علامہ اقبال کا تصور خودی اور اس کی اہمیت
آج سے ٹھیک ایک صدی پہلے یعنی بیسویں صدی کے پہلے سال اقبال کی شاعری عوام کے سامنے آنے لگی ۔ اگر علامہ اقبال کی شاعری کی بات کی جائے تو 37 برسوں کا یہ شعری سفر کم از کم ایک جہان معنی پر پھیلا ہوا ہے۔
اردو اور فارسی دونوں زبانوں میں کوئی شاعر تنوع افکار اور ثروت تصورات میں اقبال کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔
موضوعات کی فہرست
فلسفہ جدید اور فلسفہ قدیم تصوف اسلامی اور غیر اسلامی کے تمام انواع مذاہب عالم کے گوناگوں تصورات معاشرتی سیاسی اور اخلاقی مسائل فکر اور عمل کے تمام قدیم اور جدید تحریکات ان تمام چیزوں کو اقبال نے اپنی شاعری کے غم میں غوطہ دے کر انسانوں کے سامنے پیش کیا ہے۔
(رومی نطفے اور اقبال۔ خلیفہ عبدالحکیم)
مقام اقبال کے تعین کے لیے ابھی یہ صرف نصف مطالعہ ہے۔ اقبال کے فکر کی پیشکش جس شاعرانہ ہنر اور اسلوب میں سے کی گئی، اس کا مطالعہ تو حیرت اندر حیرت کی کیفیات لئے ہوئے ہے کہ لفظ و معنی کا یہ دروبست بھی تازہ ہے ،لفظ کے استعمال کی یہ سطح بھی نئی اور تشکیل لفظی کی یہ صورت بھی اچھوتی ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اقبال کا تصور خودی از ڈاکٹر غلام عمر | pdf
اقبال صاحب پیغام شاعر ہیں اور ان کے پیغام یا فلسفے کی کنجی ان کا تصور خودی ہے، اگرچہ اقتصادیات پر ان کی کتاب شروع ہی میں یعنی 1904 ء ہی میں چھپ چکی تھی پھر بھی 1922ء میں پڑھی گئی ان کی نظم خضر راہ ہی سے ان کی شاعری کا معاشی پیغام اعلان میں آتا ہے بلکہ جب کہ عزیز احمد نے کہا ” اقبال کی شاعری کا انقلابی دور شروع ہو جاتا ہے” خودی کا تصور بھی ان کے ہاں آغاز ہی سے ملنے لگتا ہے جب انہوں نے کہا کہ اقبال بھی اقبال سے آگاہ نہیں ہے تو خود آگاہی ان کا تب بھی سوال تھا تاہم پوری ترتیب کے ساتھ یہ تصور ان کی کتاب اسرار خودی میں ظاہر ہوا۔
یہ بھی پڑھیں: خودی کی تربیت کے مدارج
ڈاکٹرسیدعابدحسین کہتے ہیں کہ” خودی کا تصور اقبال کے فلسفہ حیات و کائنات کی بنیاد ہے "اکثر لکھنے والوں مثلاً مولانا صلاح الدین احمد عبد المجید سالک اور قاضی محمد ظریف وغیرہ نے سادہ لفظوں میں خودی کو انسان کا وہ جو ہر ذاتی قرار دیا ہے جو ایک طرف ہر فرد کی خصوصی پہچان بنتا ہے اور دوسری طرف اس کی قوت عمل ۔
خالق کا ئنات نے ہر انسان کو دوسرے سے مختلف جو ہر ذات عطا کیا ہے۔ طبائع سے شخصیت تک انسانی اختلاف اور رنگارنگی اتنا پھیلاؤ رکھتے ہیں کہ روز اول سے آج تک کوئی دو انسان ایسے نہیں گزرے جن کے انگوٹھوں کے نشان ایک سے رہے ہوں ۔
اس خالق حکیم کی بخشی ہوئی اس بو قلمونی نے ہر کسی کو ایک خاص صلاحیت خاص توفیق اور خاص جوہر سے نوازا اسی جوہر کی پہچان خود شناسی ہے۔ اس جو ہر کو ترقی دینا گویا اپنی پوری توفیق اور تمام صلاحیت کار کو بروئے عمل لے آنا ہے۔ اقبال کا تصور خودی اسی جو ہر کی تربیت اور پھر اس کی نمود پر زور دیتا ۔ ہے۔ افراد کی خودی کو آگے چل کر اپنی قوم کی مجموعی خودی کا حصہ بنا ہوتا ہے جسے اقبال بے خودی کہتے ہیں۔
بے خودی سے ہی معاشرتی اتحاد اور قومی مزاج کی شکل بنتی ہے۔ سب اقوام اپنی خودی ہی کی نمود سے اپنی شناخت پاتی ہیں۔ خودی کا یہ تصور اگر 1940ء میں برصغیر کے مسلمانوں کی خصوصی پہچان کے کام آیا تھا تو آج اس خودشناسی کی ضرورت ان ساری اقوام کو ہے جنہیں مغربی کلچر کی شدید ترین یلغار نے اپنی پہچان سے محروم کر دینے کا عملاً آغاز کر دیا ہے۔ خودی ہر قوم کی ضرورت ہے اور ہر عہد اس کی اہمیت پہلے سے بڑھ کر پائے گا۔
اقبال نے قومی زوال کو دیکھا تو سوچا کہ یہ انا (میں ) یا خودی جو اپنے عمل کی رو سے ظاہر اور نمایاں ہے مگر اپنی حقیقت میں چھپی ہوئی پستی ہے ،کیا شے ہے؟ کیا یہ ایک لازوال صداقت ہے یا زندگی کا اوڑھا ہوا کوئی لبادہ ہے؟ مشرقی دانشوروں نے ہستی ہی کو دھو کہ سمجھ رکھا تھا ۔ شعور کو کہاں گردانتے خودی کو کیا سمجھتے ؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
نام۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔نمرہ سخی ۔۔۔۔۔۔۔
حواشی
کتاب کا نام: علامہ اقبال کا خصوصی مطالعہ،کوڈ: 5613،صفحہ: 23 تا 24،موضوع: علامہ اقبال کا تصور خودی،مرتب کردہ: ثمینہ شیخ
Khodai ko kar Boland ITNA kh har taqder sa phla
Hkoda banda sa hkoda pocha bata Tere raza kaya hai