ہوتے ہیں۔ کچھ ایسے ہوتے ہیں جو اپنی دانائی، معاملہ فہمی اورسیاسی تدبیر کی وجہ سے صحیح معنوں میں اپنی قوم کے رہنما ہوتے ہیں اور کچھ لیڈر ایسے بھی ہوتے ہیں جن میں ذاتی قابلیت سیاسی سوجھ بوجھ اور رہنمائی کی صلاحیت تو ہوتی نہیں لیکن دوسروں کی دیکھا دیکھی لیڈر بننے کے شوق میں وہ بھی میدان میں کود پڑے ہیں ۔ بقول اکبر :/بدھ میاں بھی حضرت گاندھی کے ساتھ ہیں/ اس مضمون میں پطرس نے انہی دوسری قسم کے لیڈروں کا خاکہ کھینچا ہےکہ کس طرح ایک جاہل اور سیاست سے نا واقف شخص لیڈر بننے کے لئے کوشاں رہتا ہے اور لیڈری کی تیاریوں میں لگا رہتا ہے۔ لیکن جب پہلی بار اسے ایک جلسہ عام میں تقریر کرنی پڑتی ہے تو اس کا پول کھل جاتا ہے اور اُسے وہاں سے ذلیل و رسوا ہو کر بھاگنا پڑتا ہے۔ بنیادی طور پر یہ ایک طنز یہ مضمون ہے لیکن اسے پڑھتے ہوئے ہمیں ایک افسانے کا لطف بھی محسوس ہوتا ہے۔ ایسا حوس ہوتا ہے کہ غیر شعوری طورپر پطرس نے اس میں مختصر افسانے کی کی ٹیکنیک بھی استعمال کی ہے ۔ اس میں باقاعدہ ایک پلاٹ ہے۔ واقعات میں ایک تدریجی ارتقا پایا جاتا ہے اور کہانی آہستہ آہستہ اپنے نقطہ عروج پر پہنچ کر اپنے منطقی نجام کو پنچتی ہے۔ لیکن چونکہ مصنف کا بنیادی مقصد افسانہ لکھنے کے بجائے کانگریس اور کانگریس کے سیاسی کارکنوں اور لیڈروں کا مضحکہ اڑانا ہے اس لئے انہوں نے قصہ پن سے زیادہ مضمون کی طنزیہ اور مزاحیہ کیفیت کو سنوار نے کی طرف زیادہ توجہ دی ہے اور وہ اس میں بے حد کامیاب ہے ۔اس مضمون میں پطرس کے طنز کا ہدف کا نگریس ہے ۔ انہوں نے کانگرس کے جلسوں ، ان کے اخباروں ، اس کے سیاسی کارکنوں اور لیڈروں سب کو اپنے طنز کا نشانہ بنایا ہے۔ کانگرس کے ایک اخبار کا اس طرح مذاق اڑایا ہے ۔ /یہ بھی سننے میں آیا ہے کہ اس اخبار نے میرے ان خطوط کے بل پر اپنا ایک کانگرس نمبر بھی نکال مارا جواتنی بڑی تعداد میں چھپا کہ اس کے اوراق اب تک بعض پنساریوں کی دکانوں پر نظر آتے ہیں۔/ ان سطور میں کانگرس کے لیٹریچر اور اخبارات کے بے تو قیری پر بڑا گہرا اور لطیف طنز موجود ہے۔سیاسی جلسہ کا ذکر کرتے ہوئے پطرس نے ایک تیر سے دو شکار کئے ہیں۔ یعنی ایک طرف تو نام نہاد لیڈر صاحب کی کی نا اہلی اور جہالت کا پول کھولا ہے تو دوسری طرف ملک کے عوام پر بھی چوٹ کی ہے کہ وہ بے سوچے سمجھے اور بغیر دیکھے بھالے ایک ایسے شخص کو اپنا لیڈر بنا لیتے ہیں جس کا سیاست کی اونچ نیچ اور سیاسی تدبر سے دور کا بھی واسط نہیں ہوتا۔ اس طرح یہ مضمون ایک برخود غلط اور جاہل لیڈر کی حالت آمیزیوں کے پردے میں اپنے زمانے کے کانگریسی لیڈروں کی اصلیت کا پرو تو چاک کرتا ہے۔ ساتھ ساتھ عوام کی سادہ لوحی اور حماقت کی حد تک پہنچی ہوئی معصومیت کو بھی ظاہر کرتا ہے۔ لطف کی بات ہے کہ جس مقبول اور ہر دلعزیزہ سیاسی لیڈر کی تقریر سننے کے لئے مرید پور کے عوام جوق در جوق جمع ہوتے ہیں، اس سے نہ تو کبھی پہلے انہوں نے ملاقات کی تھی اور نہ کبھی اس کی صورت دیکھنے کا موقع ملا تھا۔ لیکن جوش استقبال کا یہ عالم تھا کہ اسٹیشن پر لوگ ہزاروں کی تعداد میں پھولوں کے ہار لے کر موجود تھے اور ادھر لیڈر صاحب کا یہ حال ہے کہ جب تقریر کرنے کے لیے مائک پر آتے ہیں تو پہلے سے یاد کی ہوئی تقریر بھول جاتے ہیں اور ایسے بدحواس ہوتے ہیں کہ بے ربط جملوں اور بے معنی الفاظ کے سوا ان کے منہ سے کچھ نہیں نکل پاتا ۔ اس منظر کی تصویر کشی پطرس نے جس بے ساختگی سے کی ہے، وہ ان کے قدرت بیان کا منہ بولتا ثبوت ہے۔اس مضمون میں مزاح پیدا کرنے کے لیے پطرس نے تھوڑے سے مبالغے سے کام لیا ہے جو ان کے عام اسلوب کا حصہ نہیں ہے یعنی وہ عام طور پر مزاح کے لیے مبالغے کا سہارا نہیں لیتے لیکن اس مضمون میں جہاں جہاں تھوڑی بہت مبالغہ آرائی ہے ، وہ اس سلیقے سے ہے کہ مضمون کہیں بھی متین ظرافت کی سطح سے نیچے گرتا ہوا محسوس نہیں ہوتا بلکہ یہ کہا جاۓ کہ مبالغہ پطرس کی تحریر میں آکر حسن بن گیا ہے اور اس نے ان کی ظرافت میں چار چاند لگا دیئے ہیں تو شاید بے جا نہ ہوگا ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں