کلام غالب اور فلسفہ وحدۃ الوجود

کتاب کا نام ۔۔۔۔ میر اور غالب کا خصوصی مطالعہ2
کوڈ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ 5612
موضوع۔۔۔۔۔۔۔۔ کلام غالب اور فلسفہ وحدت الوجود
صفحہ نمبر ۔۔۔۔ 162تا 164
مرتب کردہ ۔۔۔۔ Hafiza Maryam

کلام غالب اور فلسفہ وحدۃ الوجود

وحدت الوجود کے معنی یہ بتائے گئے ہیں کہ کائنات میں خدا کے سوا کسی اور چیز کا وجود نہیں ہے ۔ یہ نظریہ انسانی عقل و فہم کو سخت الجھن میں ڈال دینے والا نظریہ ہے۔ معمولی سے معمولی آدمی اپنی جسمانی آنکھ سے دیکھتا ہے کہ یہ کائنات بے شمار چیزوں سے بھری ہوئی ہے۔ اگر وہ نہیں دیکھتا تو صرف اس خدا کو نہیں دیکھتا جس کے بارے میں وحدت الوجود کا نظریہ بتلاتا ہے کہ خدا کے سوا اس کائنات میں کسی اور چیز کا وجود نہیں ہے۔ دراصل اس جملے سے پیدا ہونے والی الجھن اور پیدا ہونے والے سوالات کا سرچشمہ لفظ وجود ہے جس کے معنی عام قارئین کے نزدیک کچھ اور ہیں صوفیا کے نزدیک کچھ اور ۔ عام قارئین کے ذہن میں لفظ وجود کا مفہوم کسی چیز کا ہوتا ہے جبکہ وحدت الوجودی صوفیہ وجود کے معنی کسی چیز کا اصلی وجود کے لیتے ہیں۔ ان کے نزدیک اصلی وجود صرف ان چیزوں کا ہے جو اپنے وجود کے لیے کسی اور کے رہین منت نہ ہوں ۔ وہ چیزیں مستقل بالذات ہوں ۔ اس لحاظ سے اللہ کے سوا کسی ذات یا کسی کا وجود مستقل بالذات نہیں ہے۔ اللہ کے سوا کائنات میں جتنی چیزیں ہیں وہ بھی اپنے وجود کے لیے اللہ کی رہین منت ہیں۔ اگر اللہ کا وجود نہ ہوتا تو ان چیزوں کا وجود بھی نہ ہوتا۔ وحدت الشہود اسی نقطہ نظر پر اصرار کرتا ہے۔ وحدت الوجود اور وحدت الشہود کی بحثیں ایک صدی سے زیادہ چلی ہیں ۔ بالآخر حضرت شاہ ولی اللہ نے اٹھارویں صدی میں ان دونوں متصوفانہ نظریات کے درمیان یہ کہہ کر تطبیق پیدا کی کہ ان دونوں نظریوں میں کوئی بنیادی اختلاف نہیں ہے۔

اگر چه حالی نے غالب کو وحدت الوجودی قرار دیا ہے لیکن اس کے باوجود انھوں نے عام آدمی کے نقطۂ نظر سے وحدت الوجودیت پر اعتراض کرتے ہوئے اپنے ایک مشہور قطعہ بند میں یہ سوالات اٹھائے ہیں کہ

جب کہ تجھ بن نہیں کوئی موجود

پھر یہ ہنگامہ اے خدا کیا ہے

یہ پری چہرہ لوگ کیسے ہیں

غمزہ و عشوہ و ادا کیا ہے

شکن زلف عنبریں کیوں ہے

نگیه چشم سرمہ سا کیا ہے

لالہ وگل کہاں سے آئے ہیں

ابر کیا چیز ہے ہوا کیا ہے

ان اشعار کی شان نزول کہیں دیکھنے میں نہیں آئی۔ بہر حال ان اشعار کو غالب کی شاعری میں صوفیانہ عصر ہی کے طور پر دیکھا جاسکتا ہے۔ غالب نے ان اشعار میں اپنی جس الجھن کا ذکر کیا ہے اس میں تو عام آدمی بھی ان کا شریک ہو سکتا ہے لیکن ان کی یہ جو الجھن تھی کہ :
نہ تھا کچھ تو خدا تھا، کچھ نہ ہوتا تو خدا ہوتا

ڈبویا مجھ کو ہونے نے، نہ ہوتا میں تو کیا ہوتا

اس الجھن میں عام آدمی کی شرکت ممکن نہیں۔ یہ خیال غالباً تصوف ہی کی طرف سے آیا ہے کہ انسان خدا کے وجود کا حصہ ہے جب تک کا ئنات میں کچھ نہ تھا انسان خدا کی ذات میں شریک ہونے کے رشتے سے خدا ہی تھا۔ لیکن خدا سے جدا ہو کر اس نے اپنی خدائی عظمت کھودی۔ ایک فرشتے نے اسے سجدہ کرنے سے انکار کر دیا۔ اس انکار کی بدولت وہ

جس قدر ذلیل ہوا سو ہوا خود انسان کا وقار بھی محفوظ نہیں رہا

ہیں آج کیوں ذلیل کہ کل تک نہ تھی پسند

گستاخی فرشتہ ہماری جناب میں

غالب کی شاعری میں اگر انسانی عظمت کا کوئی تصور ہے تو وہی آدم اور فرشتوں کے قصے کے حوالے سے ہے ور نہ انسان یا تو مجبور محض ہے

رو میں ہے رخش عمر کہاں دیکھیے تھے

نے ہاتھ باگ پر ہے نہ پا ہے رکاب میں

یا آدمی ایک ایسی ذلیل مخلوق ہے جو خود اپنی نوع کو کاٹ کھاتی ہے۔ ۔

ڈرتا ہوں آئنے سے کہ مردم گزیدہ ہوں

غالب نے آدمی اور انسان میں بڑے فرق کی نشاندہی کی ہے۔ ان کے نزدیک آدمی وہ ہے جسے انسان بننا میسر نہیں آتا۔ یہ اور بات ہے کہ عام زبان میں آدمی اور انسان میں کوئی فرق نہیں کیا جاتا ۔

غالب نے اپنے ایک شعر میں انسانی صورت حال (Paradoxical Human Pre-dicament) کو اسلوب

میں بیان کیا ہے :

پایا درد کی دوا پائی درد بے دوا

عشق سے طبیعت نے زیست کا مزا پایا

کسی قول محال (Paradox) کی تشریح ممکن نہیں۔ یہ شعر غالب کے (Paradoxes) میں سے ہے۔ شعر کا ظاہری مطلب یہ ہے کہ عشق کی وجہ سے زندگی میں لطف آیا لیکن درد عشق بجائے خود ایک ایسا درد ہے جس کا کوئی علاج نہیں۔
غالب کی شاعری میں فکری عناصر کی تلاش کرنے والا اُن کے ان دو شعروں سے بچ نہیں سکتا:

نمود عالم اسباب کیا ہے؟ لفظ بے معنی

کہ ہستی کی طرح مجھ کو عدم میں بھی شامل ہے

اپنے اس انداز فکر کی بنا پر غالب نے خود کو اسے نہیں ہے کہہ کر مخاطب کیا ہے

ہستی ہے نہ کچھ عدم ہے

غالب

آخر تو کیا ہے اے نہیں ہے

یعنی غالب نہ بستی کے قائل تھے نہ عدم کے، نہ اس دنیا کے ہونے کے قائل نہ ہونے کے قائل ۔ اس لحاظ سے اُنھوں نے اپنا نام اسے نہیں ہے رکھا اور اپنے کو اس نام سے مخاطب کرتے ہوئے پوچھا کہ آخر آپ ہیں کیا یا آخر یہ دنیا ہے کیا ۔ یا تو یہ دنیا ہے یا نہیں ہے۔ دونوں کے درمیان تو کوئی چیز ہو نہیں سکتی۔

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں