خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی | بی ایس اردو

خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی

آتش کی غزل اردو کلاسیکی شاعری میں شمار ہوتی ہے۔ ان کےاشعار زبان دانی،عمدہ لہجے اور بلند آہنگ کی بدولت انفرادیت کے حامل ہیں۔ انھوں نے روایتی غزل کو نئے انداز سے آشنا کیا۔ شعر میں ایسے رنگ بھرتے کہ بولتی چالتی تصویر نظروں کے سامنے آجاتی ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی

آتش کی غزل میں روزمرہ اور محاوروں کا استعمال فنی چابک دستی سے دیکھنے کو ملتا ہے۔ محبوب کا سراپا بیان کرنا ہو ،اظہار محبت مقصود ہو یا منظر نگاری ،ان کا لہجہ ہمیشہ شستہ اور صاف رہتاہے۔ روایتی غزل کا رچاؤ اور بیان میں تازگی ان کے فن کا نمایاں وصف ہے۔ انہیں ہر قسم کے موضوع کو بڑی سہولت سے شعر میں ڈھالنے کا ہنر خوب آتا تھا۔

استادانہ کمال کی بدولت خواجہ حیدر علی آتش روایتی یا تقلیدی موضوعات کو ایک نئے رنگ میں پیش کرتے ہیں ۔تخلیقی توانائی کے بل بوتے پر ان کا رنگِ تغزل نہ صرف اپنے عہد کی یادگار ہےبلکہ اردو غزل کے سرمایے میں ایک خوبصورت اضافہ بھی ہے۔ غزل جسے ایک تہذیبی صنف قرار دیا جاتا ہےاس کا عملی ثبوت ہمیں حیدر علی آتش کے اشعار میں نمایاں طور پر نظر آتا ہے۔ ان کے اشعار میں روانی اور جوانی ،دونوں موجزن رہتی ہیں۔

آتش کی غزل میں لکھنوی تہذیب کی جھلک:
خواجہ حیدر علی آتش کے کلام میں لکھنو کا آسودہ معاشر ہ صاف جھلکتا ہے۔ انھوں نے اپنے زمانے کے تمام رنگ ! آہنگ اور فارغ البالی کو غزل میں سمو دیا ہے۔ ادبی رنگ کے گہرے نقوش در اصل لکھنوی تہذیب کی دین ہیں، اور یہی رنگ آتش کے ہاں نمایاں طور پر دکھائی دیتے ہیں ۔ انہیں مہذب لہجے کا شاعر بھی قرار دیا جاتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ حیدر علی آتش کا تعارف

ہر شب شبِ برات ہے ہر روز روز عید
سوتا ہوں ہاتھ گردنِ مینا میں ڈال کے

شب وصل تھی چاندنی کا سماں تھا
بغل میں صنم تھا خدا مہرباں تھا

مرا ہر شعر اک اک عالم تصویر رکھتا ہے
مرقع جان کر ذی فہم دیوان مول لیتے ہیں

نظر آتی ہے ہر سو صورتیں ہی صورتیں مجھ کو
کوئی آئینہ خانہ کارخانہ ہے خدائی کا

جو دیکھتے تیری زنجیر زلف کا عالم
اسیر ہونے کی آزاد آرزو کرتے

پروف ریڈر:۔ سجاد حیدر

حواشی

کتاب: شعری اصناف، تعارف و تفہیم،کورس کوڈ: 9003،موضوع:2.2 خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی، 2.3 آتش کی غزل میں لکھنؤی تہذیب کی جھلک،مرتب کردہ: محمد ہمایوں قائم خانی

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں