مفت اردو ادب وٹسپ گروپ

اردو ادب وٹسپ گرپ میں شامل ہو کر روزانہ، پی ڈی ایف کتب اور اہم مواد تک رسائی حاصل کریں

جب ہٹلر ایک سنائپر کے نشانے پر تھا


جب ہٹلر ایک سنائپر کے نشانے پر تھا: تاریخ کا وہ لمحہ جو دنیا بدل سکتا تھا

تاریخ ایسے لمحات سے بھری پڑی ہے جہاں ایک چھوٹا سا فیصلہ، ایک گولی، یا ایک حکم پوری دنیا کا نقشہ بدل سکتا تھا۔ 1944 میں ایک ایسا ہی لمحہ آیا، جب دوسری جنگ عظیم اپنے عروج پر تھی اور ایڈولف ہٹلر کی زندگی ایک برطانوی سنائپر کی انگلی کے اشارے پر تھی۔ یہ وہ کہانی ہے جس نے اگر حقیقت کا روپ دھار لیا ہوتا تو شاید آج کی دنیا بالکل مختلف ہوتی۔

منصوبہ: ہٹلر کا شکار

سن 1944 میں، برطانوی خفیہ ایجنٹوں نے ایک انتہائی اہم اور حساس معلومات حاصل کی۔ انہیں ہٹلر کے روزمرہ کے معمولات کا پتہ چل گیا تھا۔ ہٹلر ہر صبح اپنے ہیڈکوارٹر کے قریب جنگل میں بنے ایک راستے پر اکیلا چہل قدمی کرتا تھا۔ یہ ایک ایسا موقع تھا جسے نظر انداز نہیں کیا جا سکتا تھا۔

اس معلومات کی بنیاد پر ایک سادہ مگر مہلک منصوبہ بنایا گیا:

  • ایک ماہر سنائپر کو خصوصی تربیت دی گئی۔
  • اسے ضروری اسلحے سے لیس کیا گیا۔
  • اور اسے خاموشی سے دشمن کی صفوں کے پیچھے اتار دیا گیا۔

سنائپر پوزیشن میں: تاریخ کا فیصلہ کن انتظار

وہ سنائپر اپنی جان خطرے میں ڈال کر کامیابی سے مقررہ مقام پر پہنچ گیا۔ درختوں کے سائے میں چھپ کر، اس کی نظریں اس جنگل کے راستے پر جمی تھیں اور اس کی انگلی ٹریگر پر تھی۔ وہ صرف ایک حکم کا منتظر تھا، ایک سگنل جو اسے تاریخ کا رخ موڑنے کی اجازت دیتا۔

ہٹلر اپنی عادت کے مطابق اسی راستے پر چلتا رہا، اس بات سے بالکل بے خبر کہ چند سو میٹر کے فاصلے پر موت اس کا انتظار کر رہی ہے۔

ایک فیصلہ جو نہ ہو سکا: برطانوی کمان کی ہچکچاہٹ

دن گزرتے گئے، لیکن لندن میں بیٹھی برطانوی کمان کی طرف سے حکم نہیں آیا۔ سنائپر انتظار کرتا رہا، لیکن کمان میں ایک عجیب ہچکچاہٹ پیدا ہو چکی تھی۔

ایک غیر متوقع خوف نے فیصلہ سازوں کو روک رکھا تھا:
انہیں ڈر تھا کہ اگر ہٹلر کو مار دیا گیا تو وہ نازیوں کے لیے ایک "شہید” بن جائے گا۔

ان کا ماننا تھا کہ ہٹلر کی موت نازیوں کو توڑنے کے بجائے شاید مزید جنون کے ساتھ متحد کر دے، جس سے جنگ مزید خوفناک اور طویل ہو سکتی تھی۔ وہ ایک ایسے شخص کو مار کر اسے امر نہیں کرنا چاہتے تھے جس نے دنیا کو تباہی کے دہانے پر پہنچا دیا تھا۔

ایک گولی جو نہ چلی: تاریخ کا ‘اگر مگر’

حکم کبھی نہیں آیا۔

کئی دن تک موت کے سائے میں انتظار کرنے کے بعد، وہ سنائپر ایک بھی گولی چلائے بغیر اپنی پوزیشن سے ہٹ گیا اور واپس چلا گیا۔ دوسری طرف، ہٹلر اپنی صبح کی سیر پر آتا رہا، اس بات سے بالکل بے خبر کہ کوئی اسے اپنے نشانے پر لیے ہوئے تھا اور اس کی زندگی کا فیصلہ لندن کے ایک کمرے میں کیا جا رہا تھا۔

یہ واقعہ ہمیں سوچنے پر مجبور کرتا ہے کہ کیا برطانوی کمان کا فیصلہ درست تھا؟ اگر وہ گولی چل جاتی تو کیا لاکھوں جانیں بچ جاتیں اور جنگ جلدی ختم ہو جاتی؟ یا کیا یہ ایک بڑی غلطی ہوتی جو نازیوں کو مزید خطرناک بنا دیتی؟ اس کا جواب ہمیشہ تاریخ کے "اگر مگر” میں ہی پوشیدہ رہے گا۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں