مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

خوشحال خان خٹک حیات اور خدمات

خوشحال خان خٹک حیات اور خدمات

خوشحال خان خٹک1022ھ میں پیدا ہوئے۔ ان کے والد کا نام شہباز خان تھا جو اپنے قبیلے کے سردار اور منصب دار تھے۔

خوشحال بابا کے دادا‘ا ئیکی خان اور پردادا ملک اکوڑ خان تھے۔ قصبہ اکوڑہ انہیں کے نام پر ہے۔ ملک اکوڑ خان کو مغل شہنشاہ اکبر نے دریائے اٹک سے نوشہرہ تک کی شاہراہ کی نگرانی کا کام سپرد کیا تھا اور اس خدمت کے عوض انھیں منصب عطا ہوا تھا۔

یہ بھی پڑھیں: پشتو زبان کے اہم شعراء

یوں وہ چار پشتوں سے مغلیہ خاندان کے نمک خوار اور منصب دار چلے آ رہے تھے۔ ملک اکوڑ خان کے بعد اس کا بیٹا ،بیٹی اور اس کے بعد اس کا بیٹا شہباز خان ‘شہنشاہ ہمایوں جہا نگیر اور شاہ جہان کے عہد حکومت تک نہایت جان بازی سے خدمات سرانجام دیتے رہے۔

اس میں کوئی شک نہیں کہ ملک اکوز ، بیچی خان اور شہباز خان ، بلکہ شروع شروع میں کافی عرصے تک خود خوشحال خان خٹک نے بھی مغلوں کی طرف داری میں تلوار اٹھائی اور یوسف زیوں سے کئی لڑائیاں لڑیں ۔

( یہاں تک کہ خوشحال بابا کے باپ اور دادا دونوں انھی لڑائیوں میں یوسف زئی قبائل کے ہاتھوں کام آئے ) لیکن آخر کار خوشحال بابا کی زندگی میں ایک دور ایسا بھی آیا کہ وہ مغلوں کے آلہ کار بنے کی بجائے ان کے خلاف تلوار ہاتھ میں لے کر اٹھ کھڑے ہوئے اور پھر تمام زندگی مغلوں کے خلاف صف آرا رہتے ہو گزاری یا پھر قید و بند کی صعوبتوں کو برداشت کرتے رہے۔

اور نگ زیب عالمگیر کے دور میں پشاور کے ایک گورنر ( صوبہ دار ) اور خوشحال خان کے مخالف گروپ (یوسف زئیوں ) میں گٹھ جوڑ کی وجہ سے پشاور کے صوبہ دار نے مغلیہ شاہی دربار کو مغلوں کے اس پرانے نمک خوار سے بدظن کر دیا ۔ نتیجتاً خوشحال خان خٹک کو‘ جو اس وقت تک علاقے کے حاکم کی حیثیت رکھتے تھے‘ پہلے پشاور بلایا گیا اور یہاں سے پابہ جولاں دہلی بھجوایا گیا۔

اس کے بعد خوشحال خان خٹک نے مغلوں کے خلاف پشتونوں کو متحد کرنے اور تلوار کے ذریعے ان کو اپنے علاقے سے نکال باہر کرنے کا بیڑا اٹھایا لیکن اپنے ایک بیٹے اور چچاؤں کے ہاتھوں وہ اپنی مہم میں کامیابی حاصل نہ کر سکے۔

خوشحال خان کی شخصیت بڑی پہلو دار تھی ۔ وہ اگر ایک طرف اپنے قبیلہ کے سردار تھے تو دوسری طرف چار پشتوں سے مغل دربار کے منصب دار بھی تھے۔

وہ ایک جری سپاہی، سیاسی سوجھ بوجھ رکھنے والے سپہ سالار، شاعر، ادیب، حکیم، فلسفی ، مؤرخ ، جغرافیہ دان، رند، صوفی ، عالم با عمل، عاشق ، شکاری ، سیاح ، حسن پرست، فرض شناس شوہر، دوستوں کے دوست اور دشمنوں کے دشمن بھی تھے۔

اس وقت ہم خوشحال بابا کی اس ہمہ گیر شخصیت کے صرف ایک پہلو یعنی شاعری کو لیتے ہیں ۔

شاعری انسان کے اندرونی احساسات و جذبات کی آئینہ دار ہوتی ہے اور انسان اپنی ذات اور ارد گرد کے واقعات سے کسی وقت بھی لا تعلق نہیں رہ سکتا۔ چنانچہ خوشحال خان کی شاعری میں وہ تمام چیزیں سمٹ کر آگئی ہیں جن سے ان کو سابقہ پڑا تھا۔ قدرت نے خوشحال بابا کو شعر کہنے کا ملکہ بدرجہ کمال عطا کیا تھا۔

اُنھوں نے پشتو شاعری میں نئے نئے تجربے کیے اور غزل ،نظم ، قصیدہ، مثنوی ، مسدس اور دوسری اصناف سخن سے پشتو شاعری کو روشناس کرایا اور ان اصناف میں ایسے ایسے نادر اور خوبصورت مضامین باند ھے کہ اس سے پہلے پشتو شاعری اس سے نا آشنا تھی۔

مستشرقین کے علاوہ علامہ اقبال نے سب سے پہلے خوشحال خان کو اُردو خواں طبقے سے متعارف کرایا ۔

خوشحال خاں اور علامہ اقبال کے افکار میں بھی کافی مماثلت پائی جاتی ہے۔ مثلاً علامہ اقبال نے مسلمانوں کو خودی کا درس دیا ہے اور اس سلسلہ میں ان کا یہ شعر بہت مشہور ہے۔

خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
خود کو پہچاننے اور خودی کو بلند کرنے کا یہی درس ہمارے خوشحال بابا نے بھی مختلف پیرایوں میں دیا ہے ۔

عارف وہ ہے جس نے اپنا آپ لیا پہچان
ہے عرفان ذات میں اے دل! عرفان سبحان
ہے عرفان ذات میں اے دل! عرفان سبحان
شاعر مشرق ہمیں ستاروں پر کمند ڈالنے کا سبق دیتے ہوئے کہتے ہیں:

محبت مجھے اُن جوانوں سےہے
ستاروں پہ جو ڈالتے ہیں کمند
اب دیکھیے کہ خوشحال بابا یہی سبق تین سو سال پہلے ہمیں کس انداز میں دیتے ہیں۔ فرماتے ہیں:

اور بھی ہیں کتنےجہاں
تم ہی نہ دیکھ سکے ناداں
کتنی زمینیں کتنے فلک
تیری نظروں سےہیں نہاں
اپنے دل کو ٹٹول کے دیکھ
عرش سےاونچے ہیں انساں
آئینہ دل کو صیقل کر
سب کچھ ہو جائے گا عیاں

پروف ریڈر: غلام حسن فرید

حواشی

کتاب کا نام: پاکستانی زبانوں کا ادب،کوڈ : 5618،صفحہ: 87،موضوع: خوشحال خان خٹک حیات اور خدمات،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں