کر کے مجھ پہ وہ سرسری سی نگاہ بولے

کر کے مجھ پہ وہ سرسری سی نگاہ بولے
آسماں سراپائے انتظار ہے کہ ستارہ بولے

نہ کوئی قدر شناس، نہ کوئی سخن ور یہاں پر
ایسی بے ذوق بزم میں کیا یہ دل بیچارہ بولے

نہ کوئی جرم، نہ خطا پھر بھی پائی بڑی سزا
مقتل شہر میں چار سو بے گناہ لہو ہمارا بولے

پوچھا جو کبھی خلوت اجڑنے کا سبب دل سے
تادیر سکوت کے بعد یہ دل نام تمہارا بولے

وہ تو ہر روز دیے جاتا ہے زخم پہ زخم نئے
مگر یہ دل کمبخت، جو اسے جان سے پیارا بولے

"بھول جاؤ مجھے“ آیا ہے یہ اس کا پیغام
اسے سمجھاؤ معیز یہ جملہ نہ دوبارہ بولے

(معیز خان ابدالی)
10 نومبر 2024

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں