میدان عمل ناول کا تنقیدی جائزہ

میدان عمل ناول کا تنقیدی جائزہ | Maidan-e-Amal Novel Ka Tanqeedi Jaiza

کچھ اس تحریر سے:

  1. جس طرح انسانی زندگی ایک وقت میں کئی مختلف دھاروں میں بہتی رہتی ہے ایسے ہی میدان عمل ایک ہی پلاٹ کے اندر کئی زاویے ایسے رکھتا ہے جو الگ الگ دیکھے جاسکتے ہیں۔۔۔
  2. یہاں سب سے پہلا موضوع ہندوستان کی معاصر سیاست ہے۔ 1928 کے بعد ہندوستانی سیاست میں ایک انقلابی تبدیلی آرہی تھی ۔ سیاسی بیداری کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدو جہد کا اغاز بھی ہو چکا تھا۔۔۔
  3. شہر کے مزدوروں کو اکٹھا کرنا، دور دراز کے دیہات سے کسانوں کو ان کی طاقت سے روشناس کروانا، سرکار سے باغیانہ ٹکراؤ ، سرکاری قوانین میں تبدیلی کے لیے تحریک چلانا کبھی اس سیاسی جدو جہد کی تمثالیں ہیں۔۔۔۔
  4. ڈاکٹر قمر رئیس نے ایک جگہ منی کے ہاتھوں انگریزوں کے قتل اور اس کے مقدمے میں تمام عوام کی منی سے ہمدردی کے واقعے کو لے کے کہا ہے کہ پریم چند اس ناول میں گاندھی واد سے منحرف ہو گئے تھے۔۔۔
  5. مذہب کے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا اور مذہب کی بنیاد پر قائم معاشرتی اقدار کے جبر کو بے نقاب کرنا بھی اس ناول کا ایک اہم موضوع ہے۔۔۔۔
  6. ہندو مذہب کا یہ پہلو ان کے نزدیک سخت قابل اعتراض ہے جہاں جنم لیتے وقت ہی انسان کے آئندہ مقام ، اعمال اور ان کی جزا تک مقرر ہو جاتے ہیں ۔۔۔۔
  7. ہندوستان کے تعلیمی نظام پر بھی اس ناول میں کافی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ناول کا پہلا پیراگراف ہی اس نظام پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ ناول میں اس نظام کے جس پہلو کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، وہ اس کا مادیت پرستانہ رویہ ہے۔۔۔۔

میدان عمل ناول کا تنقیدی جائزہ

ناول کے موضوعات

میدان عمل اپنے اندر کئی موضوعات سموئے ہوئے ہے۔ جس طرح انسانی زندگی ایک وقت میں کئی مختلف دھاروں میں بہتی رہتی ہے ایسے ہی میدان عمل ایک ہی پلاٹ کے اندر کئی زاویے ایسے رکھتا ہے جو الگ الگ دیکھے جاسکتے ہیں۔

یہاں سب سے پہلا موضوع ہندوستان کی معاصر سیاست ہے۔ 1928 کے بعد ہندوستانی سیاست میں ایک انقلابی تبدیلی آرہی تھی ۔ سیاسی بیداری کے ساتھ ساتھ سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف جدو جہد کا اغاز بھی ہو چکا تھا

پریم چند نے اس ناول میں وہ سارا منظر نامہ دکھایا ہے جب ہندوستان میں سیاسی اور معاشی حقوق کی جنگ زور پکڑ چکی تھی۔ ڈاکٹر شانتی کمار، امرکانت ، سکھدا، دیوانند سوامی سبھی اس جدو جہد کے علم بردار ہیں۔

شہر کے مزدوروں کو اکٹھا کرنا، دور دراز کے دیہات سے کسانوں کو ان کی طاقت سے روشناس کروانا، سرکار سے باغیانہ ٹکراؤ ، سرکاری قوانین میں تبدیلی کے لیے تحریک چلانا کبھی اس سیاسی جدو جہد کی تمثالیں ہیں۔ اپنی کہانی کے پس منظر میں ناول نگار نے اس دور کی بچی تصویر کشی کر دی ہے۔

سیاسی جدو جہد کا ایک پہلو حکومتی جبر بھی ۔ پریم چند ایک مغلوب قوم کے مصنف تھے جہاں کوئی بھی تحریک چلاتے وقت پہلا خوف ہی اس جبر کا ہوتا ہے۔ گرفتاری ، قید ، مشقت ، جسمانی سزائیں سبھی روا تھا۔ اس کے ساتھ ساتھ محرم کو معاشی طور پر بھی تباہ کر دیا جاتا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پریم چند کے افسانے: کفن، پوس کی ایک رات، حجِ اکبر، راہ نجات، سوا سیر گیہوں کا فنی و فکری مطالعہ | PDF

ایسے میں پریم چند اس جبر کی تصویری جھلکیاں دکھاتے ہیں تا کہ لوگوں کے دل سے یہ ڈرنکل جائے۔ ناول میں پے در پے بھی کردار گرفتار ہوتے چلے جاتے ہیں لیکن کسی کا حوصلہ نہیں ہارتا۔ پیچش کہانی کے واقعات نہیں بلکہ اپنے ہم وطنوں کو اس جبر کے کھوکھلے پن سے شناسائی دی گئی ہے۔

جب ناول کے کردار اس گرفتاری کو کوئی اہمیت نہیں دیتے تو یہی سبق ملتا ہے کہ یہ گرفتاری کوئی ڈرنے والی چیز نہیں بلکہ سیاسی جدو جہد کرنے والوں کے لیے یہ معمول کی بات ہے۔ سکھدا کے سامنے گلی میں ہریجنوں پر گولی چلتی ہے۔ بڑھیا سلونی کو اسٹنٹ کمشنر نے مار مار کھال ادھیڑ دی۔

کالے خان کو نماز سے روکنے کے لیے اس قدر زدو کوب کیا گیا کہ وہ زخموں کی تاب نہ لاتے ہوئے راہی عدم ہو گیا۔ گاؤں کے کسانوں کو لگان نہ دینے کے بدلے تمام مویشی قرق کر لینے کے سزا دے دی گئی۔ جبر کی ان سب صورتوں کو دکھانے کا مقصد ان سے آگاہی بھی تھی اور ان کے خلاف حوصلہ پیدا کرنا بھی۔

یہ بھی پڑھیں: پریم چند کے سماجیات ناول کی روشنی میں | PDF

در حقیقت اس ناول میں ہمارے پچھلے دس پدرہ برس کی تمام تحریکوں کا نفسیاتی مطالعہ ہے۔ کہیں اچھوتوں کے لیے مندروں کے دروازے کھل رہے ہیں تو کہیں سیوا آشرم بن رہے ہیں۔ کہیں لگان کی تخفیف کی تحریک ہے تو کہیں گرام سدھار کی کوشش ہے۔ کہیں مزدوروں کی تنظیم ہے تو کہیں ان کی اقتصادی بہتری کے وسائل کا بیان ۔

ڈاکٹر قمر رئیس نے ایک جگہ منی کے ہاتھوں انگریزوں کے قتل اور اس کے مقدمے میں تمام عوام کی منی سے ہمدردی کے واقعے کو لے کے کہا ہے کہ پریم چند اس ناول میں گاندھی واد سے منحرف ہو گئے تھے لیکن در حقیقت اس ناول کے بیشتر کردار گاندھی کی تعلیمات پر عمل پیرا ہیں۔

شانتی کمار نے منی کے فیصلے کے وقت سلیم اور امر کو سختی سے منع کیا کہ وہ حج کو زدوکوب نہیں کروائیں گے۔ سکھدا کے سامنے سپاہی عام لوگوں کو مار رہے ہیں اور سکھر انھیں آگے بڑھ بڑھ کر اپنی جان دینے کے لیے بھر کا رہی ہے۔

امر کانت نے اپنی گرفتاری کے وقت مزاحمت کرنے والوں کو پیچھے بنے کا حکم دیا۔ شہر میں ہر بیجنوں کو مندر میں جانے کی اجازت لینے پر ہونے والی ہنگامہ آرائی گاندھی کے ہریجنوں کو گلے لگانے کے عمل کا ایک شاخسانہ نظر آتی ہے۔

سلیم گو کہ تند خو ہے اور اس کے پاس ریوالور بھی ہوتا ہے لیکن جب ان پر فائرنگ ہوتی ہے اور ان کے ساتھی مرتے ہیں تب بھی وہ نہ خود ریوالور چلاتا ہے نہ کسی اور کو چلانے کے لیے دیتا ہے۔

پریم چند جبر کے اس نظام کے مخالف ہیں لیکن اسے ختم کرنے کے لیے پر امن جدوجہد کے داعی ہیں جو مزید خشت و خون کو ہوا نہ دے۔ یہاں پریم چند ایک خالص گاندھی واد نظر آتے ہیں۔

سرمایہ دارانہ نظام کے خلاف محنت کش طبقے کی صف آرائی بھی اس ناول کا اہم موضوع ہے۔ سکھدا کے زیر قیادت شہر کے محنت کش سرمایہ داروں کے خلاف کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ان کی ساری جدو جہد اپنے لیے معاشی انصاف کا حصول ہے۔

ہزاروں غریبوں کے رہنے کی جگہ پر چند دولت مند قابض ہو چکے ہیں ۔ یہ زمین واپس لینے کسانوں پر لگان کے لیے کی جانے والی تختیوں کے نتیجے میں امر کانت کی زیر قیادت تحریک چل رہی ہے۔ یہ زمین واپس لینے اور لگان معاف کرانے کے قصے دراصل محنت کشوں کو متحد ہو جانے کی تلقین ہے۔

ظلم کرنا جتنا بڑا گناہ ہے، اتنا ہی بڑا گناہ ظلم سہنا بھی ہے۔ اج طے کرلو کہ یہ ظلم نہ ہو گے ۔ سب ایک دل ہو کر ارادہ کر لو ، اس ظلم کا خاتمہ کر دو گے۔“ میدان عمل

وہ زمانہ دور نہیں جب غریبوں کے ہاتھ میں طاقت ہوگی اور ان کے ہاتھ میں امیروں کی قسمت کا فیصلہ۔ اس لیے میں لکشمی کے بیٹوں سے کہتی ہوں ، انقلاب کے درندے کو چھیڑ چھیڑ کر نہ جگائیے۔ اسے جتنا چھیڑو گے، اتنا ہی چھلائے گا اور جب وہ بالآخر اٹھ کر جمائی لے گا اور زور سے دھاڑے گا تو پھر آپ کا بھاگنے کی راہ نہ ملے گی ۔ ” میدان عمل

مذہب کے ادارے کو تنقید کا نشانہ بنانا اور مذہب کی بنیاد پر قائم معاشرتی اقدار کے جبر کو بے نقاب کرنا بھی اس ناول کا ایک اہم موضوع ہے۔ اس میں سب سے نمایاں واقعہ کتھا رامائن کے موقع پر پہنچ جات کے ہندوؤں کو مندر میں آنے پر زدو کوب کرنے کا ہے۔

مندر اور دھرم اعلیٰ ذاتوں کے لیے ہیں۔ نیچ ذات کا ایسے پوتر استھان پر آنا اعلی ذات کے دھرم کو بھی بھرشٹ کر دیتا ہے اور اس بات کی سزا ضرور دینی چاہیے۔ ناول میں چلی جاتی پر کیے گئے ظلم کی وجہ سے مذہب کے ان ٹھیکے داروں کے خلاف تحریک چلتی ہے اور یہی تحریک بڑھتی بڑھتی طوفان کی شکل اختیار کر لیتی ہے۔

دوسری طرف ان اقدار کی وجہ سے مذہب کے جھگڑوں سے بھی اسے کر ہے۔ وہ انسانیت کا پجاری ہے اور انسان کو جو چیز بھی بندھن میں ڈالتی ہے، وہ اس کی سخت مخالفت کرتا ہے۔

اس خیال سے تسلی ہوتی ہے کہ اس بیسویں صدی میں ہندو جیسی پڑھی لکھی قوم مذہبی گروہ بندی کا سہارا نہیں لے سکتی۔ مذہب کا دور ختم ہو رہا ہے بلکہ یوں کہو کہ ختم ہو گیا ۔

میدان عمل پریم چند امتیاز رنگ و نسل کے سخت مخالفت ہیں۔ ہندو مذہب کا یہ پہلو ان کے نزد یک سخت قابل اعتراض ہے جہاں جنم لیتے وقت ہی انسان کے آئندہ مقام ، اعمال اور ان کی جزا تک مقرر ہو جاتے ہیں ۔

جب پچھلی ذات کے لوگوں کو مندر سے ب نکالا جاتا ہے تو وہ لوگ مندر کے باہر اپنی ایک الگ سمجھا قائم کرتے ہیں۔ پریم چند وہاں نبی آخر الزماں کی تعلیمات کے گن گاتے ہیں جن کے مطابق کسی انسان کو کسی دوسرے پر فوقیت حاصل نہیں سوائے تقوئی اور پر ہیز گاری کے

ناول کا ایک اور موضوع سماجی اصلاح بھی ہے۔ ہندوستانی سماج ایک ٹھہرا ہوا سماج ہے جہاں صدیوں سے کوئی سماجی تبدیل نہیں ہوئی ۔

ازمنہ قدیم سے چلی آتی اقدار کو حقانی احکامات سمجھ کر پوجا جاتا ہے۔ طے شدہ امور پر نکتہ اٹھانا راندہ درگاہ ہونے کے مترادف ہے۔ نیاز مانہ اپنے ساتھ جو تقاضے لے کے آیا ہے، وہ پورا کرنے کے لیے ان اقدار کو بدلنا ضروری ہے لیکن سماج نہ انھیں بدلنے پر آمادہ ہے اور نہ ہی نئے تقاضوں سے نبرد آزما ہونے کے لیے تیار ۔

اگر کوئی اسے بدلنے کی کوشش کرے تو خود اس کی جان کے درپے ہو جاتا ہے۔ پریم چند اس مزاج کا اچھا خاصا شعور رکھتے ہیں۔

صلح پسند ہندو سماج اس وقت تک کسی سے روک ٹوک نہیں کرتا جب تک کہ اس کے معاشرتی نظام پر اعلانیہ ضرب نہ پہنچائی جائے۔ کوئی انقلاب نہیں، انقلاب کے باوا کی تعلیم کیوں نہ دے۔ اسے خبر نہیں ہوتی لیکن تقریر کے حدود سے باہر عمل کے میدان میں کسی نے پاؤں بھی نکالا اور مذہب نے اس کی گردن پکڑی ۔ میدان عمل

پریم چند جیسے باشعور لوگ ہندوستانی معاشرے کی اس منجمد کیفیت کے نتائج کی پیش بینی کر سکتے ہیں اس لیے وہ ان اقتدار پر سخت اعتراض کرتے ہیں اور انھیں بدلنے کی کھلم کھلا تلقین کرتے ہیں۔

ناول میں امر کانت اور سکینہ کی آپسی محبت دو مختلف مذاہب کے درمیان محبت کا استعارہ ہے۔ مندر میں غریبوں کا داخلہ اسی سماجی تبدیلی کا آغاز ہے۔

ہندوستان کے تعلیمی نظام پر بھی اس ناول میں کافی اظہار خیال کیا گیا ہے۔ ناول کا پہلا پیراگراف ہی اس نظام پر نکتہ چینی کرتا ہے۔ ناول میں اس نظام کے جس پہلو کو سب سے زیادہ تنقید کا نشانہ بنایا گیا ، وہ اس کا مادیت پرستانہ رویہ ہے۔

فیس کی زبردستی وصولی ، حصل تعلیم کو حصول معاش کے ساتھ جوڑنا، پروفیسروں کا پرتعیش مزاج ، اخلاقی اقدار سے روگردانی وغیرہ بھی اس تعلیمی نظام کے منفی پہلو ہیں۔ پریم چند اس نظام کے سخت ناقد ہیں اور ناول میں جہاں کہیں اس کے خلاف لکھنے کا موقع آتا ہے تو کھل کر لکھتے ہیں۔

کرائے کی تعلیم ہمارے کیریکٹر کو تباہ کیے ڈالتی ہے۔ ہم نے تعلیم کو روزگار بنا لیا ہے اور اس اعتبار سے اس کے عیب و ہنر کی جانچ کرتے ہیں۔ زیادہ سرمایہ خرچ کرو، زیادہ نفع ہو گا۔ میدان عمل

ہماری تعلیم گا ہیں کیا ہیں؟ دفتری حکومت کے صیغے ہیں اور ہمارے پروفیسر اس حکومت کے پرزے ہیں۔ وہ خود گمراہ ہیں، تاریک ہیں، روشنی کیا پھیلائیں گے۔ جیسے وہ خود نفس کے غلام ہیں ، اسی طرح اپنے شاگردوں کو غلامی میں ڈالتے ہیں ۔ میدان عمل

عورتوں کی اصلاح پریم چند کا ایک اہم موضوع ہے۔ اپنے دوسرے ناولوں میں بھی وہ ایسے نسوانی کردار لے کے آتے ہیں جو خواتین کی قوت کا نمونہ ثابت ہوں ۔ ” میدان عمل میں بھی ایسی کئی عورتیں ہیں جو مردوں سے بڑھ کر قومی فلاحاور بہتری کے کام کرتی ہیں۔

سکھدا ہمنی، را مادیوی، منی، سکینہ کے کردار ناول کے مردوں پر بھی حاوی ہیں۔ پریم چندان عورتوں کا حوصلہ اور عزم دکھا کر اپنے دیس کی عورتوں کو یہ ثابت کرتے ہیں کہ عورت کسی سے کم نہیں ہوتی اور وقت پڑنے پر مردوں کے شانہ بشانہ کام کر سکتی ہے۔ پریم چند عورتوں کے روایتی کردار کو انقلابی کردار میں ڈھالنے کے خواہش مند ہیں ۔

وہ عورتوں کو بڑھاوا دیتے ہیں کہ وہ بھی زندگی کے عمل میں پوری توانائی سے شامل ہوں اور خود کو کمزور نہ سمجھیں۔

عورتوں کو ند یا صنف نازک کہتی ہے۔ کتنی بڑی جہالت ہے۔ انسان جس چیز کو بھی جان سے زیادہ عزیز سمجھتا ہے، وہ اس کی مٹھی میں ہے۔ اسے نازک کیوں کہتے ہیں؟“ میدان عمل

ایک جگہ تو سکھدا کچھ ایسے انداز میں سوچتی ہے جو اپنے زمانے کیا آج کے زمانے میں بھی کسی خاندانی عورت کے لیے انقلابی سمجھے جائیں گے۔ ازدواجی زندگی میں مرد بے وفائی کریں تو بر صغیر کے معاشرے میں مرد کی عزت پر حرف نہیں آتا لیکن اگر عورت ایسا کوئی قدم اٹھالے تو اسے واجب القتل سمجھا جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ عورت ایسے کسی فعل کا سوچتے ہوئے بھی گھبراتی ہے۔ سکھدا ایسے ہی موقع پر یوں سوچتی ہے:

ایسے نفس پرستوں کی یہی سزا ہے کہ ان کی عورتیں بھی ان ہی کے نقش قدم پر چلیں ۔ تب ان کی آنکھیں کھلیں گی اور انھیں معلوم ہوگا کہ جلنا کسے کہتے ہیں ۔
مساوات مردوزن کے باب میں ایسے خیالات کا اظہار بہت ہی انوکھا ہے۔ یقیناً مردوں کو اگر ایسا اندیشہ پیش آجائے تو ان کے سدھرنے کے امکانات زیادہ ہو جائیں گے۔

ان سب موضوعات کے ہمراہ ایک موضوع جو پورے ناول میں جاری وساری ہے، وہ ہے عمل کی تلقین ۔ پریم چند کے خیال میں عمل سب سے بڑی قوت ہے۔ بے عملی سے کچھ حاصل نہیں ہوتا۔ اپنا حق حاصل کرنا ہو یا دوسروں کو حق دلوانا ہو، عمل کرنا پڑتا ہے۔ بغیر ہاتھ پاؤں ہلائے کچھ ملنے والا نہیں۔

شانتی کمار، امر کانت ، سکھدا جیسے کردار لوگوں کو عمل پر اکساتے ہیں اور عمل کے نتیجے میں اچھا پھل ملنے کی نوید دیتے ہیں۔ صرف باتوں سے کچھ نہیں ملنے والا ۔ سکھدا نے ایک جگہ حالات کے اندیشے میں مبتلا محنت کشوں سے کہا تھا:

”تو کیا تم نے سمجھا تھا کہ بغیر کچھ کیسے دھرے اچھے اچھے مکان رہنے کومل جائیں گے۔ دنیا میں جو زیادہ سے زیادہ تکلیف سہہ سکتا ہے، اس کی فتح ہوتی ہے۔ یہی اس ناول کا مرکزی موضوع ہے۔ جس نے کوشش کی ، اس نے اپنی منزل پالی۔

حواشی

کتاب کا نام: اردو داستان اور ناول فکری و فنی،کوڈ: 9011،صفحہ: 161 تا 165،موضوع : ناول کے موضوعات،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں