ابن انشا کی سفرنامہ نگاری کی خصوصیات

ابن انشا کی سفرنامہ نگاری کی خصوصیات

ادبی اسلوب اور فکری گہرائی

ابن انشا کے بیشتر اسفار سرکاری نوعیت کی کانفرنسز کے باعث ممکن ہوئے۔ ان اسفار کی روداد ابتدا میں صحافتی ضرورت کے تحت لکھی گئی، لیکن انھیں جس شگفتہ اور دلکش اسلوب میں پیش کیا گیا، وہ اپنی مثال آپ ہے۔ پروفیسر فتح محمد ملک لکھتے ہیں:

"صحافتی اندازِ نظر کے بجائے فکری تازگی اور ادبی رکھ رکھاؤ بدرجہ اتم موجود ہے۔ ابن انشا کا گہرے، میٹھے طرز کا حامل اسلوب، شاداب اندازِ بیان اور انسان دوستی کا رچا ہوا شعور اس پر مستزاد ہے۔”
(فتح محمد ملک، اندازِ نظر، ص: 178)

یہ بھی پڑھیں: ابن انشا کے سفرنامے چلتے ہو تو چین کو چلیے کا ایک مطالعہ

شگفتہ اسلوب

ابن انشا کے سفرنامے شگفتہ اسلوب کے ساتھ معلوماتی مواد، تاریخی واقعات اور سوانحی عناصر کو بھی شامل رکھتے ہیں۔ انھوں نے بیانیہ انداز اپنایا، کہیں خطابیہ اسلوب اختیار کیا اور کہیں درویشانہ لہجہ اپنا کر داستانی رنگ کو دل فریب رعنائی عطا کی۔ ان تمام اندازوں سے وہ تحیر ابھارنے اور قاری کو ہم سفر بنانے میں کامیاب رہے۔

ان کے سفرناموں میں غیر ملکی تجربات کے ساتھ وطن کی یاد ہمہ وقت شامل رہتی ہے۔ ملکی و غیر ملکی عادات و اطوار پر رواں اور طنزیہ تبصرہ کرتے ہوئے وہ قاری کو چونکنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ ایک اقتباس ملاحظہ ہو:

"پانی ابال کر پیتے ہیں۔ موبل آئل وہاں گاڑیوں میں ڈالا جاتا ہے۔ اصلی بناسپتی گھی کہہ کر فروخت نہیں کیا جاتا۔ بھٹے کی اینٹیں بھی مکان بنانے کے کام آتی ہیں۔ ہلدی اور مرچ میں ملا کر ان سے تعمیرِ معدہ کا کام نہیں لیا جاتا۔ وہاں دودھ بھی گایوں اور بھینسوں کا ہوتا ہے۔ تالابوں یا کمیٹی کے ملکوں سے حاصل نہیں کیا جاتا۔ بسوں اور کاروں کے اختیارات بھی محدود ہیں۔ آپ اپنی بس کو فٹ پاتھ پر نہیں چڑھا سکتے نہ کسی مسافر کے اوپر سے گزار سکتے ہیں۔”
(ابن انشا، دنیا گول ہے، ص: 205-206)

یہ بھی پڑھیں: ابن انشاء کا انسائیکلوپیڈیا.pdf

طنز و مزاح کا انداز

ابن انشا کے ہاں طنز و مزاح سطحی نہیں بلکہ فکری گہرائی کا حامل ہے۔ وہ اپنے معاشرے پر تنقیدی نظر رکھتے ہیں۔ قاری ایک طرف ان کے جملوں پر مسکراتا ہے، تو دوسری جانب ایک خفیف سی چبھن بھی محسوس کرتا ہے۔

ڈاکٹر انور سدید لکھتے ہیں

"ابن انشا دوسرے ممالک کے معاشروں میں خیر و نیکی کی قدروں کی جستجو زیادہ کرتے ہیں، اور فرازِ تہذیب کا موازنہ جب استبذالی تمدن سے کرتے ہیں، تو اس تضاد سے ایک بے ساختہ مسکراہٹ کو جنم دے ڈالتے ہیں۔”
(ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب میں سفرنامہ، ص: 263)

منفرد تکنیک

ابن انشا نے اپنے مخصوص طنزیہ انداز، تقابلی جائزے، اور محاورات و ضرب الامثال کی نئی صورتوں کے ذریعے ایک نیا ذائقہ پیدا کیا۔ ایک مثال ملاحظہ ہو:

"ریل میں ہر نشست کے ساتھ چائے کا گلاس رکھنے کی جگہ ہے، کام کرتے جائیے اور ایک ایک گھونٹ چکھتے رہیے۔ تھوڑی دیر میں کوئی آئے گا اور اس میں مزید گرم پانی ڈال جائے گا۔ معلوم ہوا کہ اس سے معدے کا نظام درست رہتا ہے، جراثیم کا دفعیہ ہو جاتا ہے۔ کم خرچ بلکہ بے خرچ بالا نشین۔ ہم نے بھی کچھ دن پانی پیا، پھر چھوڑ دیا۔ کس برتے پر تھا پانی؟”
(ابن انشا، چلتے ہو تو چین کو چلیے، ص: 127)

منظر کشی اور جزئیات نگاری

ابن انشا کی تحریر میں جزئیات نگاری کا عنصر نمایاں ہے۔ وہ نہ صرف منظر کے ظاہری خدوخال بیان کرتے ہیں بلکہ اس کے تاریخی پس منظر کو بھی اجاگر کرتے ہیں۔ "دیوار چین” کے بارے میں وہ لکھتے ہیں:

"شہنشاہ اول چن شہ ہوانگ تی نے 214 ق.م میں ان کو مربوط کیا، ان پر برج بنائے اور دھوئیں کے سگنل دینے کا طریقہ رائج کیا، جو اس کے پایۂ تخت بیان سے نظر آ سکیں۔ چین والے اپنی زبان میں اسے دس ہزار میل لمبی دیوار کہتے ہیں لیکن فی الحقیقت یہ ڈیڑھ ہزار میل کے لگ بھگ ہے۔

کہیں یہ پندرہ فٹ اونچی ہے، کہیں پچاس فٹ۔ کچھ حصہ بڑی اینٹوں سے بنا ہے، کچھ پتھروں سے۔ امتدادِ زمانہ نے شکست و ریخت کا عمل کیا ہے، لیکن جہاں سے ہم نے اسے دیکھا، وہاں سڑک دیوار کو کاٹ کر نہیں بلکہ اس کے نیچے سے گزرتی ہے۔”
(ابن انشا، چلتے ہو تو چین کو چلیے، ص: 135)

ڈاکٹر انور سدید بجا طور پر کہتے ہیں:

"ابن انشا ایک ایسے بنجارے کے روپ میں سامنے آتے ہیں جو گرد و پیش پر بے گانہ روی سے نظر ڈالتا ہے، لیکن درحقیقت اس کی آنکھ اشیاء کے باطن کو ٹٹولتی ہے اور ہمیں ان کے ماضی و حال سے آشنا کرتی جاتی ہے۔”
(ڈاکٹر انور سدید، اردو ادب میں سفرنامہ، ص: 655)

پروف ریڈر:طیبہ

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں