ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ کا استعمال

ہائے مخلوط اور ہائے ملفوظ

ہائے مخلوط :

بر صغیر کی اکثر دوسری زبانوں کی طرح ہائیت بھی اُردو کی ایک خاص صفت ہے۔
ہائے ہوز کی تین قسمیں ہیں:

ہائے ملفوظی :

ایک وہ جو لفظ کی ابتداء وسط اور آخر میں ہر جگہ پوری آواز دیتی ہے۔ اسے ہائے ملفوظی کہتے ہیں جیسے ہاتھی، بہار، سیاہ وغیرہ ۔


ہائے مختفی

مختفی کے معنی ہیں پوشیدہ، غیر واضح.
دوسری قسم ہائے مختفی کہلاتی ہے جو صرف عربی ، فارسی الفاظ کے آخر میں آتی ہے اور اپنی پوری آواز نہیں دیتی ۔ اس کی آواز الف کی خفیف آواز ہوتی ہے.
جیسے کتبہ نغمہ، جلسہ وغیرہ ۔

ہائے مخلوط (ھ)

تیسری قسم ہائے مخلوط (ھ) ہے جو عربی وفارسی میں ہائے ہوز کی متعدد شکلوں میں سے ایک شکل مانی جاتی ہے، لیکن اُردو میں یہ شکل مخصوص حروف کے ساتھ مخلوط آواز دیتی ہے۔ ہائے مخلوط کسی لفظ کے شروع میں نہیں آتی اور نہ کبھی متحرک ہوتی ہے۔ یہ اپنے ماقبل حرف کے ساتھ مل کر اس کے اعراب کے تحت مخلوط آواز دیتی ہے۔

اُردو میں پندرہ حروف ایسے ہیں جن کے ساتھ ” مل کر ایک نئی آواز دیتی ہے۔ صورت میں یہ ماقبل حرف سے جدا ہوتی ہے مگر آواز میں پہلے حرف سے مخلوط (ملی ہوئی ) ہوتی ہے، اسے دو چشمی (ھ) سے لکھتے ہیں جیسے بھائی ، پھول ، پھیلا وغیرہ ۔
ہائیہ صوت ( بھ، پھ، تھ وغیرہ ) ایک تالیفی (Complex) آواز ہے۔جو”ہ” اور ماقبل مصمتے کی تالیف سے بنتی ہے۔

املا کمیٹی مقتدرہ نے ہائیہ حروف کی تعداد نہیں لکھی جبکہ املا کمیٹی ترقی اردو بورڈ ہند نے بھ، پھ ،چھ، تھ، دھ ،رھ، ٹھ ، ڈھ، جھ، چھ، کھ، گھ اور زھ کو اُردو کی بنیادی ہائیہ آواز میں قرار دیا ہے۔ جبکہ اس کے مطابق رھ ،لھ، نھ، وھ ، یھ میں بھی ہرکاریت کا شائبہ ہے۔ ان میں وھ اور یھ کا استعمال عام نہیں ہو سکا اور نہ ہی ہمارے قاعدوں میں مروج ہے۔ دونوں کمیٹیوں نے جن الفاظ میں "و” کی آواز دوسرے حروف سے مل کر آواز دے، انھیں ہائے مخلوط سے لکھنے کی سفارش کی ہے مثالی انھیں تمھیں ننھا، کمھار، کولھو وغیرہ ۔

ہائے مختفی

اُردو میں مختفی کا وجود نہیں ، ہائے مختفی فارسی سے مخصوص ہے جو لفظ کے آخر میں ہ کی بجائے الف کی آواز دیتی ہے۔ جیسے کعبہ ، قبلہ وغیرہ ۔ بقول مولوی عبدالحق بعض فارسی حروف کے آخر میں لگی ہوتی ہے۔ یہ اصل لفظ کا جزو نہیں ہوتی بلکہ زائد ہوتی ہے اور اس کا تلفظ زبر کا سا ہوتا ہے۔ گویا یہ اعراب کا کام دیتی ہے جیسے ہفتہ، روزہ ، ایسی ” ہ” کو ہائے مختفی کہتے ہیں ۔

دونوں کمیٹیوں نے یہ سفارش کی ہے کہ عربی فارسی کے علاوہ دیگر زبانوں کے الفاظ جن کے آخر میں "الف” کی آواز آتی ہے، انھیں ہائے مختفی کی بجائے "الف” ہی سے لکھا جائے ۔ تاہم جو مقامی الفاظ ہائے مختفی سے رواج پا چکے ہیں یا انھیں "الف” سے لکھنے سے معنی میں التباس ہوتا ہے، انھیں ہائے مختفی ہی سے لکھا جائے۔

مقتدرہ کمیٹی کی سفارشات میں یہ تصریح کی گئی ہے کہ عربی فارسی کے ایسے الفاظ جنھیں اُردو میں یہ تصرف استعمال کیا جاتا ہے، انھیں دونوں طرح لکھا جا سکتا ہے۔ اس میں طلبہ اور صوفیہ کی مثال دی گئی ہے۔ صوفیہ بطور نام مستعمل ہے لیکن صوفی کی جمع "صوفیا” درست ہوگا۔ طلبا طلیب کی جمع ہے جبکہ فی زمانہ لفظ طلیب عربی میں متروک ہے۔ اس لیے طالب کی جمع طلبہ درست ہے۔

انسائیکلو پیڈیا آف اسلام کے فیصلے کے مطابق ہندی الاصل الفاظ کے آخر میں ”ہ” کے بجائے "الف” استعمال کیا جائے ، مثلاً پتا، راجا، پھیا ، دھبا۔
یورپی ناموں کے آخر میں "ہ” کے بجائے الف لکھا جائے ، یہ ظاہر کرنے کے لیے یہ عربی سے ماخوذ نہیں؛ مثلاً آسٹریا، بلگیر یا ۔ ۔ ۔ خالص ہندی الفاظ کے آخر میں الف آئے گا مثلا پتا۔ ماسوائے ان اعلام کے جو "ہ” کے ساتھ مروج ہو چکے ہیں ؛ مثلا بنگلہ آگرہ، کلکته وغیرہ

ایک اور اہم نکتہ جس کا املا کمیٹی مقتدرہ نے ذکر نہیں کیا جبکہ ترقی اُردو بورڈ نے کیا ہے. وہ یہ کہ ہائے ملفوظ کے لیے کہ، بہ اور سہ کے نیچے محض لٹکن لگا دی جائے۔ لیکن بہت سے ماہرین کی رائے اس سے مختلف ہے۔ مثال :

ڈاکٹر فرمان فتح پوری رقم طراز ہیں:

شبیہہ اور جیہہ میں دو ” ہ "آتی ہیں پہلی ہائے ملفوظ کی حیثیت میں ، دوسری ہائے مختفی کی حیثیت سے، ان لفظوں کو اسی طرح لکھنا چاہیے ۔۔۔ الفاظ کے آخر میں جب ہائے مختفی ما قبل سے متصل ہو کر آئے گی تو صرف ایک مختصر شوشے کے ساتھ لکھی جائے گی جیسے مہ،
بہ ،شہ ، یہ وغیرہ لیکن اگر ہائے ملفوظ ہوگی تو دو شوشے آئیں گے جیسے کہہ (کہا)، سہ(سہا سے )، بہہ (بہا سے )۔

خواجہ غلام ربانی مجال کے خیال میں :
ایسے الفاظ جن کی ہائے ملفوظی کو اُردو میں ہائے مختفی کی ٹیک دی جاتی تھی کہ درست تلفظ کی جانب رہنمائی ہو جائے ، یہ ہائے ملفوظی حرف سابق کی اشباعی حالت باعث ملفوظی ہیں ۔ یہ طریقہ قریباً ایک صدی سے مروج ہے۔

بهہ، تہه ، سہه ، کہه ، شہه ، گہہ

جو لوگ ان الفاظ کو به، تہ، نهہ کہ، هه، بلکہ یہ گنہ لکھتے آئے ہیں یا انھوں نے ایسا لکھنا شروع کر دیا ہے وہ یہ کیوں نہیں سوچتے کہ ان الفاظ بارے ابہام کا پیدا ہونا اور بڑھتے جانا املائی بدنظمی کے علاوہ سراغ معانی کو مسدود کیسے جائے گا۔
پنڈت دتاتریہ کیفی لکھتے ہیں
کاف بیانیہ وغیرہ کہ لکھنا چاہیے۔ اسی طرح فارسی سے اور یہ کو یوں لکھنا چاہیے انگر سہنا، بہنا، کہنا کے صیغوں کو اس طرح لکھنا چاہیے ۔ سہہ نیہ، گہہ (سبہ گیا، بہہ گیا، گہہ)

گیا تا کہ اوپر لکھے ہوئے لفظوں سے التباس نہ ہو ۔

مذکورہ بالا ماہرین کے دلائل وقیع ہیں۔ تاہم ٹیکسٹ بک بورڈز کی درسی کتب میں لٹکن کے بغیر ہی تشبیہ، کہ وغیرہ لکھا جارہا ہے، اور اب یہی چلن ہے۔

امالہ :

امالہ کے لغوی معنی ہیں ” مائل کرنا، علم صرف کی اصطلاح میں زبر کوزیر کی طرف مائل کرنے کو امالہ کہتے ہیں۔

املا کمیٹی مقتدرہ قومی زبان کے مطابق :
ا۔ ایسے الفاظ جو ” یا ” الف” پر ختم ہوں یا ایسے الفاظ جن کے آخر میں”ہ” ہے لیکن وہ "الف” کی آواز دیتے ہوں اور ان کی جمع بڑی (ے) سے بن سکتی ہو، ایسے الفاظ کے بعد حروف مغیرہ ( کو، سے ، میں ، پر نے، کے، کا، کی تک وغیرہ) کے آنے کی صورت میں ان کا ” الف ” یا ” ہ” بڑی ے میں بدل جائیں گے۔

مثال : آگرہ : آگرے کا تاج محل ، اڈہ: اڈے پر ، افسانہ: افسانے کا عنوان، دیوانہ دیوانے کی بڑ بڑ کا لڑکے نے ، معاملہ: اس معاملے میں مسئلہ : اس مسئلے کو ، مرغیا: مرغے کی ٹانگ ، مکہ مدینہ مکے سے مدینے تک

ب۔ تا ہم عربی فارسی کے الفاظ جو الف پر ختم ہوتے ہیں امالہ قبول نہیں کرتے البتہ مقامات اور شہروں کے ساتھ امالہ استعمال ہوگا ، جیسے:

ا۔ املا، انشاء دنیا، صحرا ،مکے مدینے ، کعبے ، چارسدے، کوئے۔

ج۔ بعض ایسے مرکبات جن کے پہلے لفظ کی جمع بن سکتی ہے، وہ بھی امالے کے ساتھ لکھے جائیں گے، چاہے کوئی حرف مغیرہ ان کے بعد آئے یا نہ آئے ، جیسے: پہرے دار تانگے والا ، ذمے دار ، رکشے والا ، سٹے باز ، مزے دار، مقد سے باز

اور بعض ایسے الفاظ جو الف نون غنہ(ں) پر ختم ہوتے ہیں اور ان کی جمع "ی” نون غنہ (ں) سے بنتی ہے، وہ بھی امالہ قبول کریں گے، جیسے: دھویں سے، کنویں سے
ہ۔ عربی کے ایسے الفاظ جو "ع” یا ” ع ” پر ختم ہوتے ہیں اور ان کی آخری آواز بھی الف کی نکلتی ہے، وہ بھی امالہ قبول کریں گے ، جیسے: برقعے میں، جمعے کو، (اس) قطعے میں، قلعے کے اندر مصرع، مرقعے ، مقطع ، موقعے۔

ترقی اُردو بورڈ کے مطابق

جب ہائے مخفی والے الفاظ پر ( وہ عرصہ جلوہ ، قصہ ) محرف ہوتے ہیں تو تلفظ میں ایسے الفاظ جو ہ” یا ” الف” پر ختم ہوں یا ایسے الفاظ جن کے آخر میں ہ ہو لیکن وہ الف کی آواز دیتے ہوں اور ان کی جمع بڑی (ے) سے بن سکتی ہو، ایسے الفاظ کے بعد حروف مغیرہ ( کو، سے ، میں ، پر نے، کے، کا، کی تنک وغیرہ) کے آنے کی صورت میں ان کا ” الف ” یا ” ” بڑی سے میں بدل جائیں گے۔ مثال : آگرہ : آگرے کا تاج محل ،

اڈہ: اڈے پر ، افسانہ: افسانے کا عنوان، دیوانہ دیوانے کی بڑ بڑ کا لڑکے نے ، معاملہ: اس معاملے میں مسئلہ : اس مسئلے کو ، مرغا: مرغے کی ٹانگ ، مکہ مدینہ سے مدینے تک

ب۔ تاہم عربی فارسی کے الفاظ جو الف پر ختم ہوتے ہیں امالہ قبول نہیں کرتے البتہ مقامات اور شہروں کے ساتھ امالہ استعمال ہوگا ، جیسے:

ا۔ املا، انشاء دنیا، صحرا

مکے مدینے ، کعبے ، چارسدے، کوئے۔

ج۔ بعض ایسے مرکبات جن کے پہلے لفظ کی جمع بن سکتی ہے، وہ بھی امالے کے ساتھ لکھے جائیں گے، چاہے کوئی حرف مغیرہ ان کے بعد آئے یا نہ آئے ، جیسے:

پہرے دار تانگے والا ، ذمے دار ، رکشے والا ، سٹے باز ، مزے دار، مقد سے باز

اور بعض ایسے الفاظ جو الف نون غنہ(ں) پر ختم ہوتے ہیں اور ان کی جمع "ی” نون غنہ (ں) سے بنتی ہے، وہ بھی امالہ قبول کریں گے، جیسے: دھویں سے، کنویں سے

ہ۔ عربی کے ایسے الفاظ جو "ع” یا ” ع ” پر ختم ہوتے ہیں اور ان کی آخری آواز بھی الف کی نکلتی ہے، وہ بھی امالہ قبول کریں گے ، جیسے:

برقعے میں، جمعے کو، (اس) قطعے میں، قلعے کے اندر مصرع، مرقعے ، مقطع ، موقعے۔

ترقی اُردو بورڈ کے مطابق

جب ہائے خفی والے الفاظ ( پر وہ عرصہ جلوہ ، قصہ ) محرف ہوتے ہیں تو تلفظ میں آخری آواز نے ادا ہوتی ہے۔ املا میں بھی تحفظ کی پیروی ضروری ہے۔
چنانچہ بندے (کا)پردے (پر)، عرصے (سے) ، جلوے (کی)، مے خانے (تک)، افسانے (میں)، غصے (میں) ، مدرسے (سے) ، مرثیے (کے)۔

مقتدرہ قومی زبان کی سفارشات میں لفظ اڈہ لکھا گیا ہے جو مقتدرہ کی اپنی سفارشات ( ہائے مختفی ) کے مطابق اردو لفظ ہونے کے ناتے اڈا” ہے۔

اردو لغت بورڈ نے یوں وضاحت کی:
جو کلمات "الف” یا "ہ” پر ختم ہوتے ہیں ان کے امالے میں حرف آخر کو بڑی ”ے” سے بدل دیا گیا ہے، جیسے، گھٹنے پر، پیانے سے وغیرہ مگر "ح” یا "ع” پرختم ہونے والے الفاظ میں ایسی کوئی تبدیلی نہیں کی گئی؛ البتہ تیسرے حرف کو مکسور کر دیا گیا ہے، جیسے، مطلع میں اور برقع کو وغیرہ۔

نور اللغات میں امالہ کے تحت سولہ قاعدے درج کیے گئے ہیں۔ دیگر بہت سے ماہرین نے بھی امالہ پر تفصیلی مضامین لکھے ہیں۔ لیکن اکثر قاعدوں میں اپنے مستثنیات ہیں کہ صیح معنوں میں کوئی بھی قاعدہ نہیں رہتا۔

اس سے یہ نتیجہ اخذ ہوتا ہے کہ امالے میں صوتی پہلو کو مد نظر رکھنا چاہیے۔ جہاں الف اور ہائے مختفی پر ختم ہونے والا لفظ محرف صورت میں اپنی اصلی حالت پر بولنے میں برا معلوم ہو، وہاں امالہ لازم ہو جاتا ہے۔

لیکن ہر جگہ امالہ بھی درست نہیں مثال مقدمہ بازی ، ذمہ داری، کرایہ داری کا امالہ کرنا سماعت پر گراں گزرتا ہے ۔ اسی طرح قبلہ اور کعبہ کا امالہ بھی موزوں نہیں ۔ مقصد یہ کہ ایسے مرکبات جو معیاری زبان میں امالہ قبول نہیں کرتے ، انھیں مستثنیات میں شمار ، کیا جانا چاہیے۔

امالہ پر بہت سے ماہرین زبان مثلا طالب الہاشمی نے اپنی تصنیف ” اصلاح تلفظ و املا” ،
ڈاکٹر فرمان فتح پوری نے "اردو املا وقواعد ( مسائل و مباحث )”

اور ڈاکٹر آفتاب احمد نے "اردو قواعد واملا کے بنیادی اصول” میں بحث کی ہے۔

پروف ریڈر نائمہ خان

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں