کتاب۔۔۔۔۔۔اردو میں تحقیق وتدوین
صفحہ ۔۔۔۔137تا144
مرتب کردہ ۔۔۔۔۔کنول
اصول تحقیق
مقالہ لکھنے کا طریقہ | Maqala Lekhni Ka Tariqa
موضوعات کی فہرست
مقالہ لکھنے کا طریقہ
اصول تحقیق سے مراد تجربات اور مہارتوں کا مظاہرہ کرنا ہے، جن کی مدد سے مقاصد کا حصول آسان ہو جاتا ہے اور کام میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔ اس کے ذریعہ کم وقت میں زیادہ نتائج اور فوائد حاصل ہوتے ہیں۔ یہ نظریہ صرف تحقیق کے اصول سے مخصوص نہیں ہے بلکہ تمام اصناف اور ان کے اسالیب و طریق کار کے لیے یکساں طور پر مؤثر اور مفید ہے۔
یہ بھی پڑھیں: تحقیق، تاریخ، تعریف، اور اقسام(تحقیق کا فن گیان چند)
یعنی ہر وہ کام جو کسی طریق کار یا اصول کے زیر اثر تجربات اور کامیابیوں کے ہمراہ انجام پاتا ہے، اس کے اندر افادیت کا عنصر یقین کی حد تک پایا جاتا ہے۔ اور جن لوگوں میں طریق کار اور اسلوب کے استعمال کا فن بہتر صورت میں موجود ہوتا ہے، علمی میدان میں ان کا شمار کامیاب ترین افراد میں ہوتا ہے اور ان کی پیروی کرنے والے مبتدی محققین بھی ان کے نقش قدم پر چل کر نسبتا جلدی نتائج تک پہنچ جاتے ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: تحقیق کی اقسام | ڈاکٹر اشرف کمال pdf
ڈاکٹر عندلیب شادانی نے تحقیق کے سلسلے میں اختیار کیے جانے والے چار بنیادی اصولوں پر زور دیا ہے،جو تحقیق کے سلسلے میں اختیار کیے جانے چاہئے؟
- موضوع کا انتخاب اور اس کی حد بندی۔
- ماخذوں کا تعین اور ان کی فہرست مرتب کرنا۔
- مقالے کا خاکہ تیار کرنا
- ماخذ کا مطالعہ اور ان سے مفید مطلب مواد کا انتخاب ۔
کسی بھی موضوع کی تحقیق کے لیے چاہے وہ دینی ہو یا ادبی ہو یا علمی ہو، چند باتوں کو ہر وقت پیش نظر رکھناضروری ہے، ان میں سے بعض کا تذکرہ کیا جارہا ہے:
موضوع کا تعین
تحقیق کے میدان میں پہلا قدم موضوع کا انتخاب اور تعین ہے۔ محقق کو کام شروع کرنے سے پہلے یہ پتہ ہونا چاہئے کہ کس شے کی تلاش میں وہ نکل رہا ہے ؟ اس کی تحقیق کا موضوع کیا ہے؟ اور اس کے حدود کیا ہیں؟ اس لیے موضوع کا انتخاب کرتے وقت محقق کی ذمہ داری ہے کہ وہ ان باتوں کا خیال رکھے:
الف: موضوع سے اس کی دلچسپی تعلق اور لگاؤ کیسا اور کتناہے۔
ب: وہ موضوع کا حق ادا کر پائے گا یا نہیں ؟ اس کے اندر اس کام کو پایہ تکمیل تک پہنچانے کی استعداد ہے یا نہیں؟
ج: سماج و معاشرے کی ضروریات پوری کرنے میں اس کا کردار کتنا اور کیسا ہوگا ؟ کیا ان تحقیقات اور موضوعات سے معاشرہ کو کوئی فائدہ پہنچے گا یا نہیں ؟
و: اس موضوع پر تحقیق کی ضرورت ہے یا نہیں ؟ تحقیق کرنے کی صورت میں اس کے لوازمات ، منابع اور دیگر اشیاء آسانی سے فراہم ہو جائیں گی یا نہیں؟ کہیں ایسا تو نہیں کہ تحقیقی کام نصف تک پہنچ کر رک جائے اور کوشش نا تمام رہ جائے ۔
ه :اگر محقق تحقیق کے میدان میں نو وارد اور مبتدی ہے تو موضوع کا دائرہ مختصر اور محدود ہو۔
عنوان موضوع کی تقسیم
تمام کلی موضوعات کو ذیلی عناوین مختصر اجزاء اور چھوٹے چھوٹے حصوں میں تقسیم تعیین کر دینے سے تحقیق کا کام آسان ہو جاتا ہے ۔ ایک موضوع کو متعدد حصوں اور مختلف اجزاء میں باٹنے کے لیے ذوق و شوق اور تخلیقی صلاحیت کی ضرورت ہے اور اس موضوع سے متعلق عام و خاص معلومات کا ہونا بھی لازم ہے۔
ایک موضوع کے ذیلی عناوین جتنی زیادہ تعداد میں تقسیم ہوتے چلے جائیں اتنا ہی بہترہے۔ کیوں کہ اس سے اس موضوع کی تمام جہات کی تفہیم وتعبیر میں سہولت پیدا ہو جاتی ہے۔
منصوبہ بندی
تحقیق کو عملی صورت دینے کے لیے منصوبہ بند طریق کار اپنانا ضروری ہے۔ مثلا تحقیق کی کیفیت کیا ہوگی، اس کے کام کا دائرہ اور طریقہ کیا ہوگا تحقیق کہاں سے شروع ہو کر کس نکتہ پر اختتام پذیر ہو اور اس کا مقصد اور نتیجہ بھی روشن ہو۔ اس لیے ذہن میں پہلے سے اس کا خاکہ اور نقشہ موجود ہونا چاہئے کہ کس طرح اور کن مراحل سے گزر کر مطلوبہ نتیجہ تک پہنچا جائے۔
پچھلے کاموں سے آگاہی
ماضی میں انجام پاچکے امور سے محقق کا آگاہ ہونا بے حد ضروری ہے۔ اس کے متعدد فوائد ہیں مثلاً ہو چکے کام کی تکرار سے بچا جا سکتا ہے۔ اس کے ذریعہ انجام دیا جانے والا کام پختہ مستند اور متحکم ہوگا محقق کو اسلاف کے تجربات اور کاموں سے سیکھنے میں مدد ملے گی ۔ البتہ جدید تحقیقی امور کہ جس پر اب تک کوئی کام نہ ہوا ہو اور نہ اس کی کوئی مثال یا نمونہ موجود ہو، اس کے لیے اس جیسے پچھلے کاموں سے سہارا لینا کوئی ضروری نہیں ہے۔
لہذا ہر ز یر تحقیق موضوع کے لیے پچھلی مثالوں، نمونوں اور ان کے طریقکارسے باخبر اور آشنا ہونا بہتر ہے ۔ مثلاً اگر کوئی غالب، اقبال، سرسید ، مولانا آزاد ، متعدد تحریکات ، مختلف دبستان وغیرہ سے متعلق تحقیقی کام انجام دینا چاہے تو اس پر فرض ہے کہ اس سلسلہ میں پہلے سے جو کام انجام پاچکے ہیں، ان کتابوں، مقالات اور منابع کا سہارا لے۔ یعنی ان کا اسلوب ، طریق کار اور انداز تحریر کیسا ہے، اس پر غور کرے تا کہ وہ خود اپنی تحریر میں ان چیزوں کا استعمال کر کے اسے بہتر ، مفید ، موثر اور کارآمد بنا سکے۔
ماخذ سے آگاہی
تمام اصناف سخن میں ہر موضوع سے متعلق تقریبا اہم منابع و مصادر اور جامع و مانع اور اولی مآخذ موجود ہیں، جن سے معتبر ، مؤثق اور مستند معلومات حاصل ہو جاتی ہیں اور ہو سکتی ہیں ۔ ایک محقق کی ذمہ داری ہے کہ متعلقہ موضوعات کے سلسلے میں ، ان منابع و مآخذ سے آشنا ہو۔
یہ منابع و مصادر قدیم بھی ہو سکتے ہیں ، جدید بھی بعض کتا بیں جیسے انسائیکلو پیڈیا وغیرہ بالخصوص اسی مقصد سے تحریر بھی کی گئی ہیں ۔ اور بعض کتا ہیں اصل منابع تک رسائی کے لیے رہنما کا فریضہ انجام دیتی ہیں جیسے رسائل کے اشاریے وغیرہ۔
منابع و ماخذ کی کتابیں جو ترتیب و تنظیم کے ساتھ مختلف میدانات مثلا علمی ، ادبی ، تاریخی ، سماجی و غیره سے متعلق تحریر و تدوین کی گئی ہیں ، ان سے دقیق اور فوری اطلاعات تھوڑے غور و فکر کے بعد بہم ہو جاتی ہیں۔ مثلاً عام اطلاعات ، انسائیکلو پیڈیا ، ذخیرہ الفاظ ولغات ، سوانح حیات، سالانہ رپورٹس ، اشاریے ، فہرست ، فہرست مقالات و مضامین و غیر قبیل کی کتابیں منابع و مآخذ کے زمرے میں آتی ہیں۔
مأخذ و منابع کے دو خارجی وجود ہوتے ہیں۔ پہلا کتا بیں تحریریں، مقالات و مضامین وغیرہ یعنی جو تحریری شکل وصورت میں ہو۔ دوسرا زندہ منابع جیسے محققین ، صاحبان نظر، آگاہ افراد وغیرہ کہ ان کے پاس مختلف موضوعات کے سلسلہ میں دقیق اور قیمتی معلومات ہوتی ہیں
اور افراد بھی سارے تحقیقی امور میں تاخذ و منابع کی حیثیت سے اپنا کردار ادا کر سکتے ہیں۔ ان کے علاوہ ایک تیسرا وجود بھی ہے مثلا تصویر میں ، فلمیں، سماعت و بصارت سے متعلق مواد، ویڈیوز ، آڈیوز ، ایم پی تھری و فور ، ریڈیو وغیرہ کہ جو کتاب یا تحریری شکل میں نہ ہوں ۔ اس زاویہ سے محقق اور صاحبان نظر افراد کو بھی اس تیسرے زمرہ میں رکھا جا سکتا ہے۔
اس کے علاوہ محقق کی ذمہ داری ہے کہ مختلف منابع و مآخذ کی اہمیت ، قدر و قیمت اور اعتبار و استناد کی طرف بھی متوجہ رہے اور موضوع سے متعلق دسیوں منابع کے درمیان یہ امتیاز قائم کرنے کی استعدا د رکھتا ہو کہ ان میں کون سا منبع و ما خذ مستند و معتبر ہے اور کس کا اعتبار و اہمیت نسبتا کم ہے۔ فلاں کتاب کے مصنف کے کیا
افکار و خیالات ہیں اور اس نے اس کتاب کی تیاری میں کیا طریق کار اپنایا ہے؟
اس طرح کی معلومات حاصل کرنے کا فائدہ یہ ہوگا کہ اس کتاب سے مطالب کے حصول اور نتیجہ گیری میں آسانی پیدا ہوگی اور اس کی تاثیر بھی زیادہ ہوگی ۔ کیوں کہ یہاں جو بات پیش کی جائے گی اس میں حد درجہ وثوق اور یقین شامل ہوگا۔
مربوط موضوعات سے آگاہی
تحقیقی میدان میں اگر محقق کے ذہن میں یہ صلاحیت وقوت ہے کہ آپس میں مربوط مختلف موضوعات کو سمجھ سکے اور ان کے درمیان موجود ارتباط کو کشف کرسکے تو تحقیق کا نتیجہ منفردا اور اچھا ہوگا۔ مثلا اگر کوئی تخت سلیمانی کے بارے میں تحقیق کرنے کا ارادہ بنائے تو اس کے لیے انبیاء اور ان کے معجزات کے بارے میں مطالعہ کرنا ناگزیر ہو جائے گا۔
تمام موضوعات میں رابطوں کی تلاش اور حصول کا فائدہ یہ ہے کہ محقق کے لیے معلومات کے نئے دریچے کھلتے ہیں اور منابع و مآخذ کے بارے میں بھی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔ اس کام کے لیے نقل کا چند چیزوں کا حامل ہونا ضروری ہے:
ا۔ عام معلومات اور اطلاعات
2۔ ضرورتوں ، تقاضوں اور خلا کے موارد محسوس کرنا اور سمجھنا۔
۔3. ذہن کا فورا مطلوب شے اور ضرورت کی جگہ پرمنتقل ہونا ،اور مسلسل حرکت و عمل میں مصروف رہنا۔
4: مطلوب اشیاء کے جمع کرنے اور ان سے نتیجہ حاصل کرنے کی مہارت اور قدرت ہونا وغیرہ۔
غور و فکر
تحقیق کا ایک اہم منبع اور ماخذ، انسان کے اپنے افکار و خیالات ، حافظے اور غور و فکر سے حاصل ہونے والے نتائج وذخائر سے ہر وقت استفادہ کرنا بھی ہے۔ تحقیق میں صرف مطالعہ پر تکیہ نہیں کرنا چاہیے بلکہ اس کام کے لیے غور وفکر کا بھی ایک حصہ اور جگہ معین ہونا چاہیے۔
انسان کے افکار وخیالات بھی ایسے خالص اور پر بہار خزانے ہوتے ہیں جو مختلف اور متعدد مسائل کا منبع بننے کی صلاحیت رکھتے ہیں اور جتنا ان سے استفادہ کیا جائے گا اور ان کا استعمال کر کے انھیں مسلسل مصروف عمل رکھا جائے گا ، اتنا ہی ان سے فائدہ ہوگا اور نتائج و معلومات کا انبار بڑھتا جائے گا۔ مثلاً ایک کنویں سے اگر مسلسل پانی نکالا جاتا ر ہے تو اس کے ابال اور جوش میں اضافہ ہوتا ہے
لیکن اگر اسے استعمال میں نہ لایا جائے اور یوں ہی خاموش وجود کی شکل میں چھوڑ دیا جائے تو ممکن ہے مرور زمانہ کے ساتھ وہ خشک بھی ہو جائے۔”حافظہ” بھی ایک بھولا بسرا منبع کی مانند ہوتا ہے ۔ یہ عام بات ہے کہ بہت سی چیزیں پہلے سے پڑھی یا سنی ہوئی ہوتی ہیں اور حافظہ میں کہیں نہ کہیں موجود رہتی ہیں لیکن ہمارے شعور و احساس کی پہنچ سے دور دور رہتی ہیں اور ایک ہلکی پھلکی یاد دہانی سے وہ نکل کر سامنے آجاتی ہیں۔
یاد داشت
اسناد و منابع ، مصادر و مآخذ کی شکل میں موجود کتابوں کا مطالعہ اور تحقیق کرتے وقت یا سماج و معاشرہ میں وقوع پذیر حالات و حادثات اور محسوس اشیاء کی نقل اتار نے ، یا کوئی اطلاع یا خبر تیار کرنے یا واقعات و مشاہدات تحریر کرنے میں اگر اپنے زیر تحقیق موضوع سے متعلق کچھ مطالب مل جائیں تو انھیں نوٹ کرتا جائے ۔
کیوں کہ موضوع کی تحقیق میں ان سے کافی مدد حاصل ہوگی ۔ البتہ نوٹ بک کے ہر صفحہ پر اوپر، نیچے یا کنارے ضروری معلومات لکھنا نہ بھولے مثال موضوع ، اس کے ذیلی عناوین، مدرک منبع کی مکمل تفصیل اور نوٹس لکھنے کی تاریخ و نمبر شمر وغیرہ۔ اس سلسلہ میں مختصر علامات اور اشارات کا بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔
بہت ممکن ہے کہ محقق کے پاس سیکڑوں اور ہزاروں اوراق نوٹس بک کی شکل میں موجود ہوں جن کو الگ الگ اہداف و مقاصد اور جدا جدا موضوعات کے اعتبار سے تیار کیا گیا ہو لیکن وہ معلومات ، اطلاعات اور نوٹس تحقیقی کام میں مفید ہیں کہ جن میں درج ذیل خصوصیات پائی جاتی ہوں:
ا۔ گہرائی ، دقت 2- تفصیل ، وضاحت 3- طمانیت تسکین
کفایت، بے نیازی
یادداشتوں میں بہم کی جانے والی معلومات اور اطلاعات منتظم و مرتب ہونی چاہئے ۔ ظاہری نظم و ترتیب کا بھی خیال رکھا گیا ہو اور باطنی و معنوی تہذیب بھی پائی جاتی ہو ۔ کیوں کہ نمبر شمار مختصر علامات ، حاصل شدہ معلومات وغیرہ کو منظم طریقہ سے مرتب کرنے سے وقت ضرورت اس سے استفادہ کرنے میں آسانی ہو جائے گی اور تحقیقی کام میں مدد ملے گی۔
نظم و ترتیب
کام کے آخری مرحلہ میں تحقیقی نوٹس کے مجموعے اور مکمل مطالب کو قابل قبول صورت عطا کر کے اسے پیش کرنے کے لائق بنایا جائے ، اس کا نام نظم و ترتیب ہے۔
ایک اچھی نظم اور خوبصورت ترتیب کے لیے ضروری ہے کہ:
1۔ اطلاعات و معلومات کو مختلف گروہ اور حصوں میں تقسیم کر لیں۔
2:ہر گروہ اور حصہ کو مناسب جگہ پر رکھیں۔
3:غیر ضروری یا غیر مربوط معلومات اور اطلاعات بہم کرنے کے لیے الگ سے کوئی فضیلت کا باب قائم نہ کیا جائے۔
اگر مطالب کی گروہ بندی نہ کی جائے اور انھیں مختلف حصوں میں تقسیم نہ کیا جائے اور آپس میں سب خلط ملط ہو جا ئیں تو محققین اور قارئین دونوں کے لیے خستگی اور الجھن کا سبب بن جاتا ہے۔ اور مطالب کو بے جا استعمال کرنے سے بھی اس کی اہمیت وافادیت اور قدرو قیمت میں کمی واقع ہو جاتی ہے۔
غیر ضروری اور غیر مربوط مطالب کے بیان اور نقل میں زبردستی کے اضافہ سے صرف کتاب یا تحریر کا جم زیادہ ہو جاتا ہے جس سے کشش میں کمی واقع ہوتی ہے اور کوئی مفید نتیجہ حاصل نہیں ہوتا۔
یہ بات بھی ذہن نشین رہنا چاہئے کہ تنظیم و ترتیب کے مرحلہ میں تحریر نگارش کا مسئلہ بھی در پیش ہوتا کہ جس کا اپنا الگ اور منفر د طریق کار اور اصول ہے ، جس کے یہاں بیان کی گنجائش نہیں ہے بلکہ مستقل ایک الگ بحث ہے جو اپنا مقام رکھتی ہے۔
البتہ اتنا بیان کر دینا ضروری ہے کہ جمع کیسے ہوئے مطالب اور حاصل کی گئی اطلاعات و معلومات کی نظم و ترتیب سے عالم وجود میں آنے والی تحریر کا خاکہ اس طرح ہو کہ اس میں کم سے کم تین درج ذیل چیزیں پائی جاتی ہوں: (1- مقدمہ ۲ متن ، اصل موضوع ۳۔ نتیجہ ) اور اس میں یہ صلاحیت ہو کہ تحقیقی میدان میں دریافت شدہ حقائق بلیغ و قابل قبول صورت میں دوسروں تک منتقل کر سکے۔
پروفیسر عبد الستار دلوی نے اپنے مضمون تحقیقی عمل کے مراحل میں محقق کے اوصاف میں مندرجہ ذیل قومی کو لازم قرار دیا ہے :
1: قوت استدلال:
اخذ یاتی اور تخلیقی
2: قوت حافظہ :
ادرا کی مفصل اور مبنی بر دلائل
3:مراقبہ
( ارتکاز فکر ) مضبوط اور طویل
4۔ ذہنی صداقت
اپنی جانب اور موضوع کی جانب
5: شوق اور حوصلہ :
بنیادی تخلیقی عمل سے متعلق
6-تجس:
مستعد اور فعال
تحقیق کے سلسلہ میں چند ضروری ہدایات
ذیل میں ذکر کی جارہی ہیں ہدایات کا تعلق زیادہ تر تحریر کی شکل وصورت ، اس کی ظاہری زینت و آرائش اور منابع و مآخذ کی طرف رجوع کرنے کی کیفیت اور طریق کار سے ہے، جس پر تحقیقات کے نتائج کی ترتیب وتنظیم اور تدوین کے لیے عمل پیرا ہونا ضروری اور مفید ہے:
1- تحقیقی شاہ کار کا کوئی مختصر مگر بولتا ہوا نام اور عنوان منتخب کیا جائے۔
2-ذیلی اور فرعی عناوین بھی جتنے مختصر اور بولتے ہوئے ہوں اتنا بہتر ہے۔ عناوین کی جملے کی سی ترکیب نہ ہو۔
3-فصلیں قائم کرنے اور عناوین وغیرہ میں افراط و تفریط سے پر ہیز کیا جائے ۔
فصول اور ابواب کی تعیین تحریر کے حجم کی مناسبت سے ہونی چاہئے ۔ عناوین کی مثال گاڑیوں کے اسٹینڈ کی سی ہے کہ جو نہ بہت فاصلے سے ہوں اور نہ بہت نزدیک ۔
4-اقوال و اقتباسات اور عبارات اگر براہ راست نقل کی جارہی ہیں تو عبارت میں ذرا بھی تصرف اور خور دو برد مناسب نہیں ہے اور اگر کہیں تغیر و تصرف کی صورت پیش آگئی ہے تو اس کا اعلان واظہار ضروری ہے۔
مثلاً یہ وضاحت کر دے کہ یہ اقتباس ہے تلخیص ہے تغیر و ترمیم کی ہوئی ہے، آزاد ترجمہ ہے، مفہوم لیا گیا ہے،
الفاظ میں تصرف ہوا ہے وغیرہ تا کہ قارئین کی جانب سے تحریف اور خیانت کی تہمت نہ لگ سکے اور اگر کسی عربی یا فارسی متن کاترجمہ (متن کی عبارت سخت اور دقیق ہونے کی وجہ سے ) کسی خاص ترجمہ سےاستفادہ کر کے لکھا گیا ہوتو اس کا بھی تعین کر دیا جائے تا کہ دوسروں کے حقوق تلف نہ ہوں۔
5-جن منابع میں بعض مطالب حاشیہ میں لکھے گئے ہوں اور حاشیہ کا کچھ حصہ اگلے ورق تک تجاوز کر گیا ہو، ان کا حوالہ دیتے وقت کتاب کا مکمل نام ، مؤلف یا مصنف کا نام ، جلد اور صفحہ نمبر صاف صاف لکھنا ضروری ہے ۔
اگر کوئی کتاب متعدد بارز یور طبع سے آراستہ ہوئی ہو اور ایک ہی مطلب ان کتابوں کی الگ الگ طباعت کے جدا جدا صفحات پر ہو تو مراجعہ کی صورت میں سن اشاعت کی وضاحت کرنا بھی ضروری ہے۔
6-کسی مطلب یا موضوع کی تلاش کے لیے ماخذ یا منبع کی طرف رجوع کرنے کے لیے مختصر طریق کار اور مختصر علامت کا سہارا لینا بہتر ہوگا مثلا یہ لکھنے کے بجائے کہ اس سلسلہ میں کتاب تحقیق کا فن ، مصنف
ڈاکٹر گیان چند جین ، جلد اول صفحہ پچیس ، مطبوعہ ایجوکیشنل پبلیشنگ ہاؤس دہلی کی طرف رجوع کریں، اس طرح لکھنا بہتر ہوگا۔
تحقیق کا فن : گیان چند جین ، ج را ص ۲۵۰، طارد لی ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں