حضرت نوشہ گنج بخش
حضرت نوشہ گنج بخش یکم رمضان 959 ہجری بمطابق 21 اگست 1552 تحصیل پھالیہ ضلع گجرات کے ایک گاؤں گھوگا نوالی میں پیدا ہوئے ۔
موضوعات کی فہرست
نام حاجی محمد، لقب نوشہ اور خطاب گنج بخش بھورے والا تھا۔
والد سید علاء الدین الا نمازی قاری کے شاعر تھے۔ موضوع جاکو تارڑاں کے ایک مدرسے میں حافظ قائم دین قاری اور حافظ بڑھا قاری سے قرآن پاک حفظ کیا اور دینی کتابیں پڑھیں ۔
انتیس برس کی عمر میں سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ حضرت بھی سلیمان نوری کے ہاتھ پر بیعت کی۔
نوشہ گنج بخش نے اپنی ذہانت ، ریاضت اور خدمت کی بدولت مرشد کے دل میں گھر کر لیا چنانچہ جلدی ہی خلافت اور تبلیغ کی اجازت عطا ہو گئی ۔
مرشد کے حکم کے مطابق آپ نے دریائے چناب کے کنارے نوشہرہ تارژاں کو مرکز فیوض و برکات بنادیا۔
بعد میں ان کے ایک مرید نے ساہن پال کے قریب ایک نیا گاؤں آباد کیا، جس میں حضرت کے لئے مکان بنوایا چنانچہ نوشہ گنج بخش ، سائن پال منتقل ہو گئے اور وہیں ایک سو دو سال کی عمر میں 27 جنوری 1654ء میں وصال فرمایا۔
آپ نے اکبر، جہانگیر اور شاہ جہان کا زمانہ دیکھا ۔ آپ کے وعظ و تبلیغ کی بدولت بے شمار ہندو مشرف بہ اسلام ہوئے ۔
فرانسیسی مستشرق گارسان و تاسی نے خطبات ( جو 1866 ء کی تصنیف ہے ) اور پروفیسر نے پر بیجنگ آف اسلام ) میں آپ کی تبلیغ سے دو لاکھ ہندؤں کے مسلمان ہونے کی خبر دی ہے۔
آپ کی تصانیف میں پنجابی زبان کی کتاب مواعظ نوشہ پیر، اردو اور پنجابی کے مجموعہ ہائے کلام تنج شریف ، اردو تصانیف تنج الاسرار، لطائف الاشارات اور ذخائر الجواہر فی بصائر الزواہر کے علاوہ چہار، بہار، کلمات طیبات ، مکتوبات نوشه مقالات نوشہ کے فارسی مخلوطات اور معارف تصوف نام کی مطبوعہ فارسی کتب شامل ہیں۔
مواعظ نوشہ پیر کے چار وعظ سید شرافت نوشاہی نے تلاش کر کے 1968ء میں چھپوائے تھے ، بعد میں انہوں نے پانچویں وعظ کا اضافہ کیا۔
پھر 1978ء میں ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد نے آکھے نوشہ قادری نام کی کتاب میں چھنا وعظ عجائب گھر لاہور کی لائبریری میں موجود قلمی نسخے سے نقل کر کے شامل کیا ۔
حضرت نوشہ گنج بخش کے چھنے وعظ کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے ۔ پنجابی نثر کا سب سے پہلا نمونہ ہونے کے باوجود نوشہ گنج بخش کے مواعظ کی زبان صاف ستھری اور رواں دواں ہے۔
۔۔۔۔۔۔چھٹا وعظ ۔۔۔۔۔۔
سنو سمجھدار بچو! در ویش نوشہ کی نصیحت ۔ سب سے زیادہ بڑائی خدا کو ایک ماننا ہے۔
اللہ کے پیاروں سے پیار کرنا ہے۔ ان کہنا ہے ۔ جس نے ان کا کہا مانا وہ نجات پا گیا۔
اُس نے پیدائش ، موت زندگی اور حال کو خوبصورت بنا لیا ۔
اسے سکھ ملا ، افسوس ختم ہوا ۔ جب ھی تو وہ کسی سے پیر نہیں رکھتا اور نہ کسی کو برا کہتا ہے۔
اگر کوئی تمہیں مایوس کرے تو دکھی نہ ہونا۔ اللہ کے فضل کے ساتھ اپنے آپ میں مست رہنا ۔
خدا تعالی کی طرف سے ہر آنے والی چیز کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا۔
ذکر سے غرض رکھنا ۔ بیماروں کی خدمت کرنا ، بھوکوں کو خوراک مہیا کرنا ، نگوں کو لباس دینا ، سب کا بھلا چاہنا ۔
عاجز لوگوں میں فخر نہ کرنا۔ بڑا بول نہ بولنا۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرنا ۔ ایک جیسا سلوک کرنا۔ سانس اور رزق رب کی عطا جان کر اسی طلب کرنا ۔
خدا سے بڑا کسی کو نہ ماننا۔ بے عمل نہ ہونا اور نہ بے عمل سے تعلق نہ رکھنا۔
آنے والے کی عزت کرنا۔ کوئی بھی ہو اس کے سامنے فخر نہ کرنا۔
بڑوں کی خوبیوں کا اعتراف کرنا۔ میں میں نہ کرنا ، صاحب صاحب کہنا ، واہ مرشد سلامت رہو ۔
ہمارا فقر یقین ہے۔ ہمار ا ذ کر کلمہ طیبہ ہے۔ ہماری عبادت نماز پنجگانہ ہے،
ہمارا علم قرآن مجید ہے اور ہمارا روزگار قناعت ہے۔
حواشی
کتاب کا نام ؛ پاکستانی زبانوں کا ادب
کوڈ نمبر ؛ 5618
موضوع ؛ حضرت نوشہ گنج بخش
صفحہ نمبر ؛ 275 تا 276
مرتب کردہ ؛ عارفہ راز
۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔۔۔،،،۔۔۔۔۔
۔۔۔حضرت نوشہ گنج بخش۔۔۔
——-——
حضرت نوشہ گنج بخش یکم رمضان 959 ہجری بمطابق 21 اگست 1552 تحصیل پھالیہ ضلع گجرات کے ایک گاؤں گھوگا نوالی میں پیدا ہوئے ۔ نام حاجی محمد، لقب نوشہ اور خطاب گنج بخش بھورے والا تھا۔ والد سید علاء الدین الا نمازی قاری کے شاعر تھے۔ موضوع جا کو تارڑاں کے ایک مدرسے میں حافظ قائم دین قاری اور حافظ بڑھا قاری سے قرآن پاک حفظ کیا اور دینی کتابیں پڑھیں ۔ انتیس برس کی عمر میں سلسلہ قادریہ کے ایک بزرگ حضرت بھی سلیمان نوری کے ہاتھ پر بیعت کی۔ نوشہ گنج بخش نے اپنی ذہانت ، ریاضت اور خدمت کی بدولت مرشد کے دل میں گھر کر لیا چنانچہ جلدی ہی خلافت اور تبلیغ کی اجازت عطا ہو گئی ۔ مرشد کے حکم کے مطابق آپ نے دریائے چناب کے کنارے نوشہرہ تارژاں کو مرکز فیوض و برکات بنادیا۔ بعد میں ان کے ایک مرید نے ساہن پال کے قریب ایک نیا گاؤں آباد کیا، جس میں حضرت کے لئے مکان بنوایا چنانچہ نوشہ گنج بخش ، سائن پال منتقل ہو گئے اور وہیں ایک سو دو سال کی عمر میں 27 جنوری 1654ء میں وصال فرمایا۔ آپ نے اکبر، جہانگیر اور شاہ جہان کا زمانہ دیکھا ۔ آپ کے وعظ و تبلیغ کی بدولت بے شمار ہندو مشرف بہ اسلام ہوئے ۔ فرانسیسی مستشرق گارسان و تاسی نے خطبات ( جو 1866 ء کی تصنیف ہے ) اور پروفیسر نے پر بیجنگ آف اسلام ) میں آپ کی تبلیغ سے دو لاکھ ہندؤں کے مسلمان ہونے کی خبر دی ہے ۔ آپ کی تصانیف میں پنجابی زبان کی کتاب مواعظ نوشہ پیر، اردو اور پنجابی کے مجموعہ ہائے کلام تنج شریف ، اردو تصانیف تنج الاسرار، لطائف الاشارات اور ذخائر الجواہر فی بصائر الزواہر کے علاوہ چہار، بہار، کلمات طیبات ، مکتوبات نوشه مقالات نوشہ کے فارسی مخلوطات اور معارف تصوف نام کی مطبوعہ فارسی کتب شامل ہیں۔ مواعظ نوشہ پیر کے چار وعظ سید شرافت نوشاہی نے تلاش کر کے 1968ء میں چھپوائے تھے ، بعد میں انہوں نے پانچویں وعظ کا اضافہ کیا۔ پھر 1978ء میں ڈاکٹر عصمت اللہ زاہد نے آکھے نوشہ قادری نام کی کتاب میں چھنا وعظ عجائب گھر لاہور کی لائبریری میں موجود قلمی نسخے سے نقل کر کے شامل کیا ۔ حضرت نوشہ گنج بخش کے چھنے وعظ کا اردو ترجمہ پیش کیا جاتا ہے ۔ پنجابی نثر کا سب سے پہلا نمونہ ہونے کے باوجود نوشہ گنج بخش کے مواعظ کی زبان صاف ستھری اور رواں دواں ہے۔
۔۔۔۔۔۔چھٹا وعظ ۔۔۔۔۔۔
سنو سمجھدار بچو! در ویش نوشہ کی نصیحت ۔ سب سے زیادہ بڑائی خدا کو ایک مانتا ہے۔ اللہ کے پیاروں سے پیار کرتا ہے۔ ان کہا ئی ہے۔ جس نے ان کا کہا مانا وہ نجات پا گیا۔ اُس نے پیدائش ، موت زندگی اور حال کو خوبصورت بنا لیا ۔ اسے سکھ ملا ، افسوس ختم ہوا ۔ جب ھی تو وہ کسی سے پیر نہیں رکھتا اور نہ کسی کو برا کہتا ہے۔ اگر کوئی تمہیں مایوس کرے تو دکھی نہ ہونا۔ اللہ کے فضل کے ساتھ اپنے آپ میں مست رہنا ۔ خدا تعالی کی طرف سے ہر آنے والی چیز کو خندہ پیشانی سے قبول کرنا۔ ذکر سے غرض رکھنا ۔ بیماروں کی خدمت کرنا ، بھوکوں کو خوراک مہیا کرنا ، نگوں کو لباس دیتا ، سب کا بھلا چاہتا ۔ عاجز لوگوں میں فخر نہ کرنا۔ بڑا بول نہ بولنا۔ کسی کے ساتھ زیادتی نہ کرنا ۔ ایک جیسا سلوک کرنا۔ سانس اور رزق رب کی عطا جان کر اسی طلب کرنا ۔ خدا سے بڑا کسی کو نہ ماننا۔ بے عمل نہ ہونا اور نہ بے عمل سے تعلق رکھنا۔ آنے والے کی عزت کرنا۔ کوئی بھی ہو اس کے سامنے فخر نہ کرنا۔ بڑوں کی خوبیوں کا اعتراف کرنا۔ میں میں نہ کرتا ، صاحب صاحب کہنا ، واہ مرشد سلامت رہو ۔ ہمارا فقر یقین ہے۔ ہمار ا ذ کر کلمہ طیبہ ہے۔ ہماری عبادت نماز پنجگانہ ہے، ہمارا علم قرآن مجید ہے اور ہمارا روزگار قناعت ہے۔