کلام میر میں عشق کا تجرباتی اظہار

کتاب کا نام ۔۔۔۔میر و غالب کا خصوصی مطالعہ
کوڈ۔۔۔۔۔5611
صفحہ نمبر۔۔۔86سے81
موضوع ۔۔۔کلام میر میں عشق کا تجرباتی اظہار
مرتب کردہ ۔۔۔اقصئ

کلام میر میں عشق کا تجرباتی اظہار

میر کے ہاں عشق زندگی گزارنے کا رویہ ہے اور اس رویہ میں عاشقی ہی کی نہیں بلکہ زندگی کی کچھ بڑی اقدار بھی شامل ہیں۔ وجہ یہ کہ میر کا مشتق محض جسمانی ضرورتوں کا زائیدہ نہیں ہے۔ جسمانی ضرورتوں کی پاس داری کے ساتھ ساتھ یہ ایک مسلک کی حیثیت بھی رکھتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: اردو شاعری پر میر تقی میر کے اثرات

میرا اپنے عشقیہ مسلک کے حوالے سے انسان کا خدا سے تعلق ، انسان کا انسان سے تعلق اور انسان کا کائنات سے تعلق دریافت کرتے ہیں۔ اس دریافت میں معاشرے کی اخلاقی اقدار بھی شامل ہیں۔

اس طرح ان کا عشق ایک تہذیبی صفت اور تہذیبی عمل میں شرکت کا وسیلہ بن جاتا ہے۔ کیونکہ اعلی عشقیہ شاعری محض عشقیہ نہیں ہوتی بلکہ اس میں زندگی کی تہذیبی اقدار بھی شامل ہوتی ہیں ۔ میر انسانیت کے لیے ایک نظام اخلاق ضروری سمجھتے ہیں۔

یہ بھی پڑھیں: میر بحیثیت میر شناس

ان کے دور میں عشق کے آداب ہی زندگی کو ایک بے معنی چکر سے بلند کرتے ہیں ۔ یہ عشق فرد کو جذبات کی تہذیب اور معاشرے کو خیالات کی تہذیب سکھاتا ہے۔

یہ مشق فرد کو قیش سے بچانے کی کوشش کرتا ہے اور معاشرے کو تنگ نظری اور ظاہری پرستی سے روکتا ہے۔ چنانچہ میر کا عشقیہ رویہ ایک نظام اخلاق کے طور پر سامنے آتا ہے۔ عشق میر کے نزدیک ایک دائمی قدر ہے۔ لیکن اعلیٰ دائی قدر سے پہلے یہ عشق ان کا ذاتی مگر المیہ تجرب بھی ہے۔

میر کی شخصیت کے بیچ و خم کو ذہن میں رکھا جائے تو ان کی زندگی میں ان کے عشق اور دور جنوں دونوں کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ ان کا اثر عمر بھر ان کی شخصیت پر رہا۔ میر کا محبوب کوئی ” ” پری تمثال "” ہے۔ وہ یقینا اسے پانے میں ناکام رہے۔

اور تمام عمر اندو و فراق میں گرفتار رہے اگر چہ تفصیلات پردہ اخفا میں ہیں۔ مگر میر پر جو کچھ گزری وہ بڑی تفصیل کے ساتھ ان کی کلیات میں موجود ہے۔ عشق کے تجربے نے میر کے اندر سوز و گداز ، تڑپ اور جاں کئی پیدا کی ۔۔

مصائب اور تھے پر دل کا جانا
عجب اک سانحہ سا ہو گیا ہے

رات دن ہاتھ ملتے رہتے ہیں
دل کے جانے کا ہے بڑا افسوس

غم رہا جب تک کہ دم میں دم رہا
دل کے جانے کا نہایت غم رہا

بے اجل میر اب میر پڑا مرتا
عشق کرتے نہ اختیار اے کاش

دشمنی ہم سے کی زمانے نے
کہ جفا کار تجھ سا یار کیا

یہ نشان عشق میں جاتے نہیں
داغ چھاتی کے عبث دھوتا ہے کیا

نا مرادانه زیست کرتا تھا
میر کا طور یاد ہے ہم کو

لگا نہ دل کو کہیں کیا سنا نہیں تو نے
جو کچھ کہ میر کا اس عاشقی نے حال کیا

میر کے لیے دل کا جانا ایک نہایت درد ناک تجربہ تھا۔ جس کے لیے اُنھوں نے عمر بھر بہت غم بھی کیا۔

لیکن اگر ایک طرف اس سانحہ نے ان کو پراگند و بنایا تو دوسری طرف اس حادثہ نے ان میں وہ نظم وضبط بھی پیدا کیا جس کی وجہ سے اُنھوں نے ایک ضخیم کلیات بھی یادگار چھوڑی اور شاعری کو زندگی گزارنے کا قرینہ بناڈالا تمام عمر دل کے جانے کا ماتم کرنے کے باوجود ان کے عشقیہ تجربات میں رنگا رنگی ،

وسعت اور گہرائی ہے۔ انسانی عشق کی شاید ہی کوئی ایسی کیفیت ہو جس کا اظہار میر نے اپنی شاعری میں نہ کیا ہو۔ ان کے ہاں عشقیہ تجربات کی ایک دنیا آباد ہے۔ لیکن ان کی یہ دنیا زندگی کے دیگر تجربات سے الگ تھلگ نہیں ہے بلکہ اس حوالے سے ان کے ہاں زندگی سے گہری وابستگی اور کشمکش کا احساس ملتا ہے۔

وہ زندگی کی اعلیٰ ترسطح کو زندگی کی عام تر سیح سے ہم آہنگ بنانا چاہتے ہیں ۔ بقول حسن عسکری ” میر کی کشمکش کا ماحصل یہی ہے کہ اعلی ترین زندگی کو عام ترین زندگی سے ہم آہنگ بنایا جائے اس اعلی ترین زندگی کا کا نام ان کے یہاں عشق ہے۔ وہ عشق کو دنیا کے معمولات سے الگ نہیں رکھنا چاہتے بلکہ انمیں سمو دینا چاہتے ہیں ۔۔۔(۴)

چنانچہ میر کے ہاں غم دوراں بھی غم جاناں کی صورت میں ظاہر ہوتا ہے ۔ زندگی کے معمولات کے ساتھ ساتھ میر دہلی کی تباہی و بربادی کو بھی اپنے دل کی تباہی سے ہم آہنگ کر دیتے ہیں ۔

انھوں نے دل کی تباہی کا حال جس طرح بیان کیا ہے اسے دہلی اور دہلی کے خاص حالات سے الگ کر کے بیان کرنا ممکن ہی نہیں تھا۔ تباہی و بربادی کے حوالے سے وہ دل اور دلی کو ایک بنا دیتے ہیں۔ ان کے نزدیک دل کے لیے محبوب ترین استعار و نگر گھر یا شہر کا ہے۔

وہ دل کے لٹنے کا حال اس طرح بیان کرتے ہیں جس طرح محمر ، گھر یا شہر میں آگ لگنے ، لوٹ مار مجھنے اور خون ریزی و تباہی کا حال بیان کیا جاتا ہے۔ میر کی کلیات میں دل اور دلی کو مربوط کرنے والے اشعار کافی تعداد میں ملتے ہیں۔ ذیل کے اشعار میں ان کے دل خانہ خراب کی کچھ تفصیل دیکھی جا سکتی ہے مگر ان اشعار کو اچھی

طرح سمجھنے کے لیے دہلی کے سیاسی و سماجی حالات سے واقفیت ضروری ہے۔ بہر حال چند شعر دیکھیے :
دل عجب شہر تھا خیالوں کا
لوٹا مارا ہے حسن والوں کا

ہیں ڈالا دل غموں نے کوٹ کر
کیا اجاڑا اس نگر کو لوٹ کر

دل کی ویرانی کا کیا مذکور ہے
یہ نگر سو مرتبہ لوٹا گیا

دیده گریاں ہمارا شہر ہے
دل خرابہ جیسے دلی شہر ہے

محبت نے شاید کہ دی دل کو آگ
دھواں سا ہے کچھ اس عمر کی طرف

میرے تغیر حال پر مت جا
اتفاقات ہیں زمانے کے

دل شہر ایک مدت اجرا با غموں سے
آخر اجاڑ دینا اس کا قرار پایا

دل وہ نگر نہیں کہ پھر آباد ہو سکے
پچھتاؤ گے ، سنو ہو! یہ بستی اجالا کر
ان اشعار سے میر کے تصور عشق کی وسعت کا انداز ہ لگایا جا سکتا ہے۔ میر کے نزدیک اگر چہ عشق کا مرض لا علاج ہے ۔ جسے یہ لاحق ہوتا ہے،

اسے مار رکھتا ہے۔ لیکن عشق فعال اور تعمیری صفات سے خالی نہیں ہے۔ یہ ایک طرف کو چکن کو زور آزمائی کی ہمت دلاتا ہے تو دوسری طرف انسان کو ادب و شائستگی کی تعلیم بھی دیتا ہے :
کوہکن کیا پہاڑ کاٹے گا
پردے میں زور آزما ہے عشق

سخت کافر تھا جس نے پہلے میر
مزہب عشق اختیار کیا

دور بیٹھا غبار میر اس سے
عشق بن یہ ادب نہیں آتا

عشق کا یہی تصور میر کو نا کام ہونے کے باوجود نا کا رہ ہونے سے محفوظ رکھتا ہے ۔ میر عشق کی آگ میں جلتے رہے لیکن اس نے ان کی شخصیت کو نکھارا اور ان میں شکست کے باوجود توازن رکھنے کی اہلیت پیدا کیے رکھی :
مرے سلیقے سے میری نبھی محبت میں
تمام عمر میں ناکامیوں سے کام لیا

سب پہ جس بار نے گرانی کی
اس کو یہ ناتواں اٹھا لایا

پاس ناموس عشق تھا ورنہ
کتنے آنسو پلک تک آئے تھے

بارے دنیا میں رہو غمز دو یا شاد رہو
ایسا کچھ کر کے چلو یاں کہ بہت یاد رہو

تمنائے دل کے لیے جان دی
سلیقہ ہمارا تو مشہور ہے

میں گریہ خونیں کو روکے ہی رہا ورنہ
یک دم میں زمانے کا یاں رنگ بدل جاتا
ہر قدم پر تھی اس کی منزل ایک
سر سے سودائے جستجو نہ گیا

کوشش اپنی تھی عبث پر کی بہت
کیا کریں ہم، چاہتا تھا جی بہت

میر نے عشق کی فعالیت اور تعمیری صفات سے جو کچھ سیکھا وہ ان کے ہاں اعلیٰ قدر کی شکل میں موجود ہے۔

انسان محض اپنی ذات کا پجاری نہیں ہوتا۔ وہ اپنی خاطر نہیں بلکہ دوسروں کی خاطر جینے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ اس کے نزدیک زندگی سودوزیاں سے بلند ہے۔

انسانیت کی ان اقدار کے لیے میر نے اپنے زمانے کی مروجہ اصطلاح عشق سے کام لیا ہے۔ جو آدمی کو ذاتی مفاد کے دائرے سے نکال کر ایک بڑے مقصد اور مسلک سے آشنا کر دیتا ہے۔

جس کی گرمی سے بے مقصد زندگی میں سرگرمی پیدا ہو جاتی ہے۔ اس عشق پر میر نے جا بجا زور دیا ہے :

شراب عشق میسر ہوئی جسے یک شب
پھر اس کو روز قیامت تلک خمار رہا

فردوس کو بھی آنکھ اٹھا دیکھتے نہیں
کس درجہ سیر چیشم میں کوئے بتاں کے لوگ

لے سانس بھی آہستہ کہ نازک ہے بہت کام
آفاق کی اس کارگیہ شیشہ گری کا

ہم نہ کہتے تھے کہ مت دیر و حرم کی راہ چل
اب یہ دعوی حشر تک شیخ و برہمن میں رہا

رہ طلب میں گرے ہوتے سر کے بل ہم بھی
شکستہ پائی نے اپنی ہمیں سنبھال لیا

میر نے عشقیہ شاعری کو اخلاقی اور فلسفیانہ عظمت سے معمور کیا ہے ان کے تصور عشق سے انسان پر انکشاف ذات کا دروازہ کھل جاتا ہے۔

ان کے تصور مشق سے اعلی اخلاقی اقدار پیدا ہوتی ہیں ۔ انسان ، قناعت ، بے نیازی ، انکساری اور فقیری جیسی صفات سے ہم کنار ہوتا ہے۔ اس تصور عشق کے ذریعے زندگی ، ماحول ، معاشرہ اور فرد کو بدل کر ایک مثبت انسانی معاشرہ قائم کیا جا سکتا ہے۔ عشق کے اس تصور سے کسی بگڑے ہوئے معاشرے میں زندگی کی شمع روشن کی جاسکتی ہے اور نئی زندگی کا آغاز کیا جا سکتا ہے

میر ایک ہارے ہوئے عاشق ضرور ہیں لیکن ان کی ہر بے بسی اور بے چارگی میں ایک عجیب و غریب عظمت ہے۔ وہ انسان کے کھوئے ہوئے وقار کو حاصل کرنے کی جد و جہد کرتے نظر آتے ہیں۔

چنانچہ وہ انسانوں کو انسانیت کے ایک رشتے میں پرو دیتے ہیں ۔ کیونکہ میر کے ہاں عاشق اور آدم ہم معنی الفاظ ہیں ۔ میر کے لیے عاشق اور معاشرے کے دوسرے افراد کے درمیان کوئی خلیج حائل نہیں ہے۔ کیونکہ بقول حسن عسکری

میر کے لیے عشق عام انسانی تعلقات سے الگ کوئی چیز نہیں ہے۔ بلکہ انھی کی لطیف اور رچی ہوئی شکل ہے (۵)

میر عاشق ہونے کے باوجود اپنی انسانیت کو نہیں بھولتے۔ ان کے تصورحسن میں سب سے اہم بات یہیں ہے کہ وہ محبوب کو بھی انسان سمجھتے ہیں اور اپنے آپ کو بھی محبوب کے سامنے ایک انسان کی حیثیت سے پیش کرتے ہیں۔

محبوب کے سامنے میر جو کہ عموماً بد دماغ اور بے دماغ مشہور ہیں ، نہ بے دماغی دکھاتے ہیں اور نہ سرکشی ۔ بلکہ ان کے ہاں معصومیت ، عاجزی ، مسکینی اور ایک مہذب نیاز مندی ملتی ہے۔ ان کے ایسے اشعار میں وہ کیفیت پائی جاتی ہے جو عظیم عشقیہ شاعری کی جان ہے :

رات مجلس میں تری ہم بھی کھڑے تھے چپکے
جیسے تصویر لگا دے کوئی دیوار کے ساتھ

کچھ نہ دیکھا پھر بہ جزاک شعلہ پر پیچ و تاب
شمع تک تو ہم نے دیکھا تھا کہ پروانہ گیا

ہم فقیروں سے بے ادائی کیا
آن بیٹھے جو تم نے پیار کیا

میر صاحب دلا گئے سب کو
کل وے تشریف یہاں بھی لاۓ تھے

وجہ بیگانگی نہیں معلوم
تم جہاں کے ہو واں کے ہم بھی ہیں

محبوب کا سراپا

میر نے اپنی شاعری میں جس محبوب کا سراپا پیش کیا ہے وہ فطرت سے ہم آہنگ ہے۔ کلیوں نے کم کم کھلنا اس کی نیم باز آنکھوں سے سیکھا ہے۔ وہ محبوب کی ہر ہر اوا اور ہر ہر بات پر نظر رکھتے ہیں۔ محبوب کے جسم ، رخسار ، قد ، چال ، لباس وغیرہ ہر چیز کو میر عاشق کی نظر سے دیکھتے ہیں۔

محبوب کی شوخی ، ناز و ادا، جلوہ آرائی، بے اعتنائی اور انداز گفتگو کا اپنے مخصوص مزاج کے ساتھ مشاہدہ کرتے ہیں اور اس طرح بیان کرتے ہیں کہ ان کے شعر عشق جیسے ابدی جذبے کا ابدی اظہار بن جاتے ہیں ۔ میر کی شخصیت میں حسن پرستی کا رجحان تھا۔ اور ان کا ذوق جمال نہایت بالیدہ تھا۔

اس لیے وہ محبوب کے اعضا کا زیادہ ذکر نہیں کرتے بلکہ کاروبار شوق میں محبوب کے طرز عمل مثلا حیا، شرم ، ، نرمی اور کو ماتا کے عکس اپنے شعروں میں پیش کرتے ہیں ۔ میر کے دو محبوب ہیں ۔ ایک کوئی پری تمثال اور دوسرا قطرت ۔ ان دونوں کے حوالے سے ان کا تصور حسن تشکیل پاتا ہے۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں