انشائیہ کی تعریف اور مبادیات | Inshaiya ki Tareef aur Mabadiyat
تحریر: پروفیسر ڈاکٹر شعیب علی، علی گڑھ مسلم یونیورسٹی علی گڑھ
موضوعات کی فہرست
کچھ اس تحریر کے بارے میں:
- کسی بھی صنف کو ادب کے اندر انفرادی حیثیت دینا یا اس کے خدو خال کا احاطہ کرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس صنف کی کوئی مخصوص تعریف متعین نہ ہو جائے۔۔۔
- انشائیہ کی جامع و مانع تعریف میں متعد ناقدین نے اپنی اپنی مختلف آراء کو اس کثرت سے پیش کیا کہ انشائیہ کا تصور مزید پیچیدہ ہو گیا۔۔۔
- احتشام حسین کا خود اصرار کرنا کہ انشائیہ کا تصور ذہن میں ہونے کے بعد بھی وہ اس کی تعریف کو لفظوں میں قید نہیں کر پاتے ۔۔۔۔
- (وزیر آغا) بعض ستم ظریفوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انشائیہ ام الاصناف ہے۔۔۔۔۔
- انشائیہ عربی لفظ انشاء سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی فرہنگ آصفیہ میں حسب ذیل ہیں۔۔۔
انشائیہ کی تعریفات
کسی بھی صنف کو ادب کے اندر انفرادی حیثیت دینا یا اس کے خدو خال کا احاطہ کرنا تب تک ممکن نہیں ہوتا جب تک اس صنف کی کوئی مخصوص تعریف متعین نہ ہو جائے کیوں کہ مخصوص تعریف سے ہی اس صنف کی شناخت اور تمیز کے بعد ادب میں اس کو ایک منفرد صنف کا درجہ دیا جاتا ہے۔
لیکن جب کوئی ایسی ادبی صنف وجود میں آتی ہے جس میں متعدد خوبیوں کے عناصر موجود ہوتے ہیں نیز جس کا ہر عصر اس ادبی صنف کا بنیادی جزو ہوتا ہے تو ایسی صنف کی ایک مکمل تعریف کا تعین کرنا ایک دشوار عمل ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: اردو میں انشائیہ نگاری
انشائیہ اسی طرح کی صنف ہے جو مغربی ادب کے زیر اثر اردو ادب میں داخل تو ہو گئی مگر مغربی ادب کی طرح مشرقی ادب میں بھی اپنی جامع و مانع تعریف کا تعین کرنے میں اب تک ناکام رہی ۔
انشائیہ کی جامع و مانع تعریف میں متعد ناقدین نے اپنی اپنی مختلف آراء کو اس کثرت سے پیش کیا کہ انشائیہ کا تصور مزید پیچیدہ ہو گیا۔
بقول احمد جمال پاشا کہ :
"انشائیہ کی اصطلاح کثرت تعبیر سے ایک خواب پریشاں بن گئی ۔”
اب انشائیہ کے زمرے میں کی گئی ان درج ذیل تعریفوں کا مطالعہ کرتے ہیں جو اس صنف کے تصور کو واضح کرنے کے لیے مختلف ادباء اور ناقدین نے پیش کی ہیں۔
سب سے پہلے انسائیکلو پیڈیا برٹینکا میں دیے ہوئے Essay کے اصطلاحی مفہوم پر نظر ڈالتے ہیں کیوں کہ مغربی ادب میں اس صنف کو پہلے Essay کے ہی زمرے میں رکھا گیا
لیکن اس کے اندر موجود مختلف عناصر کی خصوصیات کو دیکھ کر اس کو منفر د صنف کا درجہ دینے کے لیے Personal essay یا Light Essay کا نام دیا گیا۔
انشائیہ مغربی ناقدین کی نظر میں
"Essay a literary composition of moderate lenght, dealing in an easy cursory way with a single subject usually representing the writers personal experience and out look.”
انشائیہ کی تعریف میں مغربی ادباء اور ناقدین کے مختلف خیالات ملاحظہ ہوں۔
بقول جارج سینٹ بری:
"After dinner monologue of an interesting and well informed man.”
بموجب جارج سینٹ بری کے انشائیہ ایک ایسے آدمی کی تحریر ہے جو بہت دلچسپ اور بہترین معلومات کا ذخیرہ رکھتی ہے
اور جس کی گفتگو کا انداز ایسا پرلطف اور شائستہ ہو جو عام طور پر کھانے کے بعد ایک مزہ کن بات چیت کا ہوتا ہے۔
یہ بھی پڑھیں: انشائیہ کی بنیاد از سلیم اختر | pdf
یعنی انشائیہ وہ صنف ہے جس میں پر لطف واقعہ اس دلچسپ انداز میں بیان کیا گیا ہو کہ پڑھ کر مزہ آنے کے ساتھ ساتھ عمدہ معلومات بھی فراہم ہو۔
جانسن کے خیال میں انشائیہ:
"An essay is a loose sally of the mind an irregular undigested piece not a regular and oderly composition”
جانسن کے نزدیک انشائیہ ایک ایسے آزاد ذہن کی پیدا وار ہے جو بے قاعدہ اور غیر منظم طرز سے اپنے اظہار خیال کو تحریر کرتا ہے
جس کا مقصد فکر زندگی سے آزاد ہوکر تحریر تازگی کی سوچ میں غوطہ لگانا ہے۔
یعنی انشائیہ وہ طرز تحریر ہے جس میں انوکھا پن ہو اور انداز بیان اس بے لگام گھوڑے کی طرح ہو۔ جو اپنی مرضی سے کہیں بھی آجا سکتا ہے اور انشائیہ نگار بھی ایسے ہی بے لگام گھوڑے کی طرح ہوتا ہے
کہ جو بھی ذہن میں آجائے ایک دلکش انداز میں لکھتا چلا جاتا ہے نہ تو اس کو افسانے اور ناول نگار کی طرح پلاٹ کی فکر ہوتی ہے اور نہ ہی شاعری کی طرح ردیف و قافیوں کی بندش ہوتی ہے۔
ڈبلیو ۔ ایم ہڈسن انشائیہ کی تعریف میں کہتے ہیں کہ:
"The central fact of the true essay, indeed, is the direct play of the author’s mind and character upon the matter of his discourse.”
ڈبلیو ایم، ہڈسن کے مطابق اصل انشائیہ وہ ہے جس سے فنکار یا انشائیہ نگار کا ذہن اور اس کی شخصیت پوری طرح سے قاری پر روشناس ہو جائے کہ وہ کائنات کی چیزوں کو کسی نظریہ سے دیکھتا ہے
اور ہمارے سامنے ان اشیاء کے کون کون سے پہلوؤں کو ظاہر کرتا ہے۔ ہڈسن کے نزدیک یہی انشائیہ کی بنیادی صفت بھی ہے۔
مزید یہ بھی پڑھیں: وزیر آغا کی انشائیہ نگاری pdf
ہاؤسٹن پیٹرسن کے مطابق تعریف انشائیہ بھی دیکھیے :
"ایسے Essay کا مطلب تحریر کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوگا جس میں کسی بھی موضوع سے بحث کی گئی ہو مگر شخصی، غیر رسمی اور غیر مصنوعی انداز میں ۔
ایسے مفکرانہ ہو گا لیکن سنجیدہ نہیں۔ وہ فلسفے سے قریب تر ہو گا لیکن فلسفے کی طرح با قاعدہ نہیں۔
اس میں ایک قسم کی ڈھیلی ڈھالی وحدت ہوگی۔ اس میں اصل موضوع سے مسرت بخش انحراف بھی ہوگا۔
وہ ہمیں مصنف کی رائے سے اتفاق کی ترغیب دے سکتا ہے لیکن وہ ہمیں اتفاق رائے پر مجبور نہ کرے گا۔ "ایسے اسٹ” چاہے اور جو کچھ بھی ہو، وہ ہمارا دوست اور لفظوں کا فن کار ہوگا۔”
پیٹرسن کے نزدیک انشائیہ وہ مختصر تحریر ہے جس میں موضوع کی کوئی قید نہیں اور جس میں مروجہ روایت کے برعکس کوئی بھی واقعہ پیش کرنے کی گنجائش ہوتی ہے۔
پیٹرسن، جانسن کی رائے سے اتفاق نہ رکھتے ہوئے یہ بھی کہتے ہیں کہ اس میں زندگی کی فکر تو ہوگی مگر سنجیدہ طور پر نہیں ۔
اس کے علاوہ ان کا کہنا ہے کہ انشائیہ کی تحریر فلسفے سے قریب تو ہوگی مگر فلسفے کی طرح مسلم نہیں ہوگی۔
اس میں ہلکی پھلکی وحدانیت ہوگی اور خوش آمیز ہو کر موضوع سے الگ بات کی گئی ہوگی ۔ ا
تنا ہی نہیں بلکہ مصنف نرم لہجہ کے ساتھ اپنی رائے سے اتفاق کرنے کی ترغیب بھی دیتا ہے مگر اس رائے پر اتفاق کرنے پر مجبور نہیں کرتا۔
اس کا ماننا ہے کہ انشائیہ نگار ہمارا ایسا ساتھی ہے جو لفظوں کا ایسا ہنر جانتا ہے کہ جس کی تحریر سے ہم فوراً تازہ دم ہو جاتے ہیں۔
اور لفظوں کا فنکار ہوگا۔
بموجب ڈبلیو ۔ای ۔ ولیم کے:
"انشائیہ عام طور پر ایک چھوٹا سا ٹکڑا ہوتا ہے تا ہم انشائیہ نگار نکتہ آفرینی کے لیے کسی چھوٹے سے واقعے کو بھی استعمال کر سکتا ہے اور اپنے زاویہ خیال کی تمثیلی وضاحت کے لیے ناول سے ایک ورق لے کر اس سے کردار بھی تخلیق کر سکتا ہے
لیکن واضح رہے کہ انشائیہ نگار کا بڑا مقصد کہانی کی پیشکش نہیں بلکہ انشائیہ نگار معاشرے کا فیلسوف، ناقد اور حاشیہ نگار ہے۔”
مذکورہ بالا تعریف میں پیٹرسن کی طرح ڈبلیو ای ولیم بھی اس بات سے اتفاق رکھتے ہیں کہ انشائیہ ایک مختصر تحریر ہے
اور ایسی تحریر ہے جس میں نکتہ آفرینی کے لیے انشائیہ نگار کسی چھوٹے سے واقعے کو بھی پیش کر سکتا ہے اور اگر وہ واقعہ تمثیلی ہے تو اس کی وضاحت کے لیے ناول کی طرح کردار بھی تخلیق کر سکتا ہے
لیکن انشائیہ نگار کو اس بات کا بھی خیال رکھنا ہوتا ہے کہ وہ جو بھی واقعہ پیش کرے اس کو پڑھ کر یہ محسوس نہ ہو کہ وہ صرف ایک کہانی ہے بلکہ اس واقعہ کے ذریعہ معاشرے کی اصلاح مقصود ہو ۔
ایف ایچ پر پیچرڈ کے خیال میں :
"دوسری اصناف کے مقابلے میں ایسے Essay متوازن فکر کا عمدہ حاصل ہے۔ اس میں ہلکی سی بے اطمینانی اور ناموجود کو موجود سے دریافت کرنے کی آرزو ملتی ہے۔
ایسے کی سعیی پارہ پارہ او مختصر ہے۔ لیکن یہ ہمیشہ خلوص سے معمور ہوتی ہے اور موضوع کو ذات کے حوالے سے
پیش کرتی ہے ۔ "
پریچرڈ، پیٹرسن کی اس رائے سے اتفاق رکھتے ہیں کہ انشائیہ میں غور وفکر کا عنصر دیگر اصناف کے بالمقابل زیادہ عمدہ اور متوازن شکل میں ہوتا ہے،
جس میں ہلکی سی بے چینی ہوتی ہے اور مرئی شے سے غیر مرئی شے کی تخلیق کر کے اس پر غور و فکر کرنے کا کام قاری کے سپرد کر دیا جاتا ہے۔
اس میں اظہار خیال کو اختصار کے ساتھ پیش کیا جاتا ہے۔
مشرق میں انشائیہ کی تعریفات
مشرقی ادب میں تعریف انشائیہ کے ضمن میں جو آراء اور خیالات موجود ہیں وہ قدرے مختلف ہیں۔
انشائیہ عربی لفظ انشاء سے مشتق ہے جس کے لغوی معنی فرہنگ آصفیہ میں حسب ذیل ہیں:
(1) کچھ بات دل سے پیدا کرنا۔
(۲) عبارت تحریر
(۳) علم معانی و بیان ، صنائع ، خوبی، عبارت ، طرز تحریر۔
(۴) وہ کتاب جس میں خط و کتابت سکھانے کے واسطے ہر قسم کے خطوط جمع ہوں۔
(۵) لیٹر بک ، چٹھیوں کی کتاب ۔
ارد لغت کراچی میں انشائیے کے اصطلاحی معنی حسب ذیل طرح سے دیے گئے ہیں:
(1) (نحو) وہ جملہ جس میں سچ جھوٹ کا احتمال نہ ہو ۔
جملہ دو قسم کا ہوتا ہے۔ خبر یہ اور انشائیہ۔
دوسرے وہ جس کو سچا یا جھوٹا نہ کہہ سکیں اس کا نام انشائیہ ہے۔
(۲) مختصر ادبی مضمون جس میں ذاتی تاثرات بیان کیے جائیں اور تحقیقی و استدلالی نہ ہو انگریزی ) Essay انشائیہ کی بحث میں عموماً شگفتگی کو طنز ومزاح کا مترادف تصور کر لیا جاتا ہے ۔ ۱۰
فیروز اللغات میں انشائیہ کا اصطلاحی مفہوم یہ ہے کہ:
( الف ) نحو کی اصطلاح میں وہ جملہ جس میں سچ جھوٹ کا احتمال نہ ہو۔
( ب ) غیر سنجیدہ مضمون۔
مشکور حسین یاد نے انشائیہ کو ام الاصناف ادب کہا ہے اور اس کی تعریف کچھ اس طرح کی ہے :
"انشائیہ کی تعریف لفظوں میں نہیں ہوا کرتی ۔ انشائیہ کی تعریف یا تو انشائیہ پڑھنا ہے یا انشائیہ لکھنا۔”
مندرجہ بالا قول سے مترشح ہوتا ہے کہ مشکور حسین یاد اس صنف کی تعریف کے بارے میں کوئی بحث ہی نہیں کرنا چاہتے
یا ان کے ذہن میں اس کا کوئی واضح تصور موجود نہیں ہے کیونکہ انشائیہ کو ام الاصناف ادب قرار دینے کے بعد یہ لفظ اپنے اندر وسعت اور لامحدودیت اختیار کر لیتا ہے ۔
حالانکہ وہ اس صنف کی انفرادیت کے قائل نہیں ہیں۔
مشکور حسین یاد کے برعکس وزیر آغا انشائیہ کے بارے میں اپنی رائے دیتے ہوئے لکھتے ہیں کہ:
"بعض ستم ظریفوں نے تو یہاں تک کہہ دیا کہ انشائیہ ام الاصناف ہے۔
اور اس لیے اس کے دائرے میں شاعری سے لے کر تنقید تک ہر قسم کی تحریر شامل کی جاسکتی ہے۔
کسی بھی صنف کو دریا برد کرنے کا یہ آسان ترین نسخہ ہے کہ اس کی حدود کو اس درجہ پھیلا دیا جائے کہ اپنا تشخص ہی باقی نہ رہے۔”
انشائیہ کو منفرد صنف خیال کرتے ہوئے مزید رقم طراز ہیں ۔
"غزل نظم اور افسانے کی طرح انشائیہ بھی ایک منفرد صنف ادب ہے اگر آپ لوگ دوسری اصناف ادب کی حدود کا تعین کرنے پر اصرار کرتے ہیں اور ان کو لامحدود ہونے سے بچاتے ہیں تو پھر کیا وجہ ہے کہ آپ انشائیہ کے ساتھ ہی غریب کی جور و والا سلوک روا رکھنے
پر مصر ہیں ؟”
اور انشائیہ کی شناخت کو واضح کرنے کے لیے اس کی تعریف یوں کرتے ہیں:
"انشائیہ اس صنف نثر کا نام ہے جس میں انشائیہ نگار اسلوب کی تازہ کاری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اشیا یا مظاہر کے مخفی مفاہیم کو کچھ اس طور پر گرفت میں لیتا ہے
کہ انسانی شعور اپنے مدار سے ایک قدم باہر آ کر ایک نئے مدار کو وجود میں لانے میں کامیاب ہو جاتا ہے۔” ۱۵
اگر مذکورہ بالا تعریف کا ذرا غور سے مطالعہ کیا جائے تو وزیر آغا، جانسن کی پیش کردہ انشائیہ کی تعریف سے استفادہ کرتے نظر آتے ہیں۔
جس میں تازگی کا بیان موجود ہے وہیں وہ ایچی، ریچرڈ کی اس رائے سے اتفاق کرتے نظر آتے ہیں جس میں ناموجود کو موجود سے دریافت کرنے کی آرزو ملتی ہے۔
نظیر صدیقی کے نزدیک :
"انشائیہ ادب کی وہ صنف ہے جس میں حکمت سے لے کر حماقت تک اور حماقت سے لے کر حکمت تک کی ساری منزلیں طے کی جاتی ہیں۔
یہ وہ صنف ادب ہے جس میں بے معنی باتوں میں معنی تلاش کیے جاتے ہیں اور بامعنی باتوں میں مہملیت اور مجہولیت اجاگر کی جاتی ہے۔
یہ وہ صنف ادب ہے جس میں عنوان اور نفس مضمون میں وہی نسبت ہے جو کھونٹی اور لباس میں ہے
یہ وہ صنف ادب ہے جس میں عنوان کا مضمون سے مربوط ہونا اتنا ضروری نہیں جتنا مضمون کا مضمون نگار سے متعلق ہونا ضروری ہے۔”
ڈاکٹر سلیم اختر انشائیہ کی تعریف میں لکھتے ہیں:
"بیدار ذہن کی حاصل تخلیقی شخصیت کی زندگی کے تنوع سے زندہ دلچسپی کے بامزا نثر میں مختصر اور لطیف اظہار کو انشائیہ قرار دیا جا سکتا ہے۔”
بقول پروفیسر سید محمد حسنین :
"انشائیہ ادب کی وہ کمین گاہ ہے جہاں قلم کار بیٹھ کر جس پر چاہے تیر چلا سکتا ہے اکرام و دشنام سے بے پروا ہو کر وہ ہر نام اور کام کی عظمت اور ذلت کا محاسبہ کر سکتا ہے۔
اپنی نابکاریوں کے اظہار و اشتہار پر ہم انشائیہ نگار پر کوئی قانونی دفعہ نہیں چلا سکتے کیوں کہ ادب کا یہی وہ گوشہ ہے جہاں قلم کار کو ہر طرح کے بیان کی چھوٹ ہے
یہ گفتار کا وہ غازی ہے جسے سات نہیں سینکڑوں خون معاف ہیں ۔” ۱۸
کلیم الدین احمد انشائیہ کی تعریف میں لکھتے ہیں :
"خط کی طرح انشائیہ بھی ایسی تلاش اور اپنی دریافت ہے جس میں انشائیہ نگار اپنے کردار کے پوشیدہ سر چشموں کو پالتا ہے
جس میں اس کی شخصیت کے متضاد عناصر ابھر آتے ہیں اور یہ بے جوڑ اور ہم آہنگی سے عاری نظر آتی ہے
وہ اپنی کمزوریوں اور خامیوں کو ابھارتا ہے اور اس طرح ان سے نجات پالیتا ہے
اس کا اصل موضوع اس کی شخصیت اور اس کی آزادی ہے کیونکہ دانش مند وہی ہے جو اپنی شخصیت کو پالے اور اپنی فطری آزادی کو ہاتھ سے جانے نہ دے۔”
مجموعی جائزہ
غور کیجئے مذکورہ بالا انشائیہ کی جتنی بھی تعریفوں کا مطالعہ کیا گیا ان میں سے کوئی بھی تعریف انشائیہ کی مکمل تعریف کرتے ہوئے نظر نہیں آتی ۔
چاہے وہ مغربی ادباء یا ناقدین کے ذریعہ کی گئی تعریف ہو یا مشرقی ری ادباء اور ناقدین کے ذریعے۔
کسی کے خیالات تو بالکل مختلف ہیں تو کسی کسی کے اظہار خیال میں تھوڑی بہت مماثلت اور اتفاق رائے شامل ہے
مگر مکمل طور پر انشائیے کا تصور کسی کی تعریف میں بھی نظر نہیں آتا۔
لیکن ہر ادیب اور نقاد اپنی بیان کی ہوئی تعریف کو جامع و مانع قرار دیتا ہے جبکہ ایسے ناقدین کے لیے احتشام حسین کا قول ہے کہ:
"میں خود ان مشرقی اور مغربی نقادوں کو شک کی نظر سے دیکھتا رہا ہوں جنھوں نے قطعیت کے ساتھ اس کی تعریف کی ہے اور اس کو صحیح اور مناسب ترین قرار دیا ہے۔”۲۰
احتشام حسین کے اس قول سے ظاہر ہوتا ہے کہ وہ کسی بھی مشرقی اور مغربی نقاد کی بیان کی ہوئی تعریف کو جامع ومانع ماننے سے انکار کرتے ہیں
اور خود بھی کوئی تعریف پیش کرنے کے بجائے یہ کہتے ہیں کہ :
"اس کا مقصد یہ بھی نہیں کہ میرے ذہن میں انشائیہ کا کوئی تصور ہی نہیں
یہ تصور کسی منطقی تعریف کی شکل میں نہیں ایک علمی تاثیر کی شکل میں میری ذہنی کرید کے افق پر جھلملاتا رہا ہے
اور جب میں اسے لفظوں میں
اسیر کرنا چاہتا ہوں تو وہ گرفت میں نہیں آتا ۔”
احتشام حسین کا خود اصرار کرنا کہ انشائیہ کا تصور ذہن میں ہونے کے بعد بھی وہ اس کی تعریف کو لفظوں میں قید نہیں کر پاتے ۔
اس سے ثابت ہوتا ہے کہ جس صنف میں بے شمار صفات مشترک ہوں اس کی جامع و مانع تعریف کو لفظوں کی گرفت میں لانا آسان عمل نہیں ۔
لیکن انشائیے کی پیش کی گئی تمام تعریفوں کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کیا جا سکتا ہے کہ انشائیہ اردو غیر افسانوی نثر کی وہ صنف ہے
جس میں انشائیہ نگار کسی بھی موضوع پر غیر رسمی طریق کار اور ایجاز واختصار کے ساتھ اپنے خیالات کو پُرلطف انداز میں تحریر
کر کے معمولی سی معمولی شے کو نئے زاویہ نظر سے پیش کرے اور مصنف اپنی شخصیت کو اجا گر کرتے ہوئے قاری کو عدم تکمیل کا احساس دلائیں ۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں