ایک کوا روٹی کا ٹکڑا لیے ہوئے ایک درخت کی ٹہنی پر بیٹھا تھا۔ ایک لومڑی کا گزر ادھر سے ہوا۔اس کے منہ میں پانی بھر آیا۔ لومڑی نے سوچا کہ کوئی ایسی ترکیب کی جائے کہ یہ اپنی چونچ کھول دے اور روٹی کا ٹکڑا میں جھپٹ لوں۔ پس اس نے مسکین صورت بنا کر اور منہ اوپر اٹھا کہا؟ کوے میاں ! سلام ، ترے حسن کی کیا تعریف کروں ۔
کچھ کہتے ہوئے بھی ڈرلگتا ہے۔ واہ واہ واہ، چونچ بھی کالی ، پر بھی کالے۔ آج کل تو دنیا کا مستقبل کالوں ہی کے ہاتھ میں ہے۔ افریقہ میں بھی بیداری کی لہر دوڑ گئی ہے لیکن خیر یہ سیاست کی باتیں ہیں۔ آمدم بر سر مطلب ۔ میں نے تیرے گانے کی تعریف سنی ہے تو اتنا خوبصورت ہے تو گا نا بھی اچھا ہوگا۔ مجھے گانا گانے کا شوق یہاں کھینچ لایا ہے۔ ہاں تو ایک آدھ ٹھمری ہو جائے۔
کوا پھولا نہ سمایا۔ لیکن سیانے پن سے کام لیا۔ روٹی کا ٹکڑا منہ سے نکال کر پنجے میں تھاما اور لگا کائیں کائیں کرنے۔ بی لومڑی کا کام نہ بنا تو یہ کہتی ہوئی چل دی۔ دہت تیرے کی ،بے سرا بھانڈ ،معلوم ہوتا ہے تو نے بھی حکایات لقمان پڑھ رکھی ہیں۔
پیاسا کوا
ایک پیاسے کوے کو ایک جگہ پانی کا مٹکا پڑا نظر آیا۔ بہت خوش ہوا۔ لیکن یہ دیکھ کر مایوسی ہوئی کہ پانی بہت نیچے فقط مٹکے کی تہہ میں تھوڑ اسا ہے۔ سوال یہ تھا کہ پانی کو کسے اوپر لایا جائے اور اپنی چونچ تر کی جاسکے۔
اتفاق سے اس نے حکایات لقمان پڑھ رکھی تھی۔ پاس بہت سارے کنکر پڑے تھے۔ اس نے اٹھا کر ایک ایک کنکر اس میں ڈالنا شروع کیا۔ کنکر ڈالتے ڈالتے صبح سے شام ہوگئی۔ پیاسا تو تھا ہی، نڈھال بھی ہو گیا ۔ مٹکے کے اندر نگاہ ڈالی تو کیا دیکھتا ہے کہ کنکر ہی کنکر ہیں۔ سارا پانی کنکروں نے پی لیا ہے۔
بے اختیار اس کی زبان سے نکلا ہت ترے لقمان کی۔ پھر بے سدھ ہو کر زمین پر گر گیا اور مر گیا ۔ اگر وہ کہیں سے ایک نلکی لے آتا تو مٹکے کے منہ پر بیٹھا بیٹھا پانی کو چوس لیتا۔ اپنے دل کی مراد پاتا۔ ہرگز جان سے نہ جاتا۔