عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ

عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ | Ismat Chughtai ki afsana nigari ka tanqeedi jaiza

عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری کا تنقیدی جائزہ

عصمت چغتائی اُردو کی تاریخ میں وہ پہلی خاتون ہیں جنہوں نے مردانہ سماج و معاشرے کو بڑی بے باکی اور جوانمردی کے ساتھ اپنی تنقید کا ہدف بنایا ۔ انہوں نے اپنے ناولوں اور افسانوں میں تانیثیت کی جس بھر پور انداز میں عکاسی کی ہے کوئی دوسری خاتون اب تک اس معاملے میں اُن کی مثال نہیں بن پائی ہے۔ عصمت چغتائی کا لب ولہجہ اور انداز بیان خالص تانیشی ہے۔ عصمت کے موضوعات جدا گانہ ہیں۔ عورت کے احساسات و جذبات اور سماج میں اُس کی حیثیت ، عورت کے نفسیاتی رد عمل کی عکس بندی کو عصمت نے پہلی دفعہ اُردو ادب میں جگہ دی۔

یہ بھی پڑھیں: عصمت چغتائی کے افسانوں میں سماجی اور تانیثی رجحانات مقالہ pdf

عصمت چغتائی اردو ادب کی بیباک ، جرات مند اور نڈر افسانہ نگار کی حیثیت سے جانی جاتی ہیں۔

جنھوں نے ادب کو نئے نئے موضوعات کے ساتھ زبان و بیان کا نیا سلیقہ بھی دیا اور ان سارے موضوعات کو بلا جھجک اپنے افسانے کا حصہ بنایا جو ان سے پہلے شجر ممنوعہ کی حیثیت رکھتے تھے ۔ اور مرد حضرات بھی انہیں چھونے سے ڈرتے تھے ۔ اردو ادب میں تانیثی ادب کی باقاعدہ شروعات عصمت چغتائی کے دور سے ہی ہوتی ہے۔ قرۃ العین حیدر انکولیڈی چنگیز خاں کے نام سے بلاتی تھیں۔

عصمت چغتائی ۲۱ اگست ۱۹۱۵ء کو بدایوں میں پیدا ہوئیں ۔ ان کا خاندانی نام عصمت خانم تھا۔ وہ ایک پڑھے لکھے روشن خیال خاندان سے تعلق رکھتی تھیں ۔ ان کی والدہ نصرت خانم اور والد مرزا قیم بیگ تھے۔ ان کے دادا نسیم بیگ چغتائی کا شمار شہر کے معزز اور دانشور افراد میں ہوتا تھا۔ عصمت چغتائی کے نانا مشہور صاحب قلم تھے جن کی تصنیف رزم بزم کو خاص اہمیت حاصل ہے۔ اس طرح پڑھنے لکھنے کا شوق ان کو ورثہ میں ملا تھا۔ جس کو عصمت نے ایک خاص بلندی عطا کی ۔

عصمت چغتائی پر ان کے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاص اثر ہے انہیں کی وجہ سے عصمت کا ذہن ادب کی طرف ہوا۔ اور انہوں نے ٹامس ہارڈی ، حجاب اسمعیل ، مجنوں گورکھپوری اور نیاز فتحپوری کی نگارشتات پڑھنے کی طرف مائل ہو ئیں ، بھائی کی بدولت ہی انہوں نے انگریزی اور تاریخ کے ساتھ قرآن وحدیث کی تعلیم حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: عصمت چغتائی کی افسانہ نگاری

یونس اگاسکر نے ایک انٹرویو کے درمیان جب اس بابت دریافت کیا تو انہوں نے بتایا:

کیا ہوا میں خود نہیں جانتی، میں نے چودہ پندرہ برس کی عمر ہی سے لکھنا شروع کر دیا تھا ، اوٹ پٹانگ اور رومانٹک کہانیاں لکھا کرتی تھی۔ جس میں عشق و محبت اور چومنےچاننے کی باتیں ہوا کرتی تھیں۔ میں نے ان کہانیوں کو ضائع کر دیا۔ بہر حال لکھنے پڑھنے کا
شوق مجھکو پہلے سے تھا۔

عصمت چغتائی کی ابتدائی تعلیم جے پور اور آگرہ میں ہوئی ، ہائی اسکول اور انٹر انہوں نے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے مکمل کیا۔ بی۔ اے کرنے کے لیے وہ لکھنو گئیں پھر بی ٹی کے لیے علی گڑھ مسلم یو نیورسٹی میں داخلہ لیا۔ ۱۹۴۲ء میں انکی شادی مشہور فلمساز شاہد لطیف سے ہوئی۔ ان کے دو بیٹیاں سیما اور محمد ینہ ہیں۔

انہوں نے مختلف مقامات پر ملازمت بھی کی۔ ۱۹۳۷ ء میں وہ اسلامیہ گرلز اسکول بریلی کی پرنسپل ہوئیں پھر ریاست جاورا کے اسکول کی پرنسپل اس کے بعد راج محل جو دھپور میں پرنسپل پھر بمبئی میں انسپکٹر آف اسکولز اور پریسینڈ نٹ میونسپل اسکول بمبئی رہیں۔

عصمت چغتائی نے مختلف فلموں کی کہانیاں اور ڈائیلاگ بھی لکھے ، جس میں شکایت ، ضدی، آرزو،

بز دل ، گرم ہوا اور جنون خاص ہیں۔

عصمت چغتائی نے دس ناول لکھے ۔

ٹیڑھی لکیر ضدی، معصوم ، ایک قطرہ خون سودائی جنگلی کبوتر ” عجیب آدمی، باندی دل کی دنیا اور انسان اور فرشتے خاص ہیں۔

ان کے مختلف افسانوی مجموعہ اس طرح ہیں:

کلیاں ۱۹۴۰، چوٹیں ۱۹۴۳ء ، ایک بات ۱۹۵۲ ، چھوٹی موٹی ۱۹۵۲ء ، دو ہاتھ ۱۹۶۳ء ، کنواری ( ہندی افسانے ) ، بدن کی خوشبو ، زہر، پہلی لڑکی ، خرید لو لحاف ، آدھی عورت آدھا خواب خاص ہیں۔

عصمت کے دو ڈرامے شیطان اور دھانی بانکیں ہیں۔ بچوں کے لیے انہوں نے دو ناول تحریر کئے تین اناری اور علی راجکمار ہیں۔ اسکے علاوہ ان کی آپ بیتی کاغذی ہے پیرہن خاص ہیں۔ انہوں نے مختلف خاکے اور رپورتاژ تحریر کئے ہیں۔ جسمیں انکے بھائی عظیم بیگ چغتائی کا خاکہ ” دوزخی خاص ہے۔
عصمت چغتائی سے گفتگو ، یونس اگاسکر ، ماہنامہ، مکالمات ، عصمت چغتائی نمبر ۱۹۹۱ ، ص ۱۴

اسکے علاوہ انہوں نے مجاز منٹو، میراجی ، پطرس، جانثار اختر اور بنے بھائی ( سجاد ظہیر ) پر بھی خاکے لکھے ہیں۔

عصمت چغتائی کو انکی ادبی خدمات کے صلے میں مختلف اعزازات سے نوازا جا چکا ہے جسمیں پدم شری، غالب ایوارڈ ، پرویز شاہد ایوارڈ مہاراشٹر اردو اکیڈمی ، جودھپور اردو اکیڈمی ، ساہتیہ اکاڈمی ایوارڈ مخدوم ایوارڈ نہر وایوارڈ اور اقبال سمان خاص ہیں۔ انہوں نے چین ، روس ، یورپ، فرانس، جرمنی اور فن لینڈ وغیرہ کا دورہ کیا اور ے سے سال کی عمر میں ۱۲۴ اکتوبر ۱۹۹۱ء کو انکا بمبئی میں انتقال ہو گیا ۔ انکی وصیت کے مطابق انکو چندن واڑی میں نذر آتش کر دیا گیا۔

عصمت نے ادبی ماحول میں آنکھیں کھولی تھیں ، اور ان کی پرورش بھائیوں کے ساتھ ہوئی اور یہی وجہ ہے کہ اپنے بھائی عظیم بیگ چغتائی سے کافی متاثر ر ہیں ، اور انہیں کے زیر اثر انہوں نے لکھنا شروع کیا۔

” میں نے ان کے افسانے پڑھ پڑھ کر خود بھی چھپا کر لکھنا شروع کر دیا ۔ حجاب
اسمعیل ، مجنوں گورکھپوری اور نیاز فتح پوری کے افسانے پڑھ کر ایسا معلوم ہوتا گویا یہ سب میرے ہی اوپر بیت رہی ہے اور پھر میں نے خود کو افسانہ کی ہیروئن تصور کر کے نہایت چٹ پے قسم کے واقعات لکھنے شروع کئے ۔ مثلا میں بہت خوبصورت ہوں بالکل حجاب کی ہیروئن کی طرح ، سنہرے بال نیلی آنکھیں ، قرمزی رنگ کا لبادا اوڑھنے ، نیم دراز ہوں ہیرو آتا ہے۔ میرا پہلا ہیرو ہمیشہ ڈاکٹر ہوتا تھا شاید اس لئے کہ اس زمانے میں ڈاکٹر ایسا مرد ہوتا تھا جو گھر میں آکر نبض ٹٹول سکتا تھا۔ میری حالت خراب ہونے پر روسکتا تھا۔ مجھے بے تابانہ چومتا اور میری حسین موت پر خودکشی کر لیتا۔ کیا مزے دار ہوا کرتی تھیں یہ کہانیاں انہیں

لکھنے میں اتنا ہی لطف آتا تھا جیسے چٹ پٹی کہانیاں پڑھنے میں آتا تھا ۔

عصمت ایک کھلے ہوئے ماحول کی پروردہ تھیں اور لکھنے پڑھنے کا شوق انہیں کم عمری سے ہی ہو گیا

تھا۔ وہ خود لکھتی ہیں:

میں جس ماحول میں پلی بڑھی وہ نسبتا آزاد تھا۔ لڑکے لڑکیوں پر زیادہ پابندیاں
نہیں تھیں ۔ مجھ سے بڑی بہنوں کی عمر اور میری عمر میں کافی فرق تھا۔ اس لیے میری تربیت زیادہ تر بھائیوں کے ساتھ ہوئی پھر میری اماں کچھ زیادہ دخل نہیں دیتی تھیں ۔ اس لیے مجھے آزادی سے سوچنے کی عادت پڑ گئی۔
عصمت اپنے بچپن کا ذکر کرتے ہوئے ایک دلچسپ بات بتاتی ہیں:

دو پہر کو محلے بھر کی عورتیں جمع ہو کر بیٹھ جاتیں اور ہم لڑکیوں سے کہا جاتا تھا چلو بھا گو تم لوگ ۔ میں چھپ کر پلنگ کے نیچے گھس کر کہیں سے ان کی باتیں سن لیا کرتی تھی۔ جنس کا موضوع گھٹے ہوئے ماحول اور پردے میں رہنے والی بیویوں کے لیے بہت اہم ہے وہ اس پر بہت بات چیت کیا کرتی ہیں ، میری افسانہ نگاری اس گھٹے ہوئے ماحول کی عکاسی ہے۔ فوٹو گرافی ہے ۔

عصمت چغتائی کے افسانے اردو کے مشہور جرائد میں شائع ہوئے جسمیں ساقی ، ادب لطیف ، ادبی دنیا، آجکل ، ادیب، شاعر سویرا ، نقوش، ہمایوں ، عالمگیر، نیرنگ خیال، نیادور لکھنو ، نیا دور کراچی وغیرہ خاص ہیں۔

عصمت چغتائی کا پہلا افسانہ ” ڈھیٹ رسالہ ساقی مارچ ۱۹۳۸ء ، جلد ۱۷، شمارہ ۳۱ ص ۵۱ میں موجود ہے۔ اس کے بعد افسانہ ” کافر ساقی اپریل ۱۹۳۸ ، جلد ۱۷، شماره ۴، ص ۵۵ پر موجود ہے۔

کہانی کہنے کا عصمت کا اپنا مخصوص انداز ہے ۔ وہ اپنے افسانوں میں مسلمان عورتوں اور لڑکیوں کی گھٹی گھٹی زندگیوں کو پیش کرتی ہیں۔ عصمت جس دور سے تعلق رکھتی ہیں وہ دور ترقی پسندی کے عروج کا زمانہ ہے۔ اور حقیقت نگاری کو اس دور میں خاص اہمیت حاصل تھی ۔ عصمت کے ہمر عصر کرشن چندر منٹو اور بیدی وغیرہ نے حقیقت نگاری کو پیش کیا ۔ اور بیشتر افسانہ نگاروں نے جنسی حقیت نگاری کو اپنایا۔ جس میں منٹو خاص تھے۔ مگر عصمت اور منٹو کی جنسی حقیقت نگاری میں خاص فرق ہے۔ عصمت جنس میں گھٹن کو بیان کرتی ہیں اور جنسی نا آسودگی انکا خاص موضوع ہے۔ منٹو کے برعکس عصمت اس موضوع میں وہ بیبا کی نہیں دکھا پاتیں جو منٹوکا وصف رہا ہے۔ افسانہ لحاف کی اشاعت کے بعد منٹو نے کہا تھا:

مجھے عصمت کے چہرے پر وہی سمٹا ہو ا حجاب نظر آیا جو تمام گھر یلولڑکیوں کے چہرے پر نا گفتی شئے کا نام سنکر نمودار ہوا کرتا ہے۔ مجھے سخت نا امیدی ہوئی اس لیے کہ میں لحاف کے تمام جزئیات کے متعلق اس سے باتیں کرنا چاہتا تھا جب عصمت چلی گئی تو میں نے دل میں کہا۔ یہ تو کم بخت بالکل عورت نکلی ۔

عصمت چغتائی نے اپنے زمانے میں رائج موضوعات کی نفی کی ۔ انکے زمانے کا ادب حجاب امتیاز علی اور مسز عبد القادر جیسی افسانہ نگاروں کے تخیل اور خوابناک ماحول کا مرہون منت تھا جہاں حسن و عشق کے قصے تھے رومان کا دور دورہ تھا مگر عصمت نے ان تما موضوعات کو رد کر دیا اور وہ افسانے لکھے جن میں حیات انسانی کے چھپے گوشے موجود تھے جو ان کے تخلیقی مزاج کے عین مطابق تھے جو تخلیق کار کے فنی شعور ، ادبی ذوق اور تخلیقی مزاج کے ترجمان تھے۔ عصمت نے اپنے افسانوں میں ان موضوعات کو بھی برتا جس میں سماج کی جھوٹی شرافت، مذہب کے نام پر فرسودہ رسم ورواج تصنع اور بناوٹ موجود تھی ۔

آل احمد سرور عصمت چغتائی کے موضوعات پر لکھتے ہیں:

عصمت نے ہندوستان کے متوسط طبقے اور مسلمان کے شریف خاندانوں کی بھول بھلیوں کو جس جرات اور بیبا کی سے بے نقاب کیا ہے اس میں کوئی ان کا شریک نہیں وہ ایک بانی کا ذہن ، ایک شوخ عورت کی طاقت اور ایک فنکار کی بے لاگ اور بے رحم نظر رکھتی ہیں۔

لحاف عصمت چغتائی کا بدنام زمانہ افسانہ ہے۔ اس فسانے میں عصمت نے ایک المیے کو موضوع بنایا ہے جو بے جوڑ شادی کا نتیجہ ہے۔ بیگم جان کی شادی پیسے کی مجبوری کے باعث ایک پکی عمر کے نواب صاحب سے کر دی جاتی ہے۔ جو کل میں اپنی بیوی کو رکھکر بھول جاتے ہیں۔ مجبور ہو کر بیگم جان غیرفطری رویہ اختیار کرتی ہیں اور اپنی ملازمہ یو کے ساتھ زندگی گزارنے لگتی ہیں۔ ایک طرح سے دیکھا جائے تو اس افسانے میں عورت کی مظلومیت کو پیش کیا گیا ہے۔ بقول وقار عظیم:

عصمت کا بڑا اضافہ یہ ہے کہ انہوں نے ہمیں بتایا کہ عورت کے بھی اپنے مسائل ہیں ۔ لے ہاجرہ مسرور کے مطابق لحاف میں عریانیت اس وجہ سے محسوس کی گئی کہ اس پوری کہانی کو ایک معصوم بچی کی زبان سے بیان کیا گیا تھا:

” عصمت نے لحاف میں بنیادی غلطی یہ کی کہ اسے بچوں کی زبان میں پیش کیا ہے۔ اس لیے وہ گھناؤنا ہو گیا ہے ۔ انداز بیان غلط تھا لیکن موضوع ضروری تھا

انتظار حسین لحاف کے متعلق کہتے ہیں :

میرے خیال میں عصمت نے صحیح انداز اختیار کیا ہے۔ سمجھنے والا بالغ ہوتا تو یہ بات زیادہ گھناؤنی ہو جاتی ۔ بچہ کی زبان سے یہ بات ہم تک پہونچ گئی اور اس میں عریانی
نہیں رہی۔

ر بوکو گھر کا اور کوئی کام تھا۔ بس وہ سارے وقت انکے چھپر کٹ پر چڑھی کبھی پیر کبھی سر اور کبھی جسم کے اور دوسرے حصے کو دبایا کرتی تھی تمھارے پاس آ جاؤں بیگم

جان ….

نہیں۔ بیٹی سور ہی۔ زرا سختی سے کہا گیا

اور پھر دو آدمیوں کے کھسر پسر کرنے کی آواز سنائی دینے لگی

ہائے رے یہ دوسرا کون ؟ میں اور بھی ڈری

بیگم جان چور و در تو نہیںسو جاؤ بیٹا۔ کیا چور۔ ربو کی آواز آئی۔ میں جلدی سے لحاف میں منھ ڈال کر سو گئی ۔ عصمت نے جنسی عریانی کو جس طرح پیش کیا ہے وہ اردو ادب ان سے پہلے نایاب تھی۔

پروفیسر محمد حسن کے مطابق :

عصمت چغتائی سے پہلے کسی بھی خاتون نے اپنے داخلی تجربات جنسی آرزو مندی اور جذبات کے والہانہ پن کو ظاہر کر کے رسوائی مول لینا پسند نہ کیا تھا۔

عصمت کو سماجی حقیت نگاری پر عبور حاصل ہے، متوسط طبقے کے مسائل اور فرسودہ رسم و رواج کی وہ کھل کر مخالفت کرتی ہیں ۔ چوتھی کا جوڑا اور دو ہاتھ ان کے خاص افسانے ہیں۔

دو ہاتھ افسانہ عصمت کا مشہور اور اہم افسانہ ہے۔ رام اوتار گوری سے بیاہ کے فورا بعد فوج میں بھرتی ہو جاتا ہے۔ رام اوتار کے جانے کے دو سال بعد گوری کے یہاں لڑکا پیدا ہوتا ہے۔ رام اوتار کی ماں اور آس پڑوس کے لوگ گوری پر انگلی اٹھاتے ہیں۔ سال بھر بعد رام اوتار واپس آتا ہے۔ لوگ اس کو پوری داستان سناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ وہ بیوی اور بچہ دونوں کو گھر سے نکال دے لیکن رام اوتار ایسا کرنے کے بجائے دونوں کو گلے لگا لیتا ہے اور کہتا ہے:

سر کار لونڈا بڑا ہو جاوے گا اپنا کام سمیٹے گا ۔ رام اوتار نے گڑ گڑا کر سمجھایا وہ دو ہاتھ لگائے گا تو اپنا بڑھاپا تیر ہو جائیگا ۔ ندامت سے رام اوتار کا سر جھک گیا۔

افسانے کا اختتام قطعی غیر متوقع ہے۔ فیصل جعفری اس بابت لکھتے ہیں:

یہ اختتام افسانے کی شدت کو یقینا مجروح کرتا ہے۔ اور ڈرامائی کشمکش پر جذباتیت غالب آ جاتی ہے افسانے کے اختتام اور کہیں کہیں بیچ میں ان کی تقریروں اور

تبصروں کے باوجود انکا افسانوی اسلوب ہمیشہ اپنے خالق سے وفادار رہتا ہے۔ جہاں تک موضوعات کا تعلق ہے ظاہر ہے کہ سماجی تبدیلیوں کے باعث ایسے موضوعات جو مخصوص قسمکے ماحول یا واقعات یا نفسیاتی رد عمل سے جڑے ہوئے تھے اب مجروح ہو گئے ہیں ۔

عصمت چغتائی کے لحاف” اور ” دو ہاتھ دونوں ہی افسانوں میں ایک نئے ڈھنگ کا برتاؤ نظر آتا ہے۔ مظہر امام نے ان کے موضوعات کے بارے میں لکھا ہے:

عصمت کی دنیا غربت، جہالت اور غلاظت کی دنیا ہے ، مشترکہ خاندان میں کیڑے مکوڑے کی طرح پلنے والے بچے ، پیشاب پینچانے کی سرانڈ اور بیسانڈ ، میل اور ، پسینے میں آئی ہوئی خاد مائیں دبی دبی گھٹی گھٹی پردے کے پیچھے سے جھانکنے والی لڑکی جو پردے ہی پردے میں ناجائز بچے بھی پیدا کر لیتی ہے ۔ عصمت کے جانے پہچانے مظاہر ہیں۔ عصمت پردے کے پیچھے کلبلاتے ہوئے احساسات و جذبات کی مصوری تیز اور چکا چوند پیدا کرنے والے رنگوں سے کرتی ہیں ۔

اپنے افسانوں میں فحاشی کے الزام کے جواب میں اپنے افسانوی مجموعے ایک باپ کے دیباچے سوال میں عصمت نے ایک شاعر کے حوالے سے لکھا ہے کہ انہوں نے یہ اٹھایا کہ جو ادیب فحش نگاری کرتے ہیں تو کیا ان کی بہنیں نہیں ہیں ۔ بقول عصمت:

ان حضرت سے دست بستہ عرض ہے کہ قبلہ اگر ماں بہن نہ ہوتیں تو مشاہدہ کیا ہوتا۔

عصمت نے اپنے موضوعات کے متعلق بار بار یہ دہرایا ہے کہ ان کے بیشتر افسانے ان کے مشاہدات و تجربات پر مبنی ہوتے ہیں۔

اپنے افسانے ” بہو بیٹیاں میں اپنی دو بھاوجوں کا تعارف کروانے کے بعد افسانے کی خاتون راوی تیری بھابھی کو یوں متعارف کرواتی ہے:

تعلیم یافتہ کہلاتی ہیں ۔ اسے ایک کامیاب بیوی بنے کی مکمل تعلیم ملی ہے۔ وہ ستاربجا سکتی ہے۔ پینٹنگ کر سکتی ہے۔ ٹینس کھیلنے ، موٹر چلانے اور گھوڑے کی سواری میں مشاق ہے … دونوں میاں بیوی ایک ہی قرمے کے بنے ہوئے ہیں۔ ان کے مزاج ، پسند اور ناپسند یکساں ، دونوں ایک ہی کلب کے ممبر ہیں۔ دونوں ایک ہی سوسائٹی کے چہیتے فرد۔

اس تعارف کا تاثر ایک آئیڈیل شادی شدہ جوڑے کا پڑتا ہے مگر عصمت کا افسانوی ہنر اتنا سطحی نہیں فاشی ہے کیونکہ آگے وہ اعلی طبقے کے اخلاقی جرائم کا پردہ فاش کرتی نظر آتی ہیں۔

میاں کا ایک دوسرے اعلی افسر کی بیوی سے مشہور و معروف قسم کا عشق چل رہا ہے۔ اور بیوی اس کے ایک ہم عصر سے مانوس ہے۔ جس کی بیوی اپنے سہیلی کے میاں سے اٹکی ہوئی ہے۔ یہ پہلی ایک سرجنٹ کے دام الفت میں گرفتار ہے جس کی اپنی بیوی ایک بو جھل سے سیٹھ کے پاس رہتی ہے۔ جس کی پرانی چیچک رو بیوی منیجر سے الجھی ہوئی ہے ۔

اس افسانے کے ذریعے پہلی بار Extra marital relationship کو اتنی بے باکی کیساتھ

قلمبند کیا گیئے۔

افسانہ چوتھی کا جوڑا سماج پر ایک وار کی طرح ہے۔ اس فسانے میں عصمت نے مسلم گھرانوں میں شادی بیاہ کے پیچیدہ مسائل کو پیش کیا ہے۔ جو متوسط طبقہ کے ہر گھر کا مسئلہ ہے۔

خواجہ احمد عباس کے مطابق:

چوتھی کا جوڑا ہمارے سماج کا ایک المیہ ہے، نچلے متوسط طبقہ کی یہ کہانی جس میں چوتھی کا جوڑا کو ایک نشانی ایک کمبل کے طور پر استعمال کیا گیا ہے ۔ یہ مبل ہے ان لڑکیوں کا جو اپنی خاندانی غربت کی وجہ سے بن بیاہی رہ جاتی ہیں ۔ ہے

کبری کے والدین کو اس کی شادی کی فکر ہے۔ کبری کی ماں انکے لیے چوتھی کا جوڑ اہلتی ہے۔ کبری کا ماموں زاد بھائی راحت کسی ٹرینگ کے سلسلے میں کبری کے گھر آ کر ٹھہرتا ہے۔ اسکے آنے سے پورا گھر خوشہو جاتا ہے۔ راحت کی کسی داماد کی طرح خاطر داری ہوتی ہے کبری کی چھوٹی بہن حمید اخدا سے دعا مانگتی ہے:

اللہ ! میرے اللہ میاں ! اب کے تو میری آپا کا نصیب کھل جاء ۔ میرے اللہ میں سو رکعت نفل تیری درگاہ میں پڑھونگی ۔ حمیدہ نے فجر کی نماز پڑھکر دعا مانگی ۔ لے

حمیدہ بہن کی شادی کی آرزو میں راحت کے ہاتھوں اپنی عصمت بھی کھو دیتی ہے:

ایک جھٹکے سے اس کا ہاتھ پہاڑ کی کھو میں ڈوبتا چلا گیا … نیچے تعفن اور تاریکی کے اتاہ غار کی گہرائیوں میں، اور ایک بڑی سی چٹان نے اس کی شیخ کو گھونٹ دیا .

نیاز کے میدے کی رکابی ہاتھ سے چھوٹ کر لالٹین کے اوپر گری اور لالٹین نے زمین پر دو چار سکیاں بھریں اور گل ہو گئی۔ باہر آنگن میں محلہ کی بہو بیٹیاں مشکل کشا کی شان میں گیت گا رہی تھیں۔

راحت اپنی ٹرینگ پوری کر کے واپس چلا جاتا ہے اس کی شادی طے ہو جاتی ہے اور کبری کی ماں کی ساری امید میں ختم ہو جاتی ہیں ۔ کبری کوئی بی ہو جاتی ہے اور وہ موت کو گلے لگا لیتی ہے۔ کبری کی ماں نے جس جگہ بیٹھکر اس کا چوتھی کا جوڑ اسیا تھاو ہیں اس کا کفن سی رہی ہے۔

عصمت چغتائی نے اس افسانے میں مسلم متوسط طبقہ کی ذہنی اور نفسیاتی کیفیات کو فنی چابکدستی کے ساتھ پیش کیا ہے۔ وہ زبان کو ایک ہتھیار کے طور پر استعمال کرتی ہیں۔

عصمت چغتائی کا افسانہ ” بے کار سماج کے بنائے ہوئے اصولوں اور بندھنوں پر ایک زبردست چوٹ ہے۔ یہ کہانی معاشی پریشانی میں گھری ہاجرہ بی کی کہانی ہے۔ باقر میاں شادی سے پہلے برسر روزگار تھے

مگر شادی کے بعد ان کی نوکری چھوٹ گئی۔ میٹرک پاس ہاجرہ گھر کے تمام زیورات بک جانے کے بعد افراد خانہ کو فاقوں سے بچانے کے لئے اسکول میں ملازمت کر لیتی ہے۔ مگر معاشرے میں خود ایک تماشہ کی حیثیت اختیار کر لیتی ہے۔ ایک طرف پڑوس کی عورتیں اسے یوں دیکھتی ہیں جیسے وہ کوئی بازاری عورت ہو ۔ دوسریطرف اسکول کے حکام اس کی معاشی مجبوریوں کا استعمال کرتے ہیں اور تیسری طرف اس کا شوہر باقر میاں جو اخلاقیات کا پروردہ ہے اس پر شک کرنے لگتا ہے اور یہاں تک کہ ایک روز اس پر ہاتھ بھی اٹھا دیتا ہے۔ اس کہانی کے کردار باقر میاں ہاجرہ بی اور ساس تینوں ہی مظلومیت ، بے بسی اور مجبوری کی تصویر بنے سماج کے اصولوں کے بیچ جھول رہے ہیں۔ یہ افسانہ روایتی اخلاقیات پر زبردست طمانچہ ہے۔

عصمت چغتائی کو زبان پر پوری قدرت حاصل ہے۔ ان کے جملے فقرے اور الفاظ کہانی کے جذبات و احساسات کو آگے بڑھانے میں مددگار ہوتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ کہانی کے پلاٹ کو بھی مضبوط بناتے ہیں ۔ متوسط مسلم گھرانے کا پورا نقشہ وہ اپنی زبان سے ادا کر دیتی ہیں ۔ مثال:

ہے ہے بنو۔ اے دلہن، اللہ کا واسطہ یہ جہاز کا جہاز پلنگ گھسیٹ رہی ہو اور جو کچھ دشمنوں کو ہو گیا تو … سچ میری لاڈلی کتنی دفعہ کہنا کنواری بیاہی ایک سمان نہیں ۔ بنوده دولتیاں اچھالنے کے دن گئے ۔ بیٹی جان پنڈ اسنبھال کے۔ چٹی گھڑا سمجھو نھیں لگی اور لینے کے دینے بڑ جائیں گئے ۔

عصمت کی زبان میں ایک طرح کا چٹخارہ ہے طنز و مزاح بھی ہے جس کی آڑ میں وہ سماج کے ہر طبقے پر وار کرتی ہیں۔ ان کے کردار انہیں کی طرح نڈر بیباک اور منھ پھٹ ہوتے ہیں۔ عصمت کی زبان دراصل کردار کی زبان ہے:

چل بیٹی پلنگ پر ، اے میں کہتی ہوں ۔ یہ گلاس مواسواسیر کا ہے۔ اس کمینے سے کتنا کہا ہلکا المونیم کالا دے۔ مگر وہ ایک حرام خور ہے۔ لے اٹھ زرا ۔

ساس بڑ بڑاتی رہی مو ہے تفتے کی بیٹی کو کیا جہیز دیا تھا۔ اے راہ قربان جائے۔ خونی کڑے ملمع کی بالیاں اور …

عصمت چغتائی اپنے افسانوں میں مختلف قسم کے کرداروں کو پیش کرنے میں مہارت رکھتی ہیں۔ وہکرداروں کی خوبیوں اور خامیوں کو حسب ضرورت اجاگر کرنے میں بھی مہارت رکھتی ہیں۔

فیصل جعفری کے مطابق :

عصمت اپنے کرداروں سے بے حد محبت کرتی ہیں باوجود اس کے کہ وہ کبھی کبھی کردار بنکر بولنے لگتی ہیں۔ اور باوجود اس کے کہ وہ کبھی کبھی کردار کی فطرت کے خلاف اس کی گردن پکڑ کر بعض کام کرنے پر اور بعض کام نہ کرنے پر مجبور کر دیتی ہیں ۔

عصمت کے کردار معاشرے کا ایک حصہ ہوتے ہیں، جس میں وہ لڑکیاں ہیں جو گھٹے گھٹے ماحول میں سکتی ہیں، پسماندہ اور نچلے طبقے کے کردار بھی ان کی کہانیوں کا حصہ ہیں تو دوسری طرف نوابوں اور امیر زادوں کی زندگی بھی ان کے افسانوں میں موجود ہے۔

عصمت چغتائی کے افسانوں کے موضوعات کسی بندش کے تحت نہیں ہیں بلکہ اپنے ماحول میں انہوں نے جو دیکھا اس حقیقت کو افسانوی پیرایہ میں پیش کر دیا۔ رفیعہ سلطانہ کے مطابق:

عصمت چغتائی کا کہنا ہے کہ زخم میں مواد بھر دیا جائے تو اس پر پٹیاں باندھنے سے بہتر ہے نشتر لو اور جراحی شروع کر دو ۔

تا نیثی ادب کا پہلا منشور عصمت چغتائی کا ہی جاری کیا ہوا ہے۔ اور انکی تحریر میں تانیثی ادب کا پہلا سنگ میل ہیں ۔ عصمت سے پہلے اردو خواتین افسانہ نگار مردوں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنی تحریریں پیش کر رہی تھیں، عصمت نے ان تمام اصولوں اور ضابطوں کی نفی کرتے ہوئے اپنا راستہ خود چنا۔

کرشن چندان کے مجموعہ چوٹیں کے دیباچہ میں لکھتے ہیں :

عصمت کا نام آتے ہی مرد افسانہ نگاروں کو دورے پڑنے لگتے ہیں، شرمندہ ہور ہے ہیں، آپ ہی آپ خفیف ہوئے جارہے ہیں، یہ دیباچہ بھی اسی خفت کو مٹانے کانتیجہ ہے ۔

عصمت کے موضوعات منفرد ہیں اور سماجی حالات پر ان کا قلم ایک رد عمل کی شکل میں ابھرتا ہے۔ عصمت کا ایک ناولٹ ” دل کی دنیا جیسا موضوع عصمت نے اس وقت آزمایا تھا اور آج بھی موضوع کے لحاظ سے تانیثی ادبیوں کے لیے اتنا ہی پیچیدہ ہے:

قدسیہ خالہ جنکے شوہر ایک میم کے عشق میں گرفتار ہیں اور قدسیہ خالہ کے لیے زندگی ایک جہنم سے بدتر ہو کر رہ گئی ہے وہ نا تو انہیں طلاق دیتے ہیں اور ناہی اپنے عشق کو بھلانے کی کوشش کرتے ہیں۔ مجبور ہو کر قدسیہ خالہ اپنے پرانے عاشق رشید میاں کے ساتھ فرار ہو جاتی ہیں اور انگلینڈ چلی جاتی ہیں۔

قدسیہ خالہ کا یہ قدم مرد سماج کے بنائے ہوئے اصولوں کے منافی ہے۔ مگر آج بھی یہ مسئلہ خواتین کے لیے ایک سوال بنکر کھڑا ہے؟ قدسیہ خالہ راہ فرار ڈھونڈ لیتی ہیں اور انگلینڈ چلی جاتی ہیں۔ ہزاروں خواتین ایسے مسئلوں میں گھر کر آنسو بہاتے ہوئے آج بھی زندگی گزار رہی ہیں۔

قدسیہ خالہ اور شیر میاں کی اولاد ان کی حالات زندگی پر جو کمنٹ کرتی ہے وہ اظہار خیال خود عصمت

چغتائی کا رد عمل ہے:

امی اور ابو کی محبت دیکھ کر شادی بیاہ اور طلاق کی اہمیت پر ہنسی آنے لگتی ہے۔ سے رام اعل کے نام ایک خط میں وہ اپنے موضوعات کے بارے میں لکھتی ہیں:

میں نے ساری زندگی عورت اور مرد دونوں کو برابر اہمیت دی ہے ، دونوں کی جہالت ظلم اور زیادتی کے خلاف قلم اٹھایا ہے، اگر مرد ظالم انصاف چورا چکا ہے تو سب سے

پہلے وہ عورتیں محرم ہیں جنہوں نے اسے اپنے عیش و آرام کی خاطر چورا چکا اٹھائی گیرا اورمردہ ضمیر کا کچومر بنایا ہے۔ مرد دنیا کے جرائم صرف ماں بہن بیوی ساس اور سالی کے عیش و آرام کی خاطر کرتا ہے اور تباہ و برباد ہو جاتا ہے ۔

عصمت چغتائی اپنے موضوع سماج سے چنتی ہیں اور طنز و مزاح کا عنصر شامل کر کے اپنی تحریریں ندرت پیدا کر دیتی ہیں۔ البتہ کبھی کبھی ان کا لہجہ تیکھا ہو جاتا ہے۔ کیونکہ وہ خود عورت ہیں اور عورتوں کے مسائل برداشت نہیں کر پاتیں۔

خلیل الرحمن اعظمی ان کی انفرادیت کے حوالے سے لکھتے ہیں:

عصمت چغتائی اردو افسانہ نگاری میں جو طرز تحریر اور جو موضوعات و مسائل لیکر آئیں وہ ایک نئے عنوان کی چیز تھی ، عورت کی زندگی ور اس کے جنسی مسائل کو یوں تو پہلے بھی ہمارے بہت سے افسانہ نگاروں نے برتا تھا۔ لیکن ان افسانوں میں اور عصمت کی کہانیوں میں بنیادی فرق ہے۔ عصمت نے ان مسائل کو عورت ہی کے زاویے نگاہ سے دیکھا ہے اور انہیں صرف بیان کرنے یا عمومی انداز میں اکسانے اور چھیڑنے کے بجائے انہیں محسوس کیا ہے۔

عصمت چغتائی اپنے افسانوں میں ایک خواب دیکھتی ہیں وہ خواب ہے مایوسی اور حالات کی ستائی لڑکیوں کم سن دو شیزاؤں کی سدھری ہوئی حالت کا … عورت ان کی سماجی حیثیت اور اس کے جذبات و مسائل پر وہ تڑپ اٹھتی ہے۔

پی ڈی ایف سے تحریر: Hafiza Maryam

نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں