ناصر کاظمی کا تعارف اور شاعری کا جائزہ
ناصر کاظمی کا تعارف اور شاعری کا جائزہ | Introduction to Naseer Kazmi and an Overview of his Poetry
ناصر کاظمی کا تعارف اور سوانحی حالات
انبالہ ایک شہر تھا سنتے ہیں اب بھی ہے
میں ہوں اسی لوٹے ہوئے قریے کی روشنی
امبالا میں پیدا ہونے والے شاعر کا نام سید ناصر سلطان تخلص ناصر اور ناصر کاظمی کے نام سے شہرت پائی ابتدائی تعلیم انبالہ سے حاصل کی اسلامیہ کالج لاہور سے ایف اے کا امتحان پاس کیا اور 1947 میں ہجرت کر کے ہمیشہ ہمیشہ کے لیے پاکستان اگئے ہم لوگ ،،اوراق،، اور ہمایوں ،،کے مدیر رہے جبکہ ریڈیو پاکستان میں بھی ملازم رہےـ
یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی کی غزل میں وطن دوستی
ناظر کاظمی اداس لہجے کے باوکار شاعر ہیں ان کی شاعری میں ان کے داخلی اور خارجی دکھوں کی داستان ہے وہ مختصر بہر میں اپنے غم کو اس طرح بیان کرتے ہیں کہ قاری کے دل میں بھی وہ غم پناہ گزیر ہو جاتا ہے
اور وہ ان غموں سے ایک حلاوت محسوس کرتے ہیں تقسیم پاک و ہند کے بعد جس طرح معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا افرا تفری اور نفسا نفسی کا عالم دیکھا انہوں نے ان تمام حالات کو نوحہ اپنے اشعار میں لکھا ہے
وہ وہ شعر لکھتے وقت اپنے ساتھ ساتھ قاری کو بھی غم کی گہرائی میں لے جاتے ہیں ان کی دل سوزی درد مندی اداسی اور محرومی نے ان کی غزل کو میر کی غزل سے مشابہت عطا کی ہے قیام پاکستان کے بعد غزل کے احیاء میں ناصر کاظمی کا حصہ نمایاں ہے۔
موضوعات کے تنوع اور لہجوں کے اعتبار سے ناصر کاظمی اپنے ہم عصروں سے منفرد مقام رکھتے ہیں اور اج کی غزل کے بہشتر رویے ناصر کی جدت فکر کی مرہون منت ہے
ان کے مجموعہ کلام برگ فے،،دیوان پہلی بارش،،نشاط نشاط خواب،،سر کی چھایا کے علاوہ کلیات ناصر بھی شائع ہو چکی ہے۔
2 مارچ 1972 میں سرطان کے موزی مرض کی وجہ سے انتقال کر گئے۔
ناصر کیا کہتا پھرتا ہے کچھ نہ سنو تو بہتر ہے
دیوانہ ہے دیوانے کے منہ نہ لگو تو
یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی کی شاعری کا تحقیقی و تنقیدی جائزہ | مقالہ pdf
ناصر کاظمی کی شاعری کا جائزہ
ناصر کاظمی کا شمار اردو کے ان اہم جدید شعرا میں ہوتا ہے جنہوں نے اردو ادب کو ایک نئی راہ متعین کی اور روایتی موضوعات کی مدد سے اردو شاعری میں نئے موضوعات کو ایک الگ ڈھنگ سے بیان کیا۔
یہ بھی پڑھیں: برگ نے از ناصر کاظمی
ناصر کاظمی کی شاعری کا فکری جائزہ
ناصر کاظمی میر ثانی
ناصر کاظمی کی شاعری کا اگر ہم جائزہ لیتے ہیں تو ان کی شاعری میں حزن و ملال کے عناصر بڑی شدت سے ملتے ہیں وہ ماضی کو یاد کرتے ہیں۔
لیکن ان کی شاعری کو پڑھنے کے بعد ہمیں ان کے قنوطی ہونے کا احساس نہیں ہوتا بلکہ وہ بلند حوصلگی کے ساتھ ماضی کو یاد کرتے ہیں ان کے غم میں ایک طرح کی مردانگی پائی جاتی ہے جس طرح درد و غم اور ماضی کی یاد میر تقی میر کے ہاں ہمیں ملتی ہے بالکل وہی انداز ہمیں ناصر کاظمی کے ہاں بھی نظر اتا ہے ان کو میر ثانی بھی کہا جائے تو یہ بے جا نہیں ہے
ناصر ہم کو رات ملا تھا تنہا اور اداس
وہی پرانی باتیں اس کی وہی پرانا روک
بھول بھی جاؤ بیتی باتیں
ان باتوں میں کیا رکھا ہے
چپ چپ کیوں رہتے ہو ناصر
یہ کیا روگ لگا رکھا ہے
ناصر کاظمی کی شاعری میں حسن و عشق
ناصر کاظمی جس طرح حزن و ملال کے شاعر ہیں بالکل اسی شدت کے ساتھ ان کے ہاں ہمیں حسن و عشق کے جذبات پہ ملتے ہیں وہ اپنے محبوب کی خوبصورتی کو بیان کرتے ہیں اور کبھی اسے سورج کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں تو کبھی ہواؤں کی تیز رفتاری کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں وہ اپنے محبوب سے محبت کرتے ہیں اور اس کی بے وفائی کو بھی شدت سے محسوس کرتے ہیں
دل میں اور تو کیا رکھا ہے
تیرا درد چھپا رکھا ہے
اداسی، تنہائی، درد، ہجر و فراق
ناصر کے کلام میں بکثرت ملتی ہے
ذندگی کی مشکلات کے لیے وہ دھوپ کو بطور علامت استعمال کرتے ہیں
شعر….
یوں کس طرح کٹے گا کڑی دھوپ کا سفر
سر پر خیال یار کی چادر ہی لے چلے
دھوپ سے چہروں نے دنیا میں
کیا کیا اندھیر مچا رکھا ہے
ناصر کاظمی کی شاعری میں شہر لاہور کا ذکر
ناصر شہر لاہور کو بہت پسند کرتے تھے. شہر کی رونقوں کو کلیوں کی خوشبو کی مانند قرار دیتے تھے
شعر:
شہر لاہور تیری رونقیں دائم آباد
تیری گلیوں کی ہوا کھینچ لائی مجھکو
ناصر کاظمی کی شاعری کے موضوعات کی فہرست
ناصر کاظمی کی شاعری کے موضوعات
1۔حسن و عشق
2۔حزن و غم
3۔ماضی کی یاد
4۔داخلیت اور خارجیت
5۔قنوطیت کی بجائے رجائیت
یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی کی شاعری میں ہجرت کا کرب pdf
ناصر کاظمی کی شاعری کا فنی جائزہ
1۔استعارات و تشبیہ
2۔سادگی و سلاست
3۔چھوٹی اور لمبی بحروں کا استعمال
4۔غزل اور نظم پہ کلام
5۔تلمیحات کا استعال
تشبیہات و استعارات
فنی اعتبار سے اگر ناصر کاظمی کی شاعری کا جائزہ لیا جائے تو ان کی شاعری میں عمدہ تشبیہات و استعارات کا استعمال ہمیں ملتا ہے جس طرح وہ چھوٹی بہر کے شاعر ہیں اسی طرح ان کے ہاں کہیں کہیں لمبی بحروں کا اس طرز کے ساتھ استعمال ہمیں ملتا ہے کہ ان کے ہمعصر شعراء میں اس طرح کی طرز ہمیں بہت کم دیکھنے کو ملتی ہے
بھٹکتا پھرتا ہوں میں دیر سے یونہی شہر شہر نگر نگر
کہاں کھو گیا میرا قافلہ کہاں رہ گئے میرے ہمسفر
ناصر کے کلام میں سادگی بھی ہے اور سیاست اور روانی
شعر:
گئے دنوں کا سراغ لے کر کدھر سے آیا کدھر گیا وہ
عجیب مانوس اجنبی تھا مجھے تو حیراں کر گیا وہ
چھوٹی بحر کا استعمال
ناصر کاظمی نے اپنی شاعری میں لمبی بحر کے ساتھ ساتھ چھوٹی بحر کا استعمال بھی کیا ہے چھوٹی بحر کو استعمال کرتے ہوئے غزل کو مترنم بنانا ناصر کاظمی کا خاصہ ہے
شعر ملاحظہ ہو
دِل میں اِک لہر سی اٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
غزل کی مثال
دل دھڑکنے کا سبب یاد آیا
وہ تری یاد تھی اب یاد آیا
آج مشکل تھا سنبھلنا اے دوست
تو مصیبت میں عجب یاد آیا
دن گزارا تھا بڑی مشکل سے
پھر تیرا وعدہ شب یاد آیا
تیرا بھولا ہوا پیماِن وفا
مر رہیں گے اگر اب یاد آیا
پھر کئی لوگ نظر سے گزرے
پھر کوئی شہر طرب یاد آیا
حاِل دل ہم بھی ُسناتے لیکن
جب وہ ُرخصت ہوا تب یاد آیا
بیٹھ کر سایہ ُگل میں ناصر
ہم بہت روئے وہ جب یاد آیا
ناصر کی شاعری میں علامت نگاری پائی جاتی ہے
یہ بھی پڑھیں: ناصر کاظمی کی شاعری میں اداسی، تنہائی اور سماجی مساوات
خلاصہ
مجموعی طور پر میں یہ کہہ سکتا ہوں کہ ناصر کاظمی کی شاعری روایتی طرز کی شاعری بھی ہے اور ایک نئی طرز بھی لیے ہوئے ہے ان کی شاعری فنی اعتبار سے کامیاب اور موضوعات کے حوالے سے نہایت عمدہ ہے ان کے فن کے نمونے نایاب نہیں تو کم یاب ضرور ہے۔
ناصر کاظمی کب اور کہا پیدا ہوئیں؟
ناصر کاظمی 1925 کو امبالہ میں پیدا ہوئے ۔
کس کو چھوٹے بحروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے؟
ناصر کاظمی کو چھوٹے بحروں کا بادشاہ کہا جاتا ہے۔
میر ثانی کس شاعر کو کہا جاتا ہے ؟
ناصر کاظمی کو میر ثانی کہا جاتا ہے ۔
ناصر کاظمی کو کیوں میر ثانی کہا جاتا ہے؟
ناصر کاظمی کو اپنی شاعری دوکھ درد بیان کرنے کی وجہ سے میر ثانی کہا جاتا ہے۔
ناصر کاظمی کی شاعری کا سب سے بڑا حوالہ کیا ہے؟
دکھ درد ناصر کاظمی کی شاعری کا سب سے بڑا حوالہ ہے۔
ناصر کاظمی کس تحریک سے وابستہ تھے؟
ناصر کاظمی حلقہ ارباب ذوق کے ساتھ منسلک رہے ہیں اس لیے ان کی غزلوں میں انفرادیت کا عنصر بھی خوب ملتا ہے۔
ان کا مجموعہ کلام پہلی بارش میں کتنی غزلیں شامل ہیں؟
جو ان کی پہلی بارش ہے وہ 24 غزلوں کا مجموعہ ہے
ناصر کاظمی کے چھوٹے بحروں والے اشعار سے مثال؟
رات کے خالی اسٹیشن پر
کوئی مسافر اترا ہو گا
پہلی بارش ۔۔۔۔ فعلن فعلن فعلن فعلن ۔۔۔بحر متدارک ۔۔۔۔
بشکریہ
جناب سانول رمضان،مریم اشرف،عبد الرحمان، عمر،انیس،سرفراز بھٹی اور پرنسسز
پروفیسر آف اردو وٹسپ کمیونٹی کے سرگرم اراکین۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں