خاتون اکرم کے افسانے
موضوعات کی فہرست
وہ ایک ترقی پسند مصنفہ ہیں۔ ان کے افسانے اور مضامین تھپک تھپک کر سلانے والی لوریاں نہیں بلکہ اس میں ایسے اہم مسائل ہیں جو قاری کو احساس تفکر پر آمادہ کرتے ہیں ۔ آرزؤوں پر قربانی ،انقلاب زمانہ ، شہید ستم، اور گلستان خاتون کے، سبھی افسانے اس کی بہترین مثال ہیں۔ ان سبھی افسانوں میں انسانی فطرت کی عکاسی کی گئی ہے۔
افسانہ "آرزو پر قربانی”: سماجی جہالت کا آئینہ
افسانہ "آرزو پر قربانی” میں خاتون اکرم نے ایک ضدی، جاہل مگر دولت مند خاتون کا کردار پیش کیا ہے۔ جس نے محض ایک تقریب منعقد کرنے کے لیے جون کے مہینے میں اپنی پانچ سالہ بچی رقیہ کو روزہ رکھوایا۔ بہن اور بہنوئی کے منع کرنے کے باوجود وہ اپنی ضد سے باز نہیں آتی ۔
بچی کو پہلا روزہ رکھوانے اور روزہ کشائی کی تقریب منعقد کرنے کے شوق میں وہ یہ بھول جاتی ہے کہ اس کی بیٹی روزہ رکھنے کے قابل ہے بھی یا نہیں، اور اپنے شوق کو پورا کرنے کے لیے سخت گرمی کے موسم میں بچی پر آفت مول لیتی ہے۔ دن بڑی مصیبت سے کٹتا ہے۔ پھر مہمان آنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ماں ، تقریب میں مگن ، مہمانوں کے استقبال اور افطاری کے انتظام میں مشغول ہے۔
افطار کے وقت جب رقیہ کی تلاش ہوئی تو وہ نہیں ملتی ۔ سب مل کر ڈھونڈھتے ہیں مگر اس کا کہیں پتہ نہیں چلتا۔۔ اسی میں افطار کا وقت بھی گزر جاتا ہے۔ بڑی تلاش کے بعد بچی ملتی ہے مگر اس طرح کہ:
آخر رقیہ ملی۔ ایک چھوٹی کوٹھری میں ، جہاں ماما اپنے لیے پانی کا ایک گھڑا رکھا کرتی تھی۔
وہ بچاری اس گھڑے پر منہ کے بل پڑی ہوئی تھی ۔ (۲۸)
اس چھوٹی سی بچی نے ماں کے خوف سے پانی کا ایک قطرہ بھی نہیں پیا اور پیاس کی وجہ سے جان دے دی۔ خاتون اکرم نے اس واقعے کو نہایت موثر انداز میں پیش کیا ہے۔ جو باعث حسرت بھی ہے اور عبرت ناک بھی۔ خاتون اکرم کے پلاٹ ہمارے معاشرے کی تصویر میں ہیں جو اس قدر سچی ہیں کہ کہیں غیریت یا اجنبیت محسوس نہیں ہوتی۔
خاتون اکرم کے افسانوں کی تکنیکی خصوصیات
خاتون اکرم کے افسانوں کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ ان کے افسانوں کے پلاٹ پیچید و یا ضرورت سے زیادہ وسیع نہیں ہیں۔ بلکہ ہر افسانے کے لیے انھوں نے صرف ایک ہی واقعہ، یا ایک ہی نقطۂ نظر یا ایک ہی نفسیاتی پہلو منتخب کیا ہے۔ خواہ مخواہ کی تفصیلات میں جانے کے بجائے وہ تصور آفرینی سے کام لیتی ہیں۔ تا کہ قاری خود اپنے تخیل سے محظوظ ہو سکے۔ اور یہ افسانے کا جمالیاتی عروج ہے۔ انھوں نے بعض افسانوں
101
میں پس منظر اور بیانیہ تفصیل سے بھی ترتیب پلاٹ میں ہم آہنگی پیدا کی ہے۔
خاتون اکرم کے پلاٹ ارتقائی ہیں جو بتدریج نشو و نما پاتے ہیں ان میں سے بعض کا اختتام Climax پر ہوتے اور بعض انتہای(climax) پر پہنچنے کے بعد آہستہ آہستہ پر سکون طریقے سے ختم ہوتے ہیں۔ خاتون اکرم کے افسانوں میں سب سے زیادہ قابل تعریف بات یہ ہے کہ ان کے افسانے دھیرے دھیرے بہنے والی ندی کی طرح رواں نہیں ہیں۔۔ بلکہ ان کے پلاٹ سے قاری پر ایک تذبذب کا عالم طاری ہو جاتا ہے ۔۔اور پلاٹ کا زیروبم ، مد و جزر، نشیب و فراز اسے چین سے بیٹھنے نہیں دیتا بلکہ دم بدم ہلکورے دیتا رہتا ہے اور بعض مقامات پر تو پلاٹ کے جوڑ توڑ سے پڑھنے والے حیران و ششدر رہ جاتے ہیں۔
افسانہ "پیکر وفا” کا ڈرامائی اختتام
افسانہ پیکر وفا کا پلاٹ مختصر الفاظ میں ملاحظہ فرمائیے:
اس افسانے کا مرکزی کردار ظفر اور اس کی وفا شعار بیوی سعیدہ ہے۔ ایک دن ظفر اپنی بیوی کے سارے زیورات چرا کر ولایت بھاگ جاتا ہے۔ سعیدہ شوہر کی اس حرکت اور اس کی جدائی کے صدمے سے پریشان ہوتی ہے۔ لیکن ہمت و استقلال سے کام لے کر مرحوم باپ کا کاروبار سنبھالتی ہے۔
ظفر کسی نہ کسی بہانے سے سعیدہ سے پیسے مانگتا رہتا ہے۔ سعیدہ کا گزر بسر مشکل سے ہوتا ہے، مگر جس طرح بھی ہو پاتا وہ رقم بھیجتی ہے ۔ ظفر سول سرجن ہو کر واپس آتا ہے مگر الگ کوٹھی میں رہتا ہے۔ سعیدہ متعجب مگر شوق میں اپنے ایک وفادار ملازم کے ساتھ اس کے گھر جاتی ہے۔
ظفر کے ساتھ ایک انگریز لڑ کی دیکھ کر اسے بہت صدمہ پہنچتا ہے۔ اور وہ بیمار ہو جاتی ہے۔ ظفر پر اس کی تشویش ناک بیماری کا کوئی اثر نہیں ہوتا ۔ آخر وہ انگریز عورت ظفر کو ہزاروں روپے کا مقروض کرنے کے بعد اسے علیل چھوڑ کر چلی جاتی ہے۔
عین اس وقت شوہر کی عزت خاک میں ملنے والی ہوتی ہے، بد نصیب بیوی پھر وفا کا جو ہر دکھاتی ہے، لیکن خاتون اکرم اس افسانے کو یونہی ختم نہیں کر دیتیں ۔ انھوں نے اس کا انجام بے حد ڈرامائی دکھایا ہے۔ جو نہایت موثر ہوتا ہے۔ اور قاری پر اپنا دیر پا تاثر چھوڑ جاتا ہے۔
ظفر اس مصیبت سے چھٹکارا پا کر دوسرے شہر چلا جاتا ہے وہاں اس کی پریکٹس خوب چلتی ہے۔ ایک روز بیمار ہو جاتا ہے اور تیز بخار کی حالت میں رات گئے وہ یہ سوچتا ہے۔ اقتباس ملاحظہ ہو:
ظفر کے کمرے کا دروازہ کھلا ہے نوکر اپنی اپنی جگہ سور ہے ہیں۔ مکان بالکل سنسان ہو رہا ہے۔ ظفر ا کیلا کمرے میں کمبل اوڑھے لیٹا ہے۔ میز پر لیمپ جل رہا ہے۔ کمرہ خوب سجا ہوا ہے۔ بڑے بڑے اور مشہور لوگوں کے مجسمے رکھے ہوئے ہیں۔ ظفر کو ہوش آیا اس نے کروٹ لی۔
102
اور پیسنے کی شدت سے گھبرا کر کمبل پھینک دیا۔ آدھے گھنٹے تک کچھ سوچتا رہا۔ پھر یکا یک پلنگ سے اتر کر کانپتا ہواجاے نماز پر بیٹھ گیا اور دونوں ہاتھ اٹھا کر کہنے لگا:
اے مالک کائنات امیری حالت پر رحم کر! میں نے تیرے بندے کی حق تلفی کی ، اس کی جو میر ا ساتھی بنایا گیا تھا۔ سعیدہ! آج مجھ کو جو تیرا جی چاہے سزادے۔۔۔۔۔۔ اے سعیدہ آ!۔ مغموم و مایوس ظفر رنج و ندامت کی حالت میں سرنگوں ہو گیا کہ دفعتنا سرسید کے مجسمے میں حرکت ہوئی اور اس کے پیچھے سے کوئی نکلا۔ آہٹ سن کر ظفر نے نگاہ اونچی کی اور چیخ کر کہا۔
سعید و امیر اقصور معاف کر ! (۲۹)
کردار نگاری اور نفسیاتی گہرائی
خاتون اکرم اپنے افسانوں کے لیے ایسے پلاٹ کا انتخاب کرتی ہیں جو سادہ ہونے کے ساتھ ساتھ مختصر بھی ہو اور تصور زار بھی ۔ ان کے افسانوں میں ہمیں نفساتی مطالعے اور مشاہدے کے اچھے نمونے ملتے ہیں۔ جا بجا تحیر ، استعجاب، رنج، خوشی، غصہ، نفرت، رشک و رقابت وغیرہ جذبات کا اظہار کر کے انھوں نے کرداروں کو بعض مقامات پر انتہائی بلندی پر پہنچا دیا ہے۔
خاتون اکرم کے افسانوں کی امتیازی خصوصیت یہ ہے کہ وہ اپنے کرداروں کو پیش کرتے وقت ذاتی تاثرات کو اپنے افسانے میں داخل نہیں کرتیں، بلکہ کردار کی سیرت کی مخصوص جھلک دکھا کر اس کی سیرت پر قاری کو متوجہ کر دیتی ہیں۔
خاتون اکرم نے انسانی زندگی کا مطالعہ باریک بینی سے کیا تھا اس لیے ان کے یہاں کردار نگاری کے نمونے بھی عمدہ ملتے ہیں۔ ان کے افسانوں کے کردار نہ تو نچلے طبقے سے تعلق رکھتے ہیں اور نہ ہی اعلیٰ طبقے ہے ۔ بلکہ ان کا تعلق متوسط طبقے سے ہوتا ہے جنھیں خوشی بھی میسر ہوتی ہے اور رنج بھی۔
عورت کو بہت سے افسانہ نگاروں نے اپنا خصوصی کردار بنا کر اس کے متعلق مختلف نظریے پیش کیے ہیں۔ لیکن یہاں عورت ہمیں ایک عورت کی نظر سے دکھائی دیتی ہے۔ وہ عورتوں کی نفسیات سے بخوبی واقف ہیں اور ان کے افسانوں کا مرکز عورت ہی ہے، جس کے اردگرد ان کا بے پناہ تخیل گھومتا رہتا ہے اور وہ ہمیں اس کی مختلف کیفیات و احساسات کے پرسوز افسانے سناتی ہیں۔
افسانہ "بچھڑی بیٹی” میں انھوں نے ایک پرانے زمانے کی ساس کا کردار پیش کیا ہے۔ جس کو اپنی پوتی کے کھو جانے کا کم اور اس بات کا رنج زیادہ ہوتا ہے کہ بہو کے ہاں اور کوئی اولاد نہیں ہوتی ۔ اس سے متعلق ایک جا لکھتی ہی
بڑی بی کی گھبراہٹ قابل دید ہے۔ یوں تو پہلے بھی دو کہا کرتی تھیں۔ مگر جب سے شکیلہ
103
حوالہ جات
مقالے کا عنوان:
بیسوی صدی کی اہم افسانہ نگار خواتین
مقالہ برائے: پی ایچ ڈی اردو
مقالہ نگار: آمنہ خان
نگران مقالہ: ڈاکٹر مشیر احمد
یونیورسٹی: فیکلٹی آف ہیومینٹیز اینڈ لینگویجز جامعہ ملیہ اسلامیہ دہلی
صفحہ نمبر:
آپ تک پہنچانے میں معاون: