خودی کا بے خودی سے ربط
جب خودی،بے خودی میں ڈھل کر نکھرتی ہے،تو ایک نئے معاشرے کی تشکیل کا ذریعہ بنتی ہے۔ اقبال کا پسندیدہ معاشرہ وہی تھا جو اس کے اسلاف نے اسلامی شورائیت کی بنیاد پر قائم کیا تھا۔
علامہ اقبال کا تصور خودی اور اس کی اہمیت
ایسا نظامِ شوری جو بادشاہت یا آمریت سے کسی طور وابستہ نہیں تھا۔اگرچہ اس نظام کے اکثر راستے جمہوریت کی طرف جاتے ہیں،لیکن اقبال نے مغربی طرز کی نمائشی جمہوریت پر ہمیشہ طنز کیا۔خلیفہ عبدالحکیم لکھتے ہیں کہ:
"افلاطون کے نزدیک وہ جمہوریت ،جس میں سقراط جیسے انسان کو مخرب ِاخلاق اور دشمن انسانیت سمجھ کر زہر پلایا جائے،
کسی طورمستحسن نہیں ہو سکتی۔ نطشے نے اس کے خلاف اُس وقت صدائے احتجاج بلند کی،جب پورامغرب اس کا فریفتہ تھا۔ اقبال نے بھی ہندوستان میں اس کی حقیقت کو اُس دورمیں آشکار کی ،جب انگریزی ملوکیت اور انگریزی افکارکے زیر اثر مشرقی اقوام اس سے متاثر ہو رہی تھیں۔”
( خلیفہ عبد الحکیم ،رومی نطشے اور اقبال ،مضمون رسالہ اردو اقبال نمبر 1938)
اقبال قومیت کے مادی بنیادوں پر قیام کو انسانیت کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں ۔ وہ ملت کو وطنیت کے مغربی معیاروں سے بلند اور دین پر مبنی بنیاد وں پر قائم کرتے ہیں۔ جغرافیائی ،لسانی اور نسلی اشتراک کی بنیاد پر قائم وطنیت کے مقابلے میں ان کے نزدیک ملت ایک اعلیٰ اور ارفع تصور ہے ۔وہ ایک ستارے کی زبان سے یہ پیغام دیتے ہیں۔
موضوعات کی فہرست
آنکھوں سے ہیں ہماری غائب ہزاروں انجم
داخل ہیں وہ بھی لیکن اپنی برادری میں
یوں ملت کا تصور ان کے ہاں علمی سطح پر قائم ہے اور دین پر مبنی بنیاد رکھتا ہے۔وہ فرد کو بار بار تاکید کرتے ہیں کہ وہ اپنے معاشرے اور اپنی قوم کے برے دنوں کو دیکھ کر ان سے رابطہ نہ توڑے۔چمکدار اقوام کا ساتھی بننے سے اسے ترقی نہیں ملے گی،کیوں کہ اُس کی ترقی اُس کی اپنی قوم اور ملت سے وابستہ ہے۔
ڈالی گئی جو فصل خزاں میں شجر سے ٹوٹ
ممکن نہیں ہری ہو سحاب بہار سے
ہے لازوال عہد خزاں اس کے واسطے
کچھ واسطہ نہیں ہے اسے برگ وبار سے
پروف ریڈر: سجاد حیدر
حواشی
کتاب کا نام:علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ،کورس کوڈ:5613،ص:31،موضوع:خودی کا بے خودی سے ربط