امتیاز علی تاج کی شخصیت اور ڈرامہ نگاری

امتیاز علی تاج تعارف و سوانح

امتیاز علی تاج 13 اکتوبر 1900ء میں لاہور میں پیدا ہوئے۔ آپ کے والد مولوی سید ممتاز علی اور والدہ محمدی بیگم بھی مضمون نگار اور مصنف تھے۔ امتیاز علی تاج نے ابتدائی تعلیم لاہور سے حاصل کی۔ ان کا زیادہ رجحان ڈرامہ کی طرف تھا ۔ وہ گورنمنٹ کالج لاہور کے ڈرامیٹک کلب کے سرگرم رکن منتخب ہوئے تھے۔

یہ بھی پڑھیں: امتیاز علی تاج کے طبع زاد ڈراموں کا فکری مطالعہ pdf

١٩٢٢ ء میں صرف بائیس برس کی عمر میں ڈرامہ (انار کلی ) لکھا ، جو اردو ڈراما کی تاریخ میں سنگ میل کی حیثیت رکھتا ہے۔ انہوں نے کئی ڈرامے اسٹیج ، فلم اور ریڈیو کے لیے تحریر کیے۔

اس کے علاوہ بچوں کے لیے بھی انہوں نے ڈرامے لکھے ،جن میں ایک جاسوسی سیریز انسپکٹر اشتیاق اور مشہور کریکٹر چچا چھکن ہیں۔ اس کے علاوه محاصرہ غرناطہ (ناول) اور ہیبت ناک افسانے بھی مشہور ہوئے۔ ان کے دیگر کامیاب ڈراموں میں ، آخری رات ، پرتھوی راج، گونگی، بازار حسن اور نکاح ثانی شامل ہیں

مجلس ترقی ادب اور امتیاز علی تاج: (ادبی خدمات و وفات)

امتیاز علی تاج طویل عرصہ مجلس ترقی ادب لاہور سے وابستہ رہے۔ یہاں آپ نے اردو ڈرامے کی تاریخ کو یکجا کرکے ١٦ جلدوں میں شائع کروایا۔ ان کے مرتب کردہ ڈراموں سے اردو ڈرامے کی پوری تاریخ محفوظ ہو گئی ہے۔ ان کو ان کی خدمات کے عوض ستاره امتیاز سے نوازا گیا۔ امتیاز علی تاج کا انتقال 1970ء میں ہوا۔

امتیاز علی تاج

ڈراما نگاری سامان ذوق و تسکین

انسان میں تماشا دیکھنے کا شوق فطری ہے اور ازل سے وہ اپنی معاشرتی زندگی میں ایسے مواقع فراہم کرتا رہا ہے جس سے وہ اس ذوق کی تسکین کر سکےـ

ڈرامائی ادب اور تھیٹر کا آغاز

ڈرامائی ادب اور تھیٹر کے باقاعدہ آغاز کا زمانہ قریباً پانچ سو سال قبل مسیح قرار دیا جاتا ہے اور اس دور میں یونان میں ڈرامے نے بہت ترقی کی اور بڑے بڑے ڈراما نگار پیدا ہوئے۔ اس کے بعد اہل یورپ نے بطور خاص ڈرامے کو اپنایا اور اس پر خصوصی توجہ دی۔

اردو ڈراما نگاری

مغرب کے مقابلے میں اردو میں ڈرامہ کم لکھا گیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ اردو ادب پر ابتدا میں تصوف کا اثر تھا اور ہمارے صوفیا نے اپنی مذہبی احتیاط پسندی کی بنا پر ڈرامے کی طرف توجہ نہ کی۔ اس کے علاوہ ہمارے ادب پر سب سے زیادہ اثر فارسی زبان وادب کا پڑا ،

چونکہ فارسی میں ڈراما نگاری کی روایت موجود نہ تھی اس لیے اردو میں بھی ڈراما نہیں لکھا گیا پھر یہ کہ درباروں کی سرپرستی بھی بالعموم شعراء ہی کے لیے مخصوص تھی اس لیے بھی ڈرامے کی حوصلہ افزائی نہیں ہوسکی۔

اردو ڈراما کا پہلا دور

اردو کا پہلا باقاعدہ ڈراما واجد علی شاہ نے 1858ء میں لکھا اس کا نام ” رادھا کنھیا” ہے اسی زمانے میں امانت لکھنوی نے اپنا ڈراما "اندر سبھا” لکھا۔ یہ اردو ڈرامے کا بلکل ابتدائی زمانہ تھا اور امید یہ تھی کہ واجد علی شاہ کی سر پرستی میں ڈراما ابھی اور ترقی کرے گا مگر سلطنت اودھ اپنے سیاسی زوال کا شکار ہو گئی اور واجد علی شاہ کو قید کرکے کلکتہ بھیج دیا گیا۔

دوسرا دور

اردو ڈرامے کا دوسرا دور بمبئی سے شروع ہوتا ہے۔ اسی دور کے ڈراما نگاروں میں احسن لکھنوی، بیتاب بنارسی اور طالب بنارسی قابل ذکر ہیں مگر اس دور میں سب سے زیادہ شہرت آغا حشر کاشمیری کو حاصل ہے۔

اس دور کے ڈرامے ایک تاریخی حیثیت کے تو ضرور حامل ہیں لیکن ادبی اور فنی اعتبار سے زیادہ بلند درجہ نہیں رکھتے اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں جن لوگوں نے سر پرستی کی انہیں ڈرامے کی ادبی حیثیت سے زیادہ دلچسپی نہیں تھی بلکہ انہوں نے ڈرامے کو تجارتی بنیادوں پر اپنایا تھا۔ ڈرامے کا یہ دور 1935ء تک قائم رہا۔

ڈرامے کا تیسرا دور

اس کے بعد ڈرامے کا تیسرا دور شروع ہوتا ہے۔ اس دور کے نمائندہ ڈراما نگاروں میں حکیم احمد شجاع ، سید امتیاز علی تاج ، آغا شاعر دہلوی وغیرہ قابل ذکر ہیں یہ وہ ڈراما نگار ہیں جنھوں نے قدیم تھیٹر روایات سے بھی فائدہ اٹھایا اور جدید انگریزی اور یورپی ڈرامے سے بھی واقفیت رکھتے تھے۔

چنانچہ انہوں نے جو ڈرامے لکھے ان میں قدیم اور جدید ڈرامے کی روایات کا اجتماع نظر آتا ہے۔ اس زمانے کے ڈرامے میں عشق و محبت کے علاوہ معاشرتی اور سماجی موضوعات پر بھی ڈرامے لکھے گئے اور زبان و بیان کے اعتبار سے بھی انہوں نے ڈرامے کے فروغ میں نمایاں کردار انجام دیا۔

اس حوالے سے جو ڈراما نگار سامنے آئے ہیں ان میں مرزا ادیب ، اپندر ناتھ اشک ، آغا بابر، خواجہ معین الدین اور اشفاق احمد کے نام ممتاز حثیت رکھتے ہیں

ڈراما ” انار کلی” کا خلاصہ

امتیاز علی تاج کا یہ ڈراما مغل بادشاہ شہنشاہ اکبر اعظم کے بیٹے شہزادہ سلیم اور شاہی محل کی ایک کنیز انار کلی کی داستان محبت ہے۔

ڈرامے کے آغاز ہی میں ہمیں معلوم ہو جاتا ہے کہ شہزادہ سلیم محل کی ایک کنیز نادرہ بیگم ( جسے اکبر نے انار کلی کا خطاب دے رکھا ہے) کی محبت میں مبتلا ہے اور ساتھ ہی یہ بھی پتہ چلتا ہے کہ انار کلی کے محل میں آ جانے سے ایک اور کنیز دل آرام کہ وہ بھی شہزادہ سلیم کو چاہتی ہے لیکن اب تک اسے اظہارِ جذبات کا کوئی موقع نہیں ملا ہے۔

دل آرام، انار کلی کے نا صرف عروج وعزت افزائی پر اس سے رشک اور حسد میں مبتلا ہو جاتی ہے بلکہ جب اسے یہ پتہ چلتا ہے کہ شہزادہ سلیم انار کلی کی طرف مائل ہے تو وہ انار کلی کو اپنی رقیب تصور کرتے ہوئے اس کے خلاف سازش کا ایک جال تیار کرتی ہے۔

اتفاق سے جشن نو کا سارا انتظام و اہتمام دلارام کے ہاتھ میں دیا گیا ہوتا ہے۔

اس جشن میں انار کلی کو بادشاہ کے حضور اپنے رقص و نغمہ کا مظاہرہ کرنا ہے۔ دلارام وہاں نشستوں اور آئینوں کی ترمیم اس طرح رکھتی ہے کہ بادشاہ شہزادے کی حرکات و سکنات شیشوں میں دیکھ سکے۔ جب انار کلی کے گانے کی باری آتی ہے تو دلارام پانی میں شراب ملا کر اسے پلا دیتی ہے اور فیض کی ایسی غزل منتخب کر کے اسے گانے کے لیے دیتی ہے

جس میں عاشق کی طرف سے محبوب کے لیے والہانہ جذبات محبت کا بیان ہے۔

انار کلی شراب کے سرور میں ماحول سے بے گانہ ہو جاتی ہے اور کچھ اس انداز سے نغمہ سرائی کرتی ہے گویا وہاں اس کے اور سلیم کے سوا کوئی نہیں ہے۔ اس کی اس کیفیت کو سب محسوس کرتے ہیں۔ سلیم انار کلی کو اشاروں سے منع کرتا ہے

اور دلارام یہی منظر اکبر کو آئینوں میں دکھا دیتی ہے جسے دیکھ کر اکبر غصے سے بے قابو ہو جاتا ہے اور انار کلی کو قید میں ڈالنے کا حکم دیتا ہے اکبر کو اس بات کا ملال ہے کہ سلیم نے ایک ادنی کنیز کو اپنا مرکز توجہ کیوں بنایا۔ ادھر دلارام اکبر سے حلفاً بیان کرتی ہے کہ اس نے سلیم اور انار کلی کو اپنے کانوں سے بادشاہ کے خلاف سازش کرتے ہوئے سنا ہے

اور یہ بھی کہ انار کلی سلیم کو اکبر کے خلاف اکساتی اور بغاوت پر آمادہ کرتی ہے اسی گفتگو کے دوران داروغہ زندان اکبر کے حضور بازیاب ہو کر شکایت کرتا ہے کہ سلیم نے بزور شمشیر انار کلی کو قید سے چھڑا لے جانا چاہا اور اسے بڑی مشکل سے اس سے باز رکھا جا سکا ۔ اکبر یہ بات سن کر اس قدر غضب ناک ہوتا ہے

کہ اسی وقت انار کلی کو زندہ دیوار میں چنوا دینے کا حکم صادر کرتا ہے اور اگلے دن صبح اسے زندہ دیوار میں چنوا دیتا ہے جب سلیم کو انار کلی کی موت کی خبر ملتی ہے تو وہ طیش کے عالم میں باہر جانا چاہتا ہے لیکن اسے بتایا جاتا ہے کہ وہ نظر بند ہے اور باہر نہیں جاسکتا اسی وقت دلارام سے اس کا سامنا ہوتا ہے اور انار کلی کی بہن ثریا اسے بتاتی ہے کہ دلارام ہی انار کلی کے قتل کی ذمہ دار ہے سلیم ایک عالم جنون میں اس کا گلا دبا دیتا ہے جب اکبر کو اس واقع کی اطلاح ہوتی ہے

تو وہ فوراً سلیم کے پاس پہنچتا ہے لیکن سلیم اسے پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے۔ اکبر لاکھ چاہتا ہے کہ وہ اسے باپ کہہ کر سینے سے لگ جائے لیکن سلیم اس پر آمادہ نہیں ہوتا۔ اکبر نہایت مایوسی اور شکست خوردگی کے عالم میں مسند پر بیٹھ جاتا ہے اور اس کی ماں اسے تسلی دیتی ہے اور اس کا سر اپنے سینے سے لگا لیتی ہے۔

ڈرامے کے کردار

جلال الدین اکبر؛ شہنشاہ ہند
سلیم: اکبر کا بیٹا، ولی عہد
بختیار؛ سلیم کا بے تکلف دوست
رانی؛ اکبر کی راجپوت بیوی سلیم کی ماں
انار کلی؛ حرم سرا میں اکبر کی منظورِ نظر کنیز
ثریا؛ انار کلی کی چھوٹی بہن
ماں؛ انارکلی اور ثریا کی ماں

دلارام؛ انار کلی سے پہلے اکبر کی منظورِ نظر کنیز
زعفران ؛ حرم سرا کی کنیز
ستارہ؛ کنیز
مروارید؛ کنیز
عنبر ؛ کنیز
خواجہ سرا؛ کافور
داروغہ زندان ، خواجہ سرا ، بیگمات وغیرہ

مقام؛ قلعہ لاہور

زمانہ 1599ء کا موسم بہار

حواشی

کتاب : بنیادی اردو
کورس کوڈ : 9001
مرتب کردہ : اقصٰی نواز
عنوان : سید امتیاز علی تاج
پروف ریڈنگ: وقار حسین

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں