خواجہ حیدر علی آتش سوانح اور شاعری کی خصوصیات

خواجہ حیدر علی آتش سوانح اور شاعری کی خصوصیات

تعارف و سوانح

عبد السلام ندوی نے آتش کو اردو شاعری کا حافظ کہا ہے۔ اس کے علاوہ فراق نے آتش کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ کہا ہے۔

خواجہ حیدر علی نام اور آتش تخلص تھا۔ 1778ء کو فیض آباد میں پیدا ہوئے ۔ والد کا نام خواجہ علی بخش تھا جو نواب شجاع الدولہ کے دور میں دہلی سے فیض آباد آگئے۔ بہت چھوٹی عمر میں ان کے والد کا انتقال ہو گیا جس کی وجہ سے وہ اپنی تعلیم مکمل نہ کر سکے۔

نواب تقی خان کے ساتھ وہ فیض آباد سے لکھنو آگئے، پھر مرتے دم تک لکھنو میں ہی مقیم رہے۔ یہ وہ زمانہ تھا جب غزل میں اپنے فن کا لوہا منوانا بہت مشکل کام تھا۔

مصحفی اور انشا نہ صرف بڑے شاعر تھے بلکہ ان کے ادبی معرکے بھی مشہور تھے۔ آتش میں غزل گوئی کا مزاج فطری تھا۔ اپنی وضع قطع میں بھی وہ عام لوگوں سے مختلف تھے۔ سپاہیانہ لباس پہنتے تھے اور ہر وقت تلوار لٹکائے رکھتے تھے، مگر طبیعت کے حوالے سے شاعرانہ مزاج رکھتے تھے۔

بادشاہ وقت کی طرف سے ماہانہ 80 روپے وظیفہ کے طور پر ملتے تھے، اسی میں گزارا کر لیتے تھے۔

عمر کے آخری وقتوں میں ان کی بصارت ختم ہوگئی تھی۔ آتش مصحفی کے ان شاگردوں میں شامل تھے جنھوں نے ارد و غزل کو اپنے استاد کی طرح ہی ثروت مند کیا۔

وہ تمام عمر غزل کے فنی اور جمالیاتی دروبست میں مصروف رہے۔ غزل کا یہ دور میر کے بعد اور غالب جیسے بڑے شعرا کا درمیانی دور ہے۔

اسی دور میں غزل مقامی مزاج کے قریب تر ہوتی گئی۔ آتش کے شاگردوں میں غزل گو شعرا کے علاوہ ممتاز مثنوی نگار نواب مرزا شوق اور دیا شنکر نسیم بھی ہیں۔

آخر 70 سال کی عمر میں 1847ء کو لکھنو میں انتقال کیا۔

آتش کی شاعرانہ خصوصیات

خواجہ حیدر علی آتش ، امام بخش ناسخ اور مصحفی کے ہم عصر تھے۔ ان کے کلام میں لکھنوی معاشرت اور ظاہری تصنع کی بہتات ہے ، اس کے ساتھ ساتھ تغزل، لوچ ، گداز ، تنوع اور تصوف کی چاشنی کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: خواجہ حیدر علی آتش کی غزل گوئی | بی ایس اردو

کلام میں زبان کی صحت و صفائی کا بہت اہتمام نظر آتا ہے۔ غزل گوئی کی یہ فنی خوبی ان کے معاصرین میں کم کم نظر آتی ہے۔ آتش نے اگرچہ غزل کو بناؤ سنگھار کی وجہ سے خارجی سطح پر تبدیل کیا مگر ان کے کلام میں فنی چاشنی کا عنصر بھی موجود رہا۔ وہ خود لکھتے ہیں:

بندش الفاظ جڑنے سے نگوں کے کم نہیں
شاعری بھی کام ہے آتش مرصع ساز کا

لکھنو کی مرصع سازی نے دہلی سے الگ رنگ اپنایا۔ مصحفی کی شاگردی نے آتش کے شاعرانہ گداز کو دو چند کر دیا۔ چھپا ہوا جوہر جلد ہی نمودار ہو گیا۔ آتش نے لکھنو کے درباری ماحول کے باوجود کسی دربار سے جڑنا قبول نہ کیا۔ آزاد اور درویشانہ زندگی کو ترجیح دی۔

ایسی وحشت نہیں دل کی کہ سنبھل جاؤں گا

صورت پیراہن تنگ نکل جاؤں گا

تصور سے کسی کے کی ہے میں نے گفتگو برسوں

رہی ہے ایک تصویر خیالی روبرو برسوں

چمن میں شب کو جو وہ شوخ بے نقاب آیا

یقین ہو گیا شبنم کو آفتاب آیا

خواہاں ترے ہر رنگ میں اے یار ہمی تھے

یوسف تھا اگر تو تو خریدار ہمی تھے

شعروں میں جو بانکپن اور عاشقانہ رنگ ہے، وہ ان کی شخصیت میں بھی تھا۔ انھوں نے حسن و جمال کو اپنی غزل میں پیش کیا ساتھ ہی عشق کی کیفیات اور دلی واردات کی عکاسی بھی کی۔

عبد السلام ندوی نے آتش کو اردو شاعری کا حافظ کہا ہے۔ اس کے علاوہ فراق نے آتش کو اخلاقی شاعری کا بادشاہ کہا ہے۔

خوشا وہ دل کہ ہو جس دل میں آرزو تیری
خوشا دماغ جسے تازہ رکھنے کو تیری

حواشی

موضوع۔خواجہ حیدر علی آتش سوانح اور شاعری کی خصوصیت،کتاب کا نام۔شعری اصناف ۔تعارف اور ،کورس کوڈ۔9003،ص۔109تا110 مرتب کردہ۔Hafiza Maryam

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں