مخمور سعیدی اقصیٰ طارق

مخمور سعیدی اقصیٰ طارق

مخمور سعیدی 31 دسمبر 1938 کوٹونک میں پیدا ہوئے تھے۔ مخمور سعیدی نے اردو سے ایم اے کیا اور اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کی زبان بھی اردو کو بناتے ہوئے اس میں شاعری شروع کر دی اور پھر اسے اپنا اوڑھنا واقع نا بچھونا بنالیا۔ شاعری کے علاوہ انھوں نے نثری و تصنیفی میدانوں کی بھی سیر کی کئی کتا بیں لکھیں اور کئی کتا ہیں ترتیب دیں۔ کئی رسالوں کتابوں کی ادارت بھی کی۔ ان کے ادبی کارناموں کی وجہ سے انھیں راجستھان اور دہلی اردو اکادمی کی جانب سے انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا ۔ وہ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیے گئے۔ مختلف میدانوں میں سرگرم ہونے اور کام کرنے کے باوجود ان کی اصل شناخت شاعری سے قائم ہوئی ۔ ہندو بیرون ہند کے بہت سے ادبی رسالوں میں ان کی غزلیں شائع ہوئیں اور پے در پے کئی مجموعے منظر عام پر آئے ۔ علاوہ ازیں محضور سعیدی کئی دہائیوں تک مشاعروں کو بھی اپنے کلام سے زینت بخشتے رہے۔ مخمور سعیدی کی کئی کتا ہیں اور مجموعے منظر عام پر آئے جن میں گفتنی ، آتے جاتے لمحوں کی صدا، بانس کے جنگلوں سے گزرتی ہوا، سب رنگ، واحد متکلم، عمر گزشتہ کا حساب جلد اول، جلد دوم، تجدید جنوں ، واحد متکلم ، قصہ قدیم و جدید ، شیراز و ، اٹھارہ سو ستاون کی کہانی مرزا غالب کی زبانی ، اردو تھیٹر : کل اور آج ، اوراق زندگی بازدید، دیواروں کے درمیاں ، مونوگراف شیخ محمد ابراہیم ذوق، میرے عہد کی صدائیں، وادی خیال آزادی کے بعد اردو غزل اور نظم اور ساحر لدھیانوی ایک مطالعہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کتابوں میں بعض شعری مجموعے ہیں، بعض تصنیفات اور بعض مرتب کی ہوئی کتا ہیں۔ گویا کہ مخمور سعیدی ایک شاعر بھی تھے، مصنف بھی اور نقاد بھی ۔

95

انعام الحق نے صحیح لکھا ہے؟
"مخمور سعیدی آزادی کے بعد ابھرنے والے اردو شعرا کی صف اول کے شاعر تھے۔ شجاع خاور، ڈاکٹر بشیر بدر، شہر یار، حسن نعیم جیسے اہم ناموں کی فہرست میں ان کا نام بھی آتا ہے۔ ان کے ہمعصر شعرا نے انھیں اردو کا اہم شاعر تسلیم کیا ہے اور ناقدین نے بھی ان کے کلام کو مستحسن نگاہوں سے دیکھا ہے ۔ ساجدہ زیدی مخمور سعیدی کے مقام کا تعین ان الفاظ میں کرتی ہیں۔ اگر اختر الایمان کے بعد ابھرنے والے دس بارہ اچھے اور اہم شاعروں کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو اس میں مخمور سعیدی کا نام بھی شامل ہونا چاہیے کہ ان کی شاعری کے بہتر نمونوں کا سوز و گداز ، ان کا مخصوص طرز احساس دلنشیں شعری اسلوب اور عصری مسائل کا دل پذیر اظہار ان کی شاعری کو اعتبار کی سند بخش چکا ہے ۔” (۱)

مخمور سعیدی کی شاعری کا سکہ ان کے پہلے مجموعے گفتنی ہی کے بعد چلنا شروع ہو گیا تھا۔ عام قارئین سے زیادہ خواص نے اس کو پڑھا اور پسند کیا ۔ پھر ناقدین بھی اس پر توجہ دیے بغیر نہ رہ سکے۔ ڈاکٹر کرامت علی کرامت کے مضمون کے مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
"مخمور سعیدی کے پہلے مجموعہ کلام گفتنی کی اشاعت کے بعد نیاز فتحپوری
جیسے سخت گیر نقاد سے لے کر جدید نقادوں تک تقریباً سبھوں نے اسے اردو غالبا یہ ہے کہ مخمور سعیدی جدید شعری رجحانات کے پہلو بہ پہلو خالص ہندوستانی شعری سرمائے میں ایک وقیع اضافہ تسلیم کیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب مزاج سے بھی اپنے فن کو ہم آہنگ کر دیتے ہیں "۔ (۴۲)

گفتنی کے بعد ان کے جتنے بھی مجموعے منظر عام پر آئے وہ ان کی مقبولیت میں اضافہ کرتے چلے گئے اور ان
96
کی شاعری کے دائرے کو پھیلاتے اور مستند و معتبر بناتے چلے گئے ۔ جیسا کہ جب ان کا شعری مجموعہ دیوار و در کے درمیاں اشاعت پذیر ہوا تو اسے بہت زیادہ پسند کیا گیا اور اس پر کھل کر تبصرے کیے گئے تنقیدی جائزے لیے گئے اور اس کے محاسن پر نظر ڈالی گئی۔ اس مجموعے کی غزلوں کی آئینے میں مخمور سعیدی کی شخصیت اور شاعری کو ہر زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ مثلا پی پی سری و استور ند کا یہ اقتباس دیکھیں:
"دیوار در کے درمیاں ایک تخلیقی ریاضت کا سفر ہے جس میں جگہ جگہ جذبات کا اتار چڑھاؤ اور دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کے اندر کا کرب، خود کواندر سے چھو لینے کی خواہش اور گھٹتی ہوئی فضا سے راہ فرار کی تلاش بہت واضح طور سے کی جاسکتی ہے ۔ دیوار و در کے درمیاں ایک ایسا مجموعہ ہے جس کو آہستہ آہستہ پڑھنے میں عجیب کیف حاصل ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر قاری کی انگلیاں تھا سے ایک ایسے گلشن کی سیر کروارہا ہے جس کی فضا کبھی رومانی ہے۔ کبھی جذباتی کبھی نفسیاتی ۔ اس خوش نما گلشن میں خاردار
جھاڑیاں بھی نظر آتی ہیں جو اس کے حسن کو دو بالا کر دیتی ہیں ۔” (۴۳)

مخمور سعیدی کی شاعری میں داخلیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے انے جو کچھ محسوس کیا دیکھا پرکھا اسے شاعری کا جامہ پہنا دیا۔ اپنے احساسات اور جذبات کے کرب کو انھوں نے شعری قالب میں ڈھال دیا۔ داخلیت ایک ایسا جوہر ہے جو شاعری میں تاثیر بھی پیدا کرتا ہے اور معنویت بھی ۔ میر کی شاعری کو اوج ثریا تک لے جانے والی چیز داخلیت ہی ہے۔ رشید حسن خاں لکھتے ہیں :

"مخمور کی شاعری اپنے عہد سے زیادہ شاعر کے احساس اور اس کے ماضی و حال کی آئینہ دار ہے۔ یہ اس کے ذہنی سفر کی داستان ہے۔ اس کی محرومیوں کی کہانی ہے اور اس کے عقیدوں کی ترجمانی ہے۔ اس ترجمانی میں اسی طرح کی

97

وسعت پنہاں ہے جو شاعری کی علامتوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ ہم اس کی شاعری میں اس کے ماضی و حال کو دیکھ سکتے ہیں جو بدلتے ہوئے حالات کے داستان سرا ہیں۔ اس میں شخص کا افسانہ زیادہ ہے اور دنیا کا افسانہ اس کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔ یہ خیالات کی داستان کم ہے تاثرات کی کہانی زیادہ ہے اور اس نے اس میں سچائی ، سادگی اور تاثیر کا جادو جگایا ہے ۔ "(۴۴)

مخمور سعیدی کی شاعری پر رشید حسن خاں کے اس تجزیاتی تجرے سے پہلی بات تو یہ واضح ہوتی ہے کہ ان کی شاعری داخلی شاعری ہے جس نے اس کے اندر تا ثیر اور کشش پیدا کر دی ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے جن خارجی امور و مسائل کو اپنی شاعری میں اٹھایا ہے وہ کہیں نہ کہیں داخلیت کے بطن سے نکلے ہیں مخمور سعیدی کی شاعری میں ان کے اندر کا انسان بولتا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

"تاروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں بے خواب رکھتی ہیں مجھےمخمور سعیدی

مخمور سعیدی 31 دسمبر 1938 کوٹونک میں پیدا ہوئے تھے۔ مخمور سعیدی نے اردو سے ایم اے کیا اور اپنے جذبات واحساسات کے اظہار کی زبان بھی اردو کو بناتے ہوئے اس میں شاعری شروع کر دی اور پھر اسے اپنا اوڑھنا واقع نا بچھونا بنالیا۔ شاعری کے علاوہ انھوں نے نثری و تصنیفی میدانوں کی بھی سیر کی کئی کتا بیں لکھیں اور کئی کتا ہیں ترتیب دیں۔ کئی رسالوں د کتابوں کی ادارت بھی کی۔ ان کے ادبی کارناموں کی وجہ سے انھیں راجستھان اور دہلی اردو اکادمی کی جانب سے انعامات و اعزازات سے بھی نوازا گیا ۔ وہ ساہتیہ اکادمی ایوارڈ سے بھی سرفراز کیے گئے۔ مختلف میدانوں میں سرگرم ہونے اور کام کرنے کے باوجود ان کی اصل شناخت شاعری سے قائم ہوئی ۔ ہندو بیرون ہند کے بہت سے ادبی رسالوں میں ان کی غزلیں شائع ہوئیں اور پے در پے کئی مجموعے منظر عام پر

آئے ۔ علاوہ ازیں محضور سعیدی کئی دہائیوں تک مشاعروں کو بھی اپنے کلام سے زینت بخشتے رہے۔

مخمور سعیدی کی کئی کتا ہیں اور مجموعے منظر عام پر آئے جن میں گفتنی ، آتے جاتے لمحوں کی صدا، بانس کے جنگلوں سے گزرتی ہوا، سب رنگ، واحد متکلم، عمر گزشتہ کا حساب جلد اول، جلد دوم، تجدید جنوں ، واحد متکلم ، قصہ قدیم و جدید ، شیراز و ، اٹھارہ سو ستاون کی کہانی مرزا غالب کی زبانی ، اردو تھیٹر : کل اور آج ، اوراق زندگی بازدید، دیواروں کے درمیاں ، مونوگراف شیخ محمد ابراہیم ذوق، میرے عہد کی صدائیں، وادی خیال آزادی کے بعد اردو غزل اور نظم اور ساحر لدھیانوی ایک مطالعہ خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ ان کتابوں میں بعض شعری مجموعے ہیں، بعض تصنیفات اور بعض مرتب کی ہوئی کتا ہیں۔ گویا کہ مخمور سعیدی ایک شاعر بھی تھے، مصنف بھی اور نقاد بھی ۔

95انعام الحق نے صحیح لکھا ہے؟

محخمور سعیدی آزادی کے بعد ابھرنے والے اردو شعرا کی صف اول کے شاعر تھے۔ شجاع خاور، ڈاکٹر بشیر بدر، شہر یار، حسن نعیم جیسے اہم ناموں کی فہرست میں ان کا نام بھی آتا ہے۔ ان کے ہمعصر شعرا نے انھیں اردو کا اہم شاعر تسلیم کیا ہے اور ناقدین نے بھی ان کے کلام کو مستحسن نگاہوں سے دیکھا ہے ۔ ساجدہ زیدی مخمور سعیدی کے

مقام کا تعین ان الفاظ میں کرتی ہیں:

اگر اختر الایمان کے بعد ابھرنے والے دس بارہ اچھے اور اہم شاعروں کی ایک فہرست مرتب کی جائے تو اس میں مخمور سعیدی کا نام بھی شامل ہونا چاہیے کہ ان کی شاعری کے بہتر نمونوں کا سوز و گداز ، ان کا مخصوص طرز احساس دلنشیں شعری اسلوب اور عصری مسائل کا دل پذیر اظہار ان کی شاعری کو اعتبار

کی سند بخش چکا ہے ۔ (۱)

مخمور سعیدی کی شاعری کا سکہ ان کے پہلے مجموعے گفتنی ہی کے بعد چلنا شروع ہو گیا تھا۔ عام قارئین سے زیادہ خواص نے اس کو پڑھا اور پسند کیا ۔ پھر ناقدین بھی اس پر توجہ دیے بغیر نہ رہ سکے۔ ڈاکٹر کرامت علی

کرامت کے مضمون کے مندرجہ ذیل اقتباس سے اس کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:

مخمور سعیدی کے پہلے مجموعہ کلام گفتنی کی اشاعت کے بعد نیاز فتحپوری

جیسے سخت گیر نقاد سے لے کر جدید نقادوں تک تقریباً سبھوں نے اسے اردو غالبا یہ ہے کہ مخمور سعیدی جدید شعری رجحانات کے پہلو بہ پہلو خالص ہندوستانی
ڑ
شعری سرمائے میں ایک وقیع اضافہ تسلیم کیا ہے۔ اس کا سب سے بڑا سبب

مزاج سے بھی اپنے فن کو ہم آہنگ کر دیتے ہیں ۔ (۴۲)

گفتنی کے بعد ان کے جتنے بھی مجموعے منظر عام پر آئے وہ ان کی مقبولیت میں اضافہ کرتے چلے گئے اور آپ
96کی شاعری کے دائرے کو پھیلاتے اور مستند و معتبر بناتے چلے گئے ۔ جیسا کہ جب ان کا شعری مجموعہ دیوار و در کے درمیاں اشاعت پذیر ہوا تو اسے بہت زیادہ پسند کیا گیا اور اس پر کھل کر تبصرے کیے گئے تنقیدی جائزے لیے گئے اور اس کے محاسن پر نظر ڈالی گئی ، اس مجموعے کی غزلوں کی آئینے میں مخمور سعیدی کی شخصیت اور شاعری کو ہر زاویے سے دیکھنے کی کوشش کی گئی۔ مثلا پی پی سری و استور ند کا یہ اقتباس دیکھیں:

دیوار در کے درمیاں ایک تخلیقی ریاضت کا سفر ہے جس میں جگہ جگہ جذبات کا اتار چڑھاؤ اور دل کی دھڑکنیں صاف سنائی دیتی ہیں۔ اس کے علاوہ انسان کے اندر کا کرب، خود کواندر سے چھو لینے کی خواہش اور گھٹتی ہوئی فضا سے راہ فرار کی تلاش بہت واضح طور سے کی جاسکتی ہے ۔ دیوار و در کے درمیاں ایک ایسا مجموعہ ہے جس کو آہستہ آہستہ پڑھنے میں عجیب کیف حاصل ہوتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ شاعر قاری کی انگلیاں تھا سے ایک ایسے گلشن کی سیر کروارہا ہے جس کی فضا کبھی رومانی ہے۔ کبھی جذباتی کبھی نفسیاتی ۔ اس خوش نما گلشن میں خاردار

جھاڑیاں بھی نظر آتی ہیں جو اس کے حسن کو دو بالا کر دیتی ہیں ۔ (۴۳)

مخمور سعیدی کی شاعری میں داخلیت کا عنصر نمایاں نظر آتا ہے انے جو کچھ محسوس کیا ، دیکھا، پرکھا اسے شاعری کا جامہ پہنا دیا۔ اپنے احساسات اور جذبات کے کرب کو انھوں نے شعری قالب میں ڈھال دیا۔ داخلیت ایک ایسا جوہر ہے جو شاعری میں تاثیر بھی پیدا کرتا ہے اور معنویت بھی ۔ میر کی شاعری کو اوج ثریا تک لے جانے والی چیز داخلیت ہی ہے۔ رشید حسن خاں لکھتے ہیں :

مخمور کی شاعری اپنے عہد سے زیادہ شاعر کے احساس اور اس کے ماضی و حال کی آئینہ دار ہے۔ یہ اس کے ذہنی سفر کی داستان ہے۔ اس کی محرومیوں کی کہانی ہے اور اس کے عقیدوں کی ترجمانی ہے۔ اس ترجمانی میں اسی طرح کی

97
وسعت پنہاں ہے جو شاعری کی علامتوں میں پنہاں ہوتی ہے۔ ہم اس کی شاعری میں اس کے ماضی و حال کو دیکھ سکتے ہیں جو بدلتے ہوئے حالات کے داستان سرا ہیں۔ اس میں شخص کا افسانہ زیادہ ہے اور دنیا کا افسانہ اس کے ذیل میں بیان ہوا ہے۔ یہ خیالات کی داستان کم ہے ، تاثرات کی کہانی زیادہ ہے اور اس نے اس میں سچائی ، سادگی اور تاثیر کا جادو جگایا ہے ۔ (۴۴)

مخمور سعیدی کی شاعری پر رشید حسن خاں کے اس تجزیاتی تجرے سے پہلی بات تو یہ واضح ہوتی ہے کہ ان کی شاعری داخلی شاعری ہے جس نے اس کے اندر تا ثیر اور کشش پیدا کر دی ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوتی ہے کہ انھوں نے جن خارجی امور و مسائل کو اپنی شاعری میں اٹھایا ہے وہ کہیں نہ کہیں داخلیت کے بطن سے نکلے ہیں مخمور سعیدی کی شاعری میں ان کے اندر کا انسان بولتا ہے۔ اس حوالے سے چند اشعار ملاحظہ فرمائیں:

تاروں کی ٹھنڈی چھاؤں میں
بے خواب رکھتی ہیں مجھے

احساس کی دیوار سے سر پھوڑتی تنہائیاں
راہ کی بھیٹر میں گم کر نہ دیا کیوں خود کو
اب یہ کیا چیختے پھرتے ہو کہ میں تنہا ہوں

مخمور سعیدی ایک خود دار انسان تھے۔ اسی لیے سخت حالات میں بھی انھوں نے اپنی انا کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کے بارے میں نہ سوچا۔ ان کی شخصیت میں رچی بسی انا ان کی شاعری کا ایک جز بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے بہت سے اشعار میں آنا جلوہ گر نظر آتی ہے۔ ملاحظہ فرمائیں:

محو ہو جائے دل سے نقش ‘انا’ وہ نظر اتنی دلنشیں بھی نہیں

98

ٹھوکریں کھا کر ‘انا ‘کی گر پڑا ہوں
بار بار میں خود اپنی راہ کا پتھر رہا ہوں ان دنوں

چاروں طرف سے سنگ ملامت کی زد پہ ہوں
رسوائی انا کی اب ایسی ہی حد پہ ہوں

مخمور سعیدی کی غزلوں اور نظموں میں تاثیر کی چاشنی اس لیے بھی پیدا ہوئی ہے کہ ان کے یہاں احساس کی نے بہت تیز ہے۔ یعنی وہ حساس طبیعت کے مالک ہیں اور ان کے فن پر احساس کی گہری چھاپ ہے۔ اگر گہرائی سے دیکھا جائے تو احساس فنکار کی روح ہے چاہے فنکار شاعر ہو، یا موسیقار، یا مصور – جوفن کار جس قدر فطری طور پر حساس ہوتا ہے اور اپنے احساس کی تپش سے اپنے فن کو تپاتا ہے۔ اس قدر اس کے کلام میں سحر اور اثر پیدا ہو جاتا ہے ۔ ایسا لگتا ہے کہ مخمور سعیدی نے بھی اپنے فن کو احساس کی بھٹی میں تپایا ہے۔ اس بات کا احساس خود مخمور سعیدی کو بھی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

یہ میرے احساس کو ڈستی ہوئی تنہائیاں
میرے تعاقب میں رہیں اکثر میری تنہائیاں

پروفیسر سیدہ جعفر نے اس حوالے سے لکھا ہے:

"مخمور سعیدی کی غزلوں اور نظموں کے تلازموں ، ان کی امیجری اور حسی پیکروں پر تنہائی کے احساس کی گرفت خاصی مضبوط محسوس ہوتی ہے۔ ان کے متعدد اشعار ای احساس کے ترجمان ہیں کہ شاعر کا وجود تنہائی کے بیکراں کرب سے دو چار ہے اور یہ تجربہ اس دور کے انسان کا مقدر بن گیا ہے ۔” (۴۵)

99
مخمور سعیدی کی شاعری کی ایک خصوصیت یہ ہے کہ وہ کسی خاص نظریے میں قید نہیں ہے۔ حالانکہ انھوں نے جس دور میں آنکھیں کھولیں ، اس زمانے میں ہر طرف ترقی پسند تحریک کا شور شہرہ تھا۔ بڑے بڑے ادیب اس سے متاثر تھے۔ بہت سے پورے طور پر اس تحریک کو فروغ دینے کے لیے ادب خلق کر رہے تھے۔ گویا کہ ان کا ادب ترقی پسند تحریک کا تر جمان تھا لیکن مخمور سعیدی نے ترقی پسند تحریک کے حصار میں محصور ہونا گوارا نہ کیا۔ انھوں نے اپنے آپ کو اس کے اثر سے محفوظ رکھا تا کہ ان کا ادب آزاد ہو۔ ترقی پسند تحریک سے مخمور سعیدی کی بیزاری ان کے اس
بیان سے ظاہر ہے۔ ہمارے یہاں غیر ادبی بنیادوں پر ادبی فیصلے صادر کرنے کا سلسلہ ترقی پسند تحریک کے ساتھ شروع ہوا، انجمن ترقی پسند مصنفین عالمی اشترا کی تحریک کا ایک محاذی ادارہ تھی اور یہ ادب کو اپنے سیاسی مقاصد کے حصول کے لیے استعمال کرنا چاہتی تھی۔ ترقی پسند ناقدوں نے ایسے ادیبوں اور شاعروں کو آگے
بڑھایا جو اپنی فنکارانہ ذمہ داریاں بھلا کر کلیتا ان کے ہمنوا ہو گئے۔ فنی پیمانے پس پشت ڈال دیے گئے اور سیاسی نعرہ زنی کو شعر و ادب کی کسوٹی قرار دے دیا گیا۔ اب کیسے کہا؟ پر کسی کی توجہ نہیں تھی، صرف کیا کہا ؟ سے سروکار تھا ۔” (۴۶)

غالبا یہی وجہ ہے کہ مخمور سعیدی کی شاعری کا کینوس بہت وسیع ہے ۔ انھوں نے اپنی شاعری میں بہت سے موضوعات کو برتا ہے۔ فرد کی پوری زندگی ان کی غزلوں میں سمائی ہوئی نظر آتی ہے۔ ان کی شاعری میں امید بھی ہے اور مایوسی کو ظاہر کرنے والے اشعار بھی۔ انھوں نے احساسات کو بھی شعری قالب میں ڈھالا ہے اور تجربات و مشاہدات کو بھی بیان کیا ہے۔ وہ کبھی غزلوں میں اپنے محبوب سے باتیں کرتے ہیں تو کبھی زمانے کے حالات کو رقم کرتے ہیں۔ اپنی زندگی کا رونا بھی روتے ہیں اور دوسروں کے درد کو بھی اشعار کی لڑی میں پروتے ہیں۔ ان کے یہاں رومانیت بھی ہے اور روحانیت بھی۔ انسانی اخلاق و تہذیب کی بات کرتے ہیں اور اقدار وروایات کے فروغ

100

کی بھی تلقین کرتے نظر آتے ہیں۔ ان کی بعض نظمیں رندی اور بے خودی میں ڈوبی ہوئی دکھائی دیتی ہیں اور بعض نظمیں شعور و آگہی کا احساس کراتی ہیں اور احتجاج کرتی نظر آتی ہیں۔ وقت کے جبر کی شکایت بھی ان کی شاعری میں ہے اور استحصال کے خلاف صدائے احتجاج بھی۔ وہ عہد حاضر کی بات کرتے ہیں، لیکن اس سے زیادہ ماضی سے رشتہ رکھتے ہیں۔ الغرض انھوں نے بہت سے موضوعات کو اپنی نظموں اور غزلوں میں برتا ہے۔ مندرجہ ذیل اشعار ملاحظہ کیجئے جو مختلف موضوعات و خیالات کا احاطہ کرتے ہیں:

غم و نشاط کی ہر رو گزر میں تنہا ہوں
مجھے خبر ہے میں اپنے سفر میں تنہا ہوں
اک اجنبی دنیا میں اب جینا مقدر ہو گیا
جس سے نظر مانوس تھی اوجھل وہ منظر ہو گیا
کبھی کبھی نظر آتا ہے یہ سماں کیسا
تمام عکس فتا نقش جسم و جاں کیسا
وقت ہر موڑ پر دیوار کھڑی کر دے گا
وقت کی قید سے گھبرا کے کدھر جاؤ گے
کھیل میرے لیے موجوں کا تعاقب مخمور
میں اتر جاؤں گا بے خوف و خطر پانی میں

101
صبح کے اخباروں کی سرخی بن کر شہر پر چھائی آگ
آج یہ کیسا دن نکلا، کیوں سورج نے برسائی آگ

مخمور سعیدی کی زبان سلیس اور رواں ہے ۔ وہ زبان پر عبور رکھتے ہیں اور اپنی شاعری میں زبان کی نزاکتوں کا دوسرے کے مقابلے میں زیادہ خیال رکھتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ وہ فن شعر کی رعایت کرتے ہیں اور روایتی اصول وضوابط سے بھی واقفیت رکھتے ہیں۔ اس لیے ان کے اشعارفن کے ضابطوں پر کھرے اترتے ہیں ۔ یہ ایک بڑا وصف ہے جس نے ان کی شاعری کو پختہ اور پرکشش بنا دیا۔ مخمور سعیدی کے یہاں لفظیات کا دائرہ بھی بہت وسیع ہے۔ وہ اپنی بات کو آسانی سے شعر کی زبان میں ادا کر دیتے ہیں اور خوبصورت لفظیات سے اشعار کو جاذب بنانے کا ہنر جانتے ہیں۔ ان کی شاعری میں وضاحت بھی ملتی ہے اور ایہام بھی ۔ انھوں نے چھوٹی بحروں میں غزلیں کہی ہیں اور بڑی بحروں میں بھی۔ پرانی زمینوں میں بھی ان کی غزلیں موجود ہیں اور زمینیں بھی انھوں نے وضع کیں ۔ مخمور سعیدی کی شاعری کا گہرائی سے جائزہ لینے کے بعد یہ بات بجا طور پر کہی جاسکتی ہے کہ وہ اردو کے بڑے شاعر ہیں اور اپنے عہد کے دوسرے شعرا سے کم نہیں ہیں۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں