محاکات کی تعریف و تفہیم
محاکات(PICTURES QUE IMAGERY)
*محاکات* کے لغوی معنی آپس میں بات چیت کرنا اور باہم حکایت بیان کرنا کے ہیں۔ اصطلاح میں محاکات سے مراد کسی چیز ، تصور، کیفیت یا حالت کا ایسا شاعرانہ بیان کہ اس کی جیتی جاگتی تصویر قاری یا سامع کی نظروں میں متحرک ہو جائے۔
موضوعات کی فہرست
اُردو تنقید میں اس اصطلاح کو متعارف کرانے کا سہرا اعلامہ شبلی نعمانی کے سر ہے۔ ان کے خیال میں شاعری تخلیل اور محاکات کے حسین امتزاج کا نام ہے۔
محاکات کی تعریف بیان کرتے ہوئے وہ کہتے ہیں کہ اس کے معنی کسی چیز یا حالت کا اس طرح ادا کرنا ہے کہ اس شے کی تصویر آنکھوں میں بھر جائے تخلیل کی آمیزش سے تصویر میں وہ رنگ و آہنگ شامل ہو جاتا ہے جو اصل تصویر میں بھی نہیں ہوتا۔ اس لیے اگر محاکات کو ، تصویر سے کہیں آگے کی چیز قرار دیا جائے تو بے جا نہ ہوگا ۔
شمس الرحمن فاروقی کے خیال کے مطابق شبلی نعمانی کا تصور محاکات ارسطو کے نظریہ نقالی (Minmesis) کے قریب ہے۔ وہ لکھتے ہیں:
"ابن رشد اور دیگر عربوں نے Minmesis کا ترجمہ محاکات کیا ہے لیکن اردو میں محاکات کسی اور ہی معنی میں مستعمل ہے۔ شبلی نے البتہ جگہ جگہ ایک قسم کی Minmesis ہی مراد لی ہے۔ ابن رشد نے محاکات سے پیکر سازی اور اعمال و کردار کو پیش کرنے کا عمل مراد لیا۔”
شمس الرحمن فاروقی کا شبلی کے تصور کو ارسطو کے نظریہ نقالی سے منشعب قرار دینا درست نہیں رہتا کیوں کہ شبلی نعمانی کے نزدیک محاکات میں تحلیل کا رنگ اس کو نقلِ محض کے درجے سے بلند کر دیتا ہے۔ اپنے زاویہ نظر کی تفصیل بیان کرتےہوئے وہ لکھتے ہیں:
"شاعر کو اکثر موقعوں پر دو مشکل مرحلوں کا سامنا ہوتا ہے، یعنی نہ اصل کی پوری تصویر کھینچ سکتا ہے کیوں کہ بعض جگہ اس قسم کی پوری مطابقت احساسات کو برانگیخینہ نہیں کرسکتی نہ اصل سے زیادہ دور ہوسکتا ہے۔ ور نہ اس پر اعتراض ہوگا کہ صحیح تصویر نہیں کھینچی۔
اس موقع پر اس کو تحلیل سے کام لینا پڑتا ہے، وہ ایسی تصویر کھینچتا ہے جو اصل سے آب و تاب اور حسن و جمال میں بڑھ جاتی ہے لیکن وہ قوت تحصیل سے سامعین پر یہ اثر ڈالتا ہے کہ یہ وہی چیز ہے۔ لوگوں نے اسے عمیق نظر سے نہیں دیکھا تھا ، اس لیے اس
کا حسن پورا نمایاں نہیں ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ اگرچہ محاکات اور تحلیل دونوں شعر کے عنصر ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ شاعری دراصل تحلیل کا نام ہے ۔
محاکات میں جو جان آتی ہے تخیل ہی سے آتی ہے ورنہ خالی محاکات نقالی سے زیادہ نہیں۔ قوت محاکات کا یہ کام ہے کہ جو کچھ دیکھے یا سننے اس کو الفاظ کے ذریعے بعینہ ادا کر دے لیکن ان چیزوں میں خاص ترتیب پیدا کرنا، تناسب اور توافق کو کام میں لانا ان پر آب ورنگ چڑھانا قوت تخیل کا کام ہے۔
بحوالہ شبلی نعمانی” شعر انجم (حصہ چہارم ) ، اعظم گڑھ : مطبع معارف انجم ، ۱۹۸۸، ص ۲۳)
محاکات نری پیکر تراشی یا تصویر کشی نہیں بل کہ اس میں تخلیق کار اپنے تخلیل سے حیرت ، نغم ، خوشی ، غصہ نفرت،استعجابِ، تفکر اور بے تابی جیسے مجرد جذبات بھی گوندھ دیتا ہے۔ محاکات کی چند مثالیں دیکھیں:
؎اس مدار میں گردش مری تمھاری تھی
تم اپنی دھن میں گرے ، تم کو دیکھتا ہوا میں
☆
؎ دمِ رخصت وہ چپ رہے عابد
آنکھ میں پھیلتا گیا کاجل
☆
؎ انگڑائی بھی وہ لینے نہ پائے اُٹھا کے ہاتھ
دیکھا مجھے تو چھوڑ دیے مسکرا کے ہاتھ
☆
؎ جھکی چٹان ، پھسلتی گرفت ، جھولتا جسم
میں اب گرا ہی گرا تنگ و تار گھاٹی میں
؎ پوچھا جو ان سے کہ چاند نکلتا ہے کس طرح
زلفوں کو رخ پہ ڈال کے، جھٹکا دیا کہ یوں
حواشی
موضوع 🍁🍁🍁🍁محاکات
کتاب 📚ادبی اصطلاحات
صفحہ👈 85تا86
کورس کوڈ ✨9015
مرتب کردہ🖊️ فاخرہ جبین
🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆🔆