مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

جیلانی بانو ابتدائی افسانے اور ادبی سفر

جیلانی بانو کے اولین افسانوں کے بارے میں اختلاف

جیلانی بانو کے اولین افسانوں کے بارے میں اختلاف پایا جاتا ہے۔ رسالہ ”شاعر میں عوض سعید اپنی رائے پیش کرتے ہیں:
جیلانی بانو کی پہلی کہانی ایک نظر ادھر بھی ، ۱۹۵۳ کے ادب لطیف میں چھپی تھی۔ اس دوران ان کی دو کہانیاں ایک ہزار ایک رومان اور فصل گل جو یاد آئی بیک وقت سویرا اور افکار میں شائع ہوئیں۔ (۳۴)

عتیق احمد صاحب نے ماہنامہ تخلیق ادب میں فرمایا ہے:
جیلانی بانو کا پہلا افسانہ موم کی مریم ہے۔ یہ افسانہ ماہنامہ ادب لطیف ۱۹۵۰ کے کسی شمارے میں چھپا تھا اور یہی افسانہ جیلانی بانو کے نام کا پاکستان اور ہندوستان کے قارئین کے ذہنوں میں جاگزیں کر گیا۔ (۳۵)

خود جیلانی بانو ماہنامہ شاعر میں رشید الدین صاحب کے سوال پر فرماتی ہیں:
میرا پہلا افسانہ ایک نظر ادھر بھی ادب لطیف لاہور کے سالنامے ۱۹۵۳ میں شامل ہے۔ (۳۶)

جیلانی بانو کا وسیع ادبی سفر

بہر حال، جیلانی بانو کی تخلیقات تقریباً پچاس سالوں سے ہندو پاک کے بیشتر جرائد و رسائل ”سویرا لاہور، افکار، کراچی، شاہراہ دہلی ، بیسویں صدی دہلی، "سب رس” حیدر آباد، بانو دہلی، شاعر بمبئی بزم ادب، علی گڑھ محفل خواتین حیدر آباد وغیرہ میں شائع ہوتی رہی ہیں۔ نصف صدی پر محیط اپنے ادبی سفر میں جیلانی بانو نے ناول، افسانے ، تنقیدی مضامین ، تبصرے، ترجمے، ڈرامے، انشائیہ، ناولٹ ، بچوں کے لیے کہانیوں کے علاوہ روزنامہ سیاست میں کالم بھی لکھا ہے۔ ان کی تقریباً انیس کتابیں زیورِ طبع سے آراستہ ہو کر ادبی دنیا میں مقبول ہو چکی ہیں۔

مشہور ناول اور ناولٹ

ان میں دو ناول ” ایوان غزل ۱۹۷۶ بارش سنگ ۱۹۸۵ اور دو ناولٹ ” نغمے کا سفر ۱۹۷۷، جگنو اور ستارے ۱۹۶۵ اور کچھ افسانوی مجموعے شامل ہیں۔ ان کے تحریر کردہ دو ناولٹ بہت مشہور ہوئے اور ان کا مختلف زبانوں میں ترجمہ بھی ہو چکا ہے ۔ ” ایوان غزل کو بیسویں صدی کی آٹھویں دہائی کا بہترین ناول قرار دیا گیا ہے۔

افسانہ نگاری میں جیلانی بانو کا مقام

جیلانی بانو اردو کی ان چند جدید فکشن نگاروں میں شمار کی جاتی ہیں جنھوں نے اپنا مقام اپنی پہلی کہانی سے ہی متعین کر لیا۔ اردو ناقدوں نے انھیں صف اول کی افسانہ نگاروں میں شامل کیا ہے۔

پہلا افسانوی مجموعہ: روشنی کے مینار

جیلانی بانو کا پہلا افسانوی مجموعہ روشنی کے مینار ۱۹۸۵ میں نیا ادارہ لاہور سے شائع ہوا۔ اس کا دوسرا ایڈیشن نئی عورت کے عنوان سے ۱۹۹۴ میں لاہور سے شائع ہوا۔ اس میں کل پندرہ افسانے ہیں۔ جو مختلف رسائل و جرائد میں شائع ہو چکے تھے۔ اس مجموعے میں شامل افسانے موم کی مریم ، ڈریم لینڈ ، مٹی کی گڑیا ، دیوداسی ، مجنور اور چراغ ، پنچوں کی رائے ، فصل گل جو یاد آئی ، چھٹکارا ، بہاروں کی بیچ ، ایک انار، چھمیا، نئی عورت، آگ اور پھول ، آہٹ اور روشنی کے مینار وغیرہ ہیں۔

۳۶۲ صفحات پر مشتمل اس مجموعے کو انھوں نے اپنے والد حیرت بدایونی کے نام سے معنون کیا ہے۔ افسانوی مجموعہ روشنی کے مینار کو پاکستان کی بہترین کتاب قرار دیا گیا تھا اور انھیں توصیفی صداقت نامہ بھی پیش کیا گیا۔

کرشن چندر کی رائے

بقول کرشن چندر:
"میرا خیال ہے کہ گزشتہ چھ سات سال میں افسانوں کا ایسا خوبصورت مجموعہ ( روشنی کے مینار ) تو شائع نہیں ہوا۔ جو صورت اور معنی دونوں اعتبار سے اس قدر حسین اور مکمل ہو ۔ مشکل ہی سے اس میں کوئی دوسرے درجے کا افسانہ کسی کو ملے گا۔ فنی نزاکتوں کی آپ کے نزدیک بڑی اہمیت ہے۔ اور اس میدان میں آپ نے بڑے بڑوں کو پیچھے چھوڑ دیا ہے۔ الفاظ کے استعمال میں آپ بے حد محتاط نظر آتی ہیں اور مشاق جو ہریوں اور نگینہ سازوں کی طرح عرق ریزی کرتی ہیں۔”
(اس مجموعے کے زیادہ تر افسانے عورتوں کی محبت، ایثار و قربانی کی عکاسی کرتے ہیں۔)

حوالہ جات

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں