موضوعات کی فہرست
الاجتہاد فی الاسلام یا ہئیت اسلام میں اصول حرکت
اقبال کے ہاں مذہب کا مقام اصل الاصول
یہ ایک معلوم حقیقت ہے کہ علامہ اقبال کی زندگی مذہب کو زندگی کے تمام شعبوں میں بطور اصل الاصول تسلیم کرانے میں بسر ہوئی۔
زندگی کے بارے میں علامہ اقبال کا تصور مجوسی تصور سکون کے برعکس "حرکی” تھا اس لئے زندگی کے نت بدلتے احوال و ظروف میں مذہب کے بھر پور کردار کے حوالے سے وہ مذہب میں بھی اصول حرکت پر پختہ یقین رکھتے تھے اور اسلام میں اصول حرکت کا ظہور صرف اور صرف اجتہاد میں ہوتا ہے اس لیے ہم دیکھتے ہیں کہ اس موضوع پر علامہ نے مسلسل سوچا۔
علامہ کا مقالہ
1904ء میں علامہ نے اپنے مقالہ "قومی زندگی” میں امام ابوحنیفہ جیسے عالی دماغ مقنن کا ذکر کر کے فقہ کی تدوین کا کام ایک سے زیادہ دماغوں کے سپرد کرنے کا ذکر کیا۔
لیکن ساتھ ہی یہ وضاحت بھی کی کہ ملک چونکہ ابھی کسی قابل عمل نتیجے پر نہیں پہنچا اس واسطے فی الحال اس بارے میں کوئی رائے نہیں دی جاسکتی۔
” ملت بیضا پر ایک عمرانی نظر”
1910 میں علامہ نے ایک بار پھر امام ابو حنیفہ کے اجتہادی کام کو زبردست خراج تحسین پیش کیا اور زمان و مکاں کے احوال و ظروف میں ماضی سے رشتہ منقطع کئے بغیر جدید مسائل کے حل کی خاطر فقہ پر از سر نو غور کی اہمیت اجاگر کی اور علوم جدید کے قدم بقدم بڑھنے کے لئے ایک اسلامی یونیورسٹی کے قیام کی ضرورت یاد دلائی۔
امریکی مصنف کا خیال اور علامہ کے لئے نئی تحریک
1924ء میں علامہ نے ایک امریکی مصنف نکولاس، پی اغنیدز کی کتاب ” محمدن تھیوریز آف اسلام "میں پڑھا کہ:
"بعض احناف اور معتزلہ کے نزدیک اجماع نص کو منسوخ کر سکتا ہے۔“
تو علامہ نے اس مسئلہ پر تحقیق کی ٹھانی چنانچہ” ہئیت اسلام میں حرکت کا اصول“ کے عنوان سے ایک مقالہ لکھا جس میں اجتہاد کی ضرورت واہمیت اور حدود و قیود واضح کئے ۔
یہ مقالہ شیخ عبد القادر کی صدارت میں اسلامیہ کالج ریلوے روڈ کے حبیبیہ ہال میں اس سال (1924) ماہ دسمبر میں پڑھا گیا لیکن علامہ اپنی تحقیق سے مطمئن نہ تھے جیسا کہ ان کے مکتوب بنام پروفیسر غلام مصطفی تبسم محررہ 2 ستمبر 1925 سے ظاہر ہوتا ہے۔ علامہ نے لکھا:
"میں نے اجتہاد پر ایک مضمون لکھا تھا مگر دوران تحریر اس کا احساس ہوا کہ یہ مضمون اس قدر آساں نہیں جیسا کہ میں نے اسے ابتداء میں تصور کیا تھا۔ اس پر تفصیل سے بحث کی ضرورت ہے موجودہ صورت میں وہ مضمون اس قابل نہیں کہ لوگ اس سے فائدہ اٹھا سکیں کیونکہ بہت سی باتیں جن کو مفصل لکھنے کی ضرورت ہے اس مضمون میں نہایت مختصراً طور پر محض اشارتاً بیان کی گئی ہے یہی وجہ ہے کہ میں نے اسے آج تک شائع نہیں کیا۔
اب میں انشاء اللہ اسے ایک کتاب کی صورت میں منتقل کرنے کی کوشش کروں گا جس کا عنوان ہو گا "Islam as I Understand it”۔
اس عنوان سے مقصود یہ ہے کہ کتاب کا مضمون میری ذاتی رائے تصور کیا جائے جو ممکن ہے غلط ہو”
زمانہ حال کا منصفانہ مشاہدہ و تجزیہ
میرا عقیدہ یہ ہے کہ جو شخص اس وقت قرآنی نقطہ نگاہ سے زمانہ حال کے جورس پروڈنس پر ایک تنقیدی نگاہ ڈال کر احکام قرآنیہ کی ابدیت کو ثابت کرے گا وہی اسلام کا مجدد ہوگا اور بنی نوع انسان کا سب سے بڑا خادم بھی وہی شخص ہو گا۔
ہندوستان میں عام حنفی اس بات کے قائل ہیں کہ اجتہاد کے دروازے بند ہیں میری ناقص رائے میں مذہب اسلام اس وقت گویا زمانے کی کسوٹی پر کسا جا رہا ہے اور شاید اسلام میں ایسا وقت اس سے پہلے کبھی نہیں آیا۔
مکاتیب اقبال بنام سید سلیمان ندوی
اقتباس خاصا طویل ہے لیکن نا مفید نہیں ہے۔ 1924 سے 1929 تک علامہ کے مکاتیب بنام سید سلیمان ندوی امریکی مصنف کے خیال کی تصدیق و تردید اور اجتہاد سے متعلق مسائل پر مشتمل ملتے ہیں تا آنکہ The Idea of” Ijtihad in the law of Islam” یعنی "الاجتہاد فی الاسلام” کے عنوان سے وہ مقالہ مرتب ہوا جواب ان کے دوسرے خطبات کے ساتھ "تشکیل جدید الہیات اسلامیہ” میں درج ہے۔
پروف ریڈنگ؛ وقار حسین
حواشی
موضوع؛ "الاجتہاد فی الاسلام یا ہئیت اسلام میں اصول حرکت”
کتاب ؛ علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ
کورس کوڈ ؛ 5613
مرتب کردہ؛ فاخرہ جبین
پروف ریڈنگ؛ وقار حسین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
Sir please ilam aroz p bath kar la