جیلانی بانو کی فکشن نگاری | Jilani Bano ki fiction nigari
جیلانی بانو کی فکشن نگاری کا تنقیدی جائزہ
صغر امیدی کی ایک معاصر جیلانی بانو بھی ہیں۔ جن کا شمار آزادی کے بعد کی مشہور و معروف فن کاروں میں ہوتا ہے۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ترقی پسند تحریک کے زوال کے وقت کیا ۔ مگر انہوں نے کسی رجحان تحریک سے کبھی خود کو نہ سلک نہیں کیا۔
جیلانی بانو ۱۴ جولائی ۱۹۳۶ میں ضلع بدایوں میں پیدا ہوئیں ۔ ان کے والد علامہ حیرت بدایونی اردو اور فاری کے مشہور شاعر تھے۔ انہوں نے ذریعہ معاش کے لیے بدایوں سے حیدر آباد سکونت التیار کی ۔ اس طرح جیلانی بانو کا مستقل وطن حیدر آباد ہو گیا ۔ انہوں نے اپنے ادبی سفر کا آغاز ۱۹۵۴ سے کیا لیکن وہ خود اپنی طبع زاد تخلیق کے متعلقرقمطراز ہیں:
ایک بار اسٹیج کے لیے کوئی ڈرامہ ہی نہ ملا۔ شائقین بار بار پوچھتے اگر کوئی ڈرامہ نہ ملا تو کیا ڈرامہ لکھنے والا بھی نہیں مل سکتا؟ میں نے مزاحیہ اسکی نما کوئی چیز لکھی ہے
جیلانی بانو نے بارہ سال کی عمر میں ہی لکھنا شروع کر دیا تھا ۔ کچھ رائے اور بچوں کی کہانیاں لکھیں۔ جیلانی بانو کا پہلا افسانہ موم کی مریم ۱۹۵۴ میں لاہور سے ادب لطیف میں شائع ہوا، اس کے بعد انہوں نے بہت سے افسانے ، ناول، ڈرامے، انشائیے ، تبصرے اور ترجمے کے علاوہ روزنامہ سیاست میں کالم بھی لکھا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: جیلانی بانو اور افسانوی مجموعہ راستہ بند ہے پر ایک نظر | pdf
ان کا پہلا افسانوی مجموعہ روشنی کے مینار ۱۹۵۸ میں نیا ادار ولا ہور سے شائع ہوا۔ اس کا دوسرا اڈیشن نئی
عورت کے عنوان سے ۱۹۹۶ میں لاہور سے چھپا۔ یہ پندرہ افسانوں کا مجموعہ ہے۔ ان کے افسانوں کا دوسرا مجموعہ نروان مکتبہ جامعہ لمیٹڈ دہلی سے ۱۹۶۳ میں شائع ہوا۔ اس مجموعے میں ان کے ۱۴ افسانے شامل ہیں۔ ان کے افسانوں کا تیسرا مجموعہ ” پرایا گھر ۱۹۷۹ اردو مرکز حیدر آباد سے شائع ہوا۔ اس میں کل ۲۱ افسانے شامل ہیں ۔
یہ بھی پڑھیں: جیلانی بانو حیات اور کارنامے pdf
روز کا قصہ ان کے افسانوں کا چوتھا مجموعہ ہے۔ اس میں ۱۹۸۵ کے بعد لکھے گئے افسانوں کو یکجا کیا گیا ہے۔ اس مجموعے میں پندرہ مختصر اور دو طویل افسانے شامل ہیں۔ اسے ۱۹۸۷ میں کراچی سے شائع کیا گیا۔
ان کی کہانیوں کا یہ مجموعہ لاہور سے ۱۹۹۲ میں یہ کون ہنسا کے نام سے شائع کیا گیا۔ ان کے کلیات تریاق میں ۱۷ افسانے شامل ہیں۔ جے ۱۹۹۳ میں کراچی سے شائع کیا گیا۔
جیلانی بانو نے آزادی کے بعد تقسیم ملک ، ہجرت اور فرقہ وارانہ فسادات کو اپنے تخلیق کا موضوع بنایا۔ انہوں نے ان تمام واقعات و حادثات کو بہت قریب سے دیکھا ، سنا اور محسوس کیا ۔ ایسی صورت میں جیلانی بانو جیسی حساس ادیبہ کا قلم کیسے خاموش رو سکتا تھا ۔ ہر بڑا فن کا روہی ہوتا ہے جو اپنے زمانے کے حالات و واقعات کی حقیقی ترجمانی کرتا ہے۔
جیلانی بانو کے پہلے اور دوسرے افسانوی مجموعوں میں زیادہ تر ہندوستان کے غریب کسانوں، مزدوروں اور عورتوں کا استحصال، مجبوری ، مظلومی ، خستہ حالی ، بے چارگی و بے بسی کو ہی موضوع بنایا گیا ہے۔ جس میں مٹی کی گڑیا ، بہاروں کے بیچ ، فصل گل جو یاد آئی نروان اور رات کے مسافر خصوصیت کے حامل ہیں۔
افسانہ مٹی کی گڑیا میں جیلانی بانو نے یہ دکھایا ہے کہ غریبی تو گناہ ہے ہی اس پر عورت گناہ کبیرہو، شوہر کی مار، ساس کی جھڑ کیوں اور بچوں کے تو چے وکھو ٹے جانے کے بعد پیٹ کی آگ بجھانے اور لغو خواہشوں کو پورا کرنے کے لیے غیر مردوں کے ہاتھ بیچ دی جاتی ہے اور اگر نہ بھی بکے تب بھی وہ تو امیر مردوں کا حق ہے۔ یہ تو اس کے گھر والوں کی خوش قسمتی ہے کہ اس کی عزت و آبرو کے عوض میں انھیں کچھ معاوضے مل جاتے ہیں۔
ایسے ہی دردناک منظر کو جیلانی بانو نے اپنے اس افسانے میں اور الکشمی ملیشیم و جنگم بہستی کے لوگوں کے توسط سے ابھارا ہے ۔ در الکشمی کی پیدائش اس کے والدین کے لیے ایک عذاب ہوتی ہے۔ در الکشمی نے ایک مٹی کی گڑیا بیچنے والے اپانچ لڑ کے ملیشیم سے شادی کر کے اس کی پریشانی اور دونم کو اپنے دامن میں سمونے کی کوشش کی مگر ملیشیم ایک دن در تاشمی کو بے جان گڑیا کی طرح سوروپے کے عوض ایک صاحب کے پاس بیچ آتا ہے۔
اس مجموعے کا دوسرا افسانہ فصل گل جو یاد آئی میں خواتین کی بے بسی و بے چارگی کی تصویر پیش کی گئی ہے۔ اس افسانے کا مرکزی کردار زہرہ ہے جو ایک تعلیم یافتہ نوجوان اسلم سے شادی کرنا چاہتی ہے مگر اس کے گھر والے اس کی شادی گاؤں کے ایک ان پڑھ زمیندار سے کر دیتے ہیں اور زہرہ خاموشی سے اسے اپنی قسمت کا لکھا سمجھ کر سمجھوتا
کر لیتی ہے۔
افسانہ بہاروں کے ” میں غریب کسانوں اور کھیت میں کام کرنے والے مزدوروں کی مظلومی وختہ حالی کو پیش کیا گیا ہے۔ غریب و معصوم کسان یہ نہیں جانتے کہ ان کی اولادوں کو کیوں ماردیا گیا۔ کیوں اس کو بے گھر کیا گیا؟ دوسروں کے پیٹ بھرنے والے یہ کسان خود دانے دانے کے محتاج کیوں ہیں؟ ان کی زندگی کا یہی مقصد ہے کہ
جھی تو رمحنت کریں اور بھر کے پیٹ سو جائیں ۔ افسانے کا یہ اقتباس ملاحظہ ہو:
بڑھا تو شاید اس صد سے سے دمانی توازن ہی کھو چکا تھا۔ اسے ایک ہی نظر لگی تھی کہ اس کی بیونسی خوشی اس کے ہونے کو جنم دے۔ بڑھیا اپنی مصیبت سناتے ہوئے ڈرتی تھی ۔ ہم بڑی مصیبتوں سے بیچ کر شہر آئے ہیں۔ ہم نے کوئی قصور نہیں کیا ۔ ہمارے بیٹے نے بھی کوئی خطا نہیں کی تھی ۔ اسے کیوں مار ڈالا ۔ کیوں ہمیں اپنے گھروں سے نکال دیا ؟ آگے پوچھنے کی سنوتا نے ضرورت بھی نہ کبھی۔ وہ خود دن میں ہزار بار اپنے دل سے یہ سوال کرتی تھی۔ ان دنوں بہت سے کسان جان بچانے کے لیے شہر بھاگ آتے تھے مگر شہر کی سڑکوں پر بھیک مانگنے کے اصول سے واقف نہ ہوتے ، اس لیے جیل بھیج دیے جاتے ۔ ہوا
اس افسانے میں یہ سوال بھی اٹھایا گیا ہے کہ زندگی کسی امید کے سہارے جینا چاہئے مگر اس کا جواب افسانہ نگار خود دیتی ہیں۔ ان کے یہاں ابھی ہوئی زندگی کا واحد حل موت نہیں ہے۔ ان کے تخلیق کردہ کردار زندگی سے مایوس ہو کر خود کشی نہیں کرتے ۔ نا امید نہیں ہوتے ہیں بلکہ زندگی بسر کرنے کا کوئی نہ کوئی ذریعہ ڈھونڈ لیتے ہیں جس امید کے سہارے دو زندگی گزار دیتے ہیں۔
دوسرے افسانوی مجموعے نروان” میں عورتوں پر ہو رہے ظلم و جبر اور استحصال کے ساتھ ساتھ پنڈتوں، پجاریوں اور سادھوؤں کی ناپاک و ناشائستہ حرکتوں و مکاریوں کو اجاگر کیا گیا ہے۔
اس مجموعے کی ایک اور کہانی رات کے مسافر میں بے روزگاری ، مفلسی و فریبی سے پیدا ہونے والی خاندانی اختلافوں ، زندگی کی ناہمواریوں و بے راہ روی کو پیش کیا گیا ہے۔ اسی نوع کے اس مجموعے کی دوسری کہانیاں پنچوں کی رائے ، ڈریم لینڈ دیوداسی چھٹکارا ایمان کی سلامتی چیت میں اور چوری کا مال ہیں۔
جیلانی بانو کے تیسرے اور چوتھے افسانوی مجموعے کے موضوعات اکثر و بیشتر نفسیاتی فرقہ وارانہ فساد اور
ٹوٹتے بکھرتے رشتوں پر بنی ہیں۔ جس میں سونا آلکن بھا گو بھا گو اور اسکوٹر والا قابل توجہ ہیں۔ یوں تو ان مجموعوں میں بہت سے نفسیاتی افسانے ہیں لیکن اسکوٹر والا افسانے میں ایک الگ قسم کے نفسیاتی جذبات کو پیش کیا گیا ہے۔ افسانے کا مرکزی کردار عابدہ اپنے شوہر اور نتھنے سے بچے کے ساتھ ایک ایسے محلے میں رہتی ہے جہاں صبح سے رات تک پھیری والے، سبزی والے، مانگنے والے، عورتوں، بچوں اور گاڑیوں کا شور وغل مچا رہتا ہے۔
انھیں لوگوں میں ایک اسکوٹر والا جو عابدہ کا پڑوسی ہوتا ہے جب اپنا اسکوٹر لے کر پھٹ پھٹ کی آواز نکالتا جاتا ہے تو اس کی آواز سے عابدہ کا بچہ جاگ جاتا ہے۔ جس سے اس کو گھر کے کام کاج کرنے میں خلل پڑتا ہے۔ اس لیے ایک بار اس ہنگامے سے پریشان ہو کر عابد و اس اسکوٹر والے کو بددعا دیتی ہے کہ اللہ کرے اسکوٹر والا مر جائے ۔ اب اسے یہ خوف لاحق ہوتا ہے کہ کہیں اس کی بددعا قبول نہ ہو جائے ۔
ایک دن اس کے پڑوس میں ایک آدمی کی موت ہو جاتی ہے۔ عابدہ کو اطلاع ملتی ہے کہ وہی اسکوٹر والا مر گیا ہے۔ تب عابدہ بہت روتی ہے۔ اس کو لگاتا ہے وہ قاتل ہے مگر دوسرے دن صبح پھر اسکوٹر کی پھٹ پھٹ سن کر وہ خوشی سے چلا اٹھتی ہے کہ اس کا کوئی نہیں مرا ہے۔
اس طرح افسانے میں بغیر کسی کو دیکھے محض اسکوٹر کی آواز پر ہی ایک انجان شخص سے انسانی رشتہ استوار کر لینا انسانی لگاؤ کو ظاہر کرتا ہے۔ یوں تو یہ نفسیاتی جذبات نہایت ہی عام ہے لیکن اس معمولی سے جذبے کو موضوع بنا کر ایک دلچسپ و با معنی افسانہ لکھ دینا خصوصیت رکھتا ہے۔
افسانہ بھا گو بھا گو میں آشا ایک مسلمان لڑ کے سلطان سے شادی کر لیتی ہے اس کے دو بچے ہو جاتے ہیں۔ ایک دن اچانک شہر میں فرقہ وارانہ فساد شروع ہو جاتا ہے۔ ہر طرف مارو، کاٹو اور بھا گو کا شور بر پا ہو جاتا ہے۔
ایسے میں آشا کو سمجھ میں نہیں آتا کہ وہ مسلمان کی طرف جائے یا ہندو کی طرف کیوں کہ اس کی اور اس کے بچوں کی جان کہیں نہیں بچ سکتی ۔ چاروں طرف سے مایوس ہو کر آشا اپنے بچوں کے ساتھ شیر کے پنجڑے میں گھس کر مطمئن ہو جاتی ہے کہ اب اسے کوئی خطرہ نہیں ہے۔
شما جلدی سے بچوں کا ہاتھ تھامے شیر کے پنجرے میں گھس گئی ۔۔۔ اب وہ مطمئن تھی کہ درندوں کے چنگل سے نکل گئی تھی۔ ولے
افسانے کا آخری جملہ انسان کے وحشیانہ حرکتوں پر طنز کرتا ہے۔ کیونکہ انسان اشرف المخلوقات ہے مگر ایسے دور میں انسان ایک وحشی درندے سے بھی زیادہ وحشی ہو چکا ہے ۔
ان افسانوں کے علاوہ جیلانی بانو کے پانچویں اور چھٹے افسانوی مجموعے کے زیادہ تر افسانے سیاسی مکر و فریب، موجودہ دور کے ٹوٹتے بکھرتے رشتے اور ابارشن ( اسقاط حمل ) جیسے موضوع پر لکھے گئے ہیں۔ اس میں اسوسی مین بکس ایک پوری اور اپو ا ہمیت رکھتا ہے۔
افسانہ انویسی میں بکس میں ناہید کے نہ چاہنے کے باوجود اس کا شوہر عیان اس کا ابارشن کرادیتا ہے کیونکہ اس کے پیٹ میں پل رہا بچہ لڑ کی ہوتی ہے۔ افسانہ ” اپنے میں راشد اور شرما اپنے بڑھاپے کی تنہائی و بیماری سے پریشان ہو کر اپنے بیٹوں کے آنے کا انتظار کرتے ہیں۔ اور پھر مایوس ہو کر یہ سوچتے ہیں
کہ ان سے اچھی زندگی تو ان کے کتے انچ کی ہے۔ افسانے میں کتنے کے حوالے سے دنیا کی بے حسی ، حرص و ہوس ، مکر وفریب قتل اور غارت گرمی کو بھی بیان کیا گیا ہے۔ افسانہ ایک پوری میں حکومت کی لا پرواہی ، سیاسی عیاری اور ناشائستہ حرکتوں کو پیش کیا گیا ہے۔
جیلانی بانو نے صرف کسی خاص علاقے یا موضوع سے منسلک ہو کر نہیں لکھا ہے بلکہ ان کے زیادہ تر افسانے مسائل نسواں پر یعنی نظر آتے ہیں۔
اس کے ساتھ ہی ان کے اکثر و بیشتر افسانے مقامی رنگ لیے ہوتے ہیں لیکن اس سے انکار ممکن نہیں کہ جن مسائل کو انھوں نے اپنا موضوع سخن بنایا ہے، وہ علاقائی ہوتے ہوئے بھی آفاقی ہیں۔ اگر ہم جیلانی بانو کے پورے ادبی سفر پر نظر ڈالیں تو ہمیں اندازہ ہوگا کہ انھوں نے اپنے سفر کے آغاز میں جو ادبی معیار قائم کیا تھا، وہ تھوڑے سے فرق کے باوجود اپنا توازن بنائے ہوئے ہیں۔
انھوں نے اپنے تخلیقی سفر میں صرف مختلف موضوعات پر افسانے ہی نہیں لکھے بلکہ ناول ، ناولٹ کے علاوہ ڈرامے، ٹی وی سیریل اور بچوں کے لیے کہانیاں بھی لکھی ہیں۔ جہاں ایک طرف انھوں نے دوسرے افسانوں کے ترجمے بھی کیے، وہیں دوسری جانب ان کے افسانے اور ناول کے کئی زبانوں میں ترجمے بھی کیے جاچکے ہیں۔ اس سے بھی ان کی تخلیقی حیثیت کا اندازہ ہوتا ہے ۔
ان کی تخلیق نہ تو تجربے، مشاہدے و معنویت سے عاری ہے اور نہ ہی خلوص محنت و توجہ سے خالی، وہ ہمیشہ ظالم و مظلوم طبقے سے دور مظلوم اور بے بس کے قریب نظر آتی ہیں۔
خواہ وہ عورت ہو، مرد ہو، غریب ہو یا مزدور ، شہر کا تعلیم یافتہ مہذب انسان ہو یا گاؤں کا ان پڑھ، مندر میں بیٹھے بھگوان کے نام پر لوٹنے والے پنڈت ، پجاری و سادھو سنت ہوں یا درگاہ کے پیر ومرشد ہوں ۔ ان کی تخلیقات کے مطالعے سے انداز ہ ہوتا ہے کہ جیلانی بانو نے اپنے قلم کے ذریعے گرد و پیش کے حادثات و واقعات کو پیش کر دیا۔
افسانوں کے علاوہ جیلانی بانو نے ناول بھی لکھے ہیں۔ ان کا پہلا ناول ‘ایوان غزل فروری ۱۹۷۶ میں شائع ہوا۔ اور دوسرا نا دل بارش سنگ کی اشاعت ۱۹۸۵ میں ہوئی۔ دونوں ناولوں کا شمار موضوع، پلاٹ، کردار،
زبان و بیان فن اور تکنیک کے لحاظ سے ترقی پسند تحریک کے بعد لکھے گئے ناولوں میں ہوتا ہے۔ دونوں ناولوں کی اشاعت میں تقریبا دس سال کا وقفہ ہے لیکن ان کے مطالعے کے درمیان یہ انداز ہ ہوتا ہے کہ دونوں کا موضوع اور زمانہ ایک ہی ہے، صرف کرداروں کے نام بدلے نظر آتے ہیں۔ ان میں سیاسی ، سماجی ، معاشی اور معاشرتی عدم مساوات کی عکاسی کی گئی ہے۔
اس کے علاوہ ان دونوں ناولوں میں غریبوں، مزدوروں، کسانوں اور عورتوں کے حالات و مسائل بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ نا انصافی اور ظلم کے بیچ سے ہی بغاوت کے پودے جنم لیتے ہیں جس کو دولت اور حکومت کی طاقت کاٹ تو سکتی ہے مگر جڑ سے اکھاڑ نہیں سکتی۔ اس کی حمد و مثال ” ایوان غزل کے آخری کردار کرانتی اور بارش سنگ کا کردار بشیر علی ہے۔
ایوان غزل ناول میں جیلانی بانو نے عورتوں کے ساتھ اپنے ہمدردانہ رویے کو بروئے کار لاتے ہوئے ان پر ہو رہے ظلم و استحصال کے خلاف احتجاج کیا ہے۔ اور یہ بتانے کی کوشش کی ہے کہ عورتوں کا استحصال ہر زمانے اور ہر شکل میں کیا جاتا رہا ہے، چاہے وہ جاگیردارانہ نظام ہو یا آج کی جمہوری حکومت کبھی مذہب کے فرسودہ رسم ورواج کی آڑ میں تو کبھی مغربی تہذیب کے انداز میں وہ اس کا ذمہ دار مردوں کو بھی ٹھہراتی ہیں۔ مگر کئی جگہ یہ دیکھانے کی کوشش کی ہے کہ عورت خود اپنی بر بادی کی ذمہ دار ہوتی ہے۔ چاند اور غزل جیسی تعلیم یافتہ اور باشعور لڑکیوں کا بار بار مردوں کے بہلاوے میں آجانا ہی خود اس بات کی دلیل ہے۔
ایوان غزل واحد حسین کی رہائش گاہ کا نام ہے۔ جہاں واحد حسین مع اہل و عیال کے رہائش پذیر ہیں۔ می ڈیوڑھی ان کے آبا و اجداد کی نشانی ہے۔ اس کے ذریعے ناول نگار نے ایک مخصوص سماج، تہذیب اور عہد کو پیش کیا ہے۔ اس صورت میں ہم عنوان ایوان غزل کو ایک علامت کہہ سکتے ہیں۔ دوسری صورت میں نام سے ہی اندازہ ہوتا ہے کہ ایوان غزل یعنی عورتوں کا گھر جس کے ذریعے عورتوں کی تباہی، بر بادی، استحصال ظلم و جبر پیش کیا گیا ہے۔ اس کے ساتھ ہی عورتوں کی نفسیات کا تجز ی بھی بڑی خوبی سے کیا گیا ہے۔
جیلانی بانو کا دوسرا نا ول بارش سنگ کا موضوع بھی جاگیرداروں اور ساہوکاروں کے ظلم وستم کی عکاسی کرتا ہے۔ بشیر علی اس ناول کا اہم کردار ہے جو گاؤں کا ایک غریب سیدھا سادا کسان ہے، جسے جاگیردارانہ طبقے کے ظلم و جبر نے باغی بنے پر مجبور کر دیا ہے یہ نی نسل کا نمائندہ ہے۔ نذر ، بہادر اور بے باک ہے۔ اس کو جاگیردارانہ نظام سے شدید نفرت ہوتی ہے۔ اس کے خلاف بغاوت کر کے اسے پوری طرح ختم کرنے کا عزم کرتا ہے اور اپنی جان کی بازی
لگا دیتا ہے ۔ ۱۹۵۱ میں تلنگانہ کسان تحریک واپس لے لی جاتی ہے مگر بشیر علی اپنے مقصد سے پیچھے نہیں بنتا ہے۔ اس پر بغاوت کا الزام عائد کر کے پھانسی کی سزا دے دی جاتی ہے مگر بشیر علی کہتا ہے:
مجھے مارڈالو مگر میرے بیچ میرے کھیتوں میں ضرور لگیں گے۔ ہر سال میری پیک ( فصل ) کوئی نہ کوئی ضرور کاٹے گا۔
اس طرح جیلانی بانو کے ناول جاگیردارانہ نظام کی برائیوں پر سے پردہ اٹھاتا ہے۔ وہ برائی چاہے گھر کی چاردیواری میں ہو یا اس سے باہر سب پر ان کی گہری نظر رہتی ہے۔ وہ اس باریک بینی سے اس کا بیان کرتی ہیں کہ ان کے ناولوں کا مطالعہ کرنے والے اس عہد کی حقیقی تصور پر دیکھنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔ جیلانی بانو ایسی فن کار ہیں جو سماج کی ان برائیوں کو بے نقاب کرتی ہیں جن پر لکھنے سے اکثر لوگ پر ہیز کرتے ہیں۔
پی ڈی ایف سے تحریر: سمیہ خان
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں