حاتم کی ایہام گوئی

کتاب کا نام…..تاریخ ادب اردو 2
صفحہ ……39تا 41
کورڈ…..5602
مرتب کردہ …..حسنٰی

حاتم کی ایہام گوئی

ایہام گوئی کے ان تین بڑوں کے ساتھ حاتم کا ذکر اس لئے نہیں ہوا کہ ایک طرف تو وہ ایہام گو شاعروں کے ساتھ تھے اور دوسری طرف انہوں نے رد عمل کا اظہار بھی کیا لیکن ان کے ذکر سے پہلے شرف الدین مضمون اور مصطلح خان یک رنگ کا رنگ ایہام بھی ملاحظہ ہو۔ مضمون تو ایہام گوئی پر ناز کرتے ہیں۔

ہے ایک میں مضمون تراشا ہو
طرح ایہام کی جب میں شمالی

اشعار دیکھئے :

گر پاؤں تو مضموں کو رکھوں باندھ
کروں کیا جو نہیں لگتا مرے ہاتھ

شرم سے پانی ہو جاویں سب رقیب
جو مرا یوسف لے آ چاہ میں

یک رنگ کارنگ ایہام کچھ یوں ہے۔

تجھے زلف کا یہ دل ہے گرفتار بال بال یک رنگ کا سخن میں خلاف ایک مو نہیں
مجھے مت پوچھ پیارے اپنا دشمن کوئی دشمن بھی ہو اپنی جان کا جدائی تری اے صندلی رنگ
مجھے یہ زندگانی درد سر ہے

شیخ ظہور الدین حاتم محمد ایام کے شعرا میں سب سے بہتر لسانی شعور اور ترقی یافتہ تنقیدی سوچ کے حامل تھے۔ وہ اچھے شاعر تو تھے ہی اسی لئے معاصرین اور متاخرین نے ان کا نام عزت سے لیا لیکن دیوان زادہ کا جودیباچہ قلم بند کیا اس کی روشنی
روشنی میں وہ معاصرین کے مقابلہ میں کہیں زیادہ بہتر انسانی شعور اور ترقی یافتہ تنقیدی سوچ کے حامل نظر آتے ہیں۔

حاتم دہلوی 1111 ھ / 1700 ء میں پیدا ہوئے۔ عمر یہیں بسر کی اور 1197ھ / 1783ء میں وفات پائی۔ پیشہ سپاہ گری تھا۔ مگر آخری عمر درویشی اور خلوت گزینی میں بسر کی۔

بحیثیت شاعر انہوں نے بھر پور انداز میں تخلیقی صلاحیتوں کا اظہار کرتے ہوئے غزل میں کمال پیدا کیا۔ حاتم بھی ولی کے معتقد تھے چنانچہ ولی کی زمین میں کئی غزلیں کہیں۔ دیوان زادہ کے دیباچہ میں بھی ولی کو خراج تحسین پیش کیا۔ حاتم اردو کے علاوہ فارسی غزل بھی کہتے تھے۔ زمانہ کی روش کے مطابق حاتم نے بھی ایہام سے شغف کا اظہار کیا اور ایسے اشعار کہے۔

نہ گھٹنے ایک رتی وزن میں الا ماشا

گر مرے من کو جو مومن کے برابر تولے

خاصے جن کا ملنا تن سکھ ہے عاشقوں کو

گاڑھے رقیب سارے مرتے ہیں ہاتھ مل مل

محققین کی تحقیق کے موجب تقریبا سترہبرس کی عمر میں مشق سخن کا آغاز ہو گیا۔ پہلے رمزی شاعری کرتے تھے فارسی میں بھی صاحب دیوان تھے۔ اردو دیوان جو اب تاریخ کی کتابوں میں "دیوان قدیم” کے نام سے یاد کیا جاتا ہے 32- 1730ء کے درمیان مرتب ہوا۔ اس دیوان میں ایہام سمیت ہر طرح کے اشعار تھے۔
بعد میں جیسے جیسے تنقیدی شعور صیقل ہوتا گیا تو خیالات اور اسلوب میں تبدیلی آتی گئی یوں 1755-56/1168-69 ء میں حاتم نے دیوان قدیم کا انتخاب تازہ کلام ” دیوان زادہ” کے نام سے مدون کیا۔ دیوان زادہ کا مختصر دیباچہ حاتم کے لسانی اور تنقیدی شعور کا مظہر ہے۔ حاتم نے یہ جدت بھی کی کہ ہر غزل کے ساتھ یہ وضاحت بھی کر دی کہ اس کا سن تحریر کیا ہے ؟ یہ کسی کی فرمائش پر لکھی گئی یا کسی اور شاعر کی زمین میں:
بحیثیت استاد حاتم کا یہ بھی افتخار ہے کہ ان کے شاگردوں میں سے بعض شاعر خود مرتبہ استادی تک پہنچےان میں سرفہرست سودا ہیں۔
ان کے علاوہ بقاتاباں ،رنگین امان اور شہزادہ مرزا، سلیمان شکوہ، عظیم قابل ذکر ہیں۔

حاتم نے جب ایہام کوئی ترک کی تو اس اسلوب میں اشعار کے۔

جو ذائقے سے درد کے دل آشنا نہیں

دنیا میں زندگی کا اسے کچھ مزا نہیں

دن رات منہ لگاتا ہے کیوں تری کے تئیں

وہ شوخ خود پسند اگر خود نما نہیں

حاتم وہ کھیچتا نہیں عاشق کے دل کے تئیں

جس حسن میں کہ عشوہ و نازہ ادا نہیں

حاتم کے بارے میں مزید معلومات کے لئے ملاحظہ کیجئے۔

زور محی الدین قادری سرگزشت حاتم (حیدر آباد : 1997ء)

غلام حسین ذو الفقار ڈاکٹر نشاہ حاتم : حالات و کلام ( لاہور : 1964ء)

ايضا (مرتب) دیوان زاده شاه حاتم ( لاہور : 1975ء)

سراج الحق قریشی ڈاکٹر دریاچه دیوان زاده شاه حاتم (کراچی : 1977ء)

وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں