حسن منظر کی شخصیت اور عملی زندگی | Hassan Manzar ki Shakhsiyat aur Amali Zindagi
موضوعات کی فہرست
حسن منظر کی شخصیت اور عملی زندگی
عملی زندگی
حسن منظر اپنی عملی زندگی میں ایک مثالی شخصیت کے طور پر سامنے آئے ہیں ۔ جس کی بنیادی وجہ ان کے والدین کی عمدہ تربیت تھی اور اعلیٰ تعلیمی روایات ان کو ورثے میں ملی۔ ان کی علمی اور ادبی تربیت میں ان کے والد کا بڑا حصہ ہے ۔
لیکن ان کے آباؤاجداد کا ورثہ بھی کم اہم نہیں۔ جوانی میں ہجرت کی۔ حیدرآباد کی سرزمین میں بودوباش اختیار کی اور وہیں ان کی والدہ کی آخری آرام گاہ بھی ہے۔ حسن منظر چونکہ حیدرآباد میں پڑوان چڑھے جس کی وجہ سے وہاں کی زمینی خوشبو ، ثقافتی اور سماجی رنگ کو اپنے آباؤاجداد سے ورثے میں ملی ہوئی زمینی خوشبو اور سماجی اقدار خود میں مدغم اور محفوظ کرتے رہے۔
یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کی افسانہ نگاری
بعض سندھ کے رہنے والے بھی اتنا جذب نہ کر سکے ہوں گے اس کی وجہ یہ ہے کہ کسی مخصوص تہذیب و تمدن میں پیدا ہونا،۔ پروان چڑھانا ایک الگ واقعہ ہے۔ اور پروان چڑھنے کے ساتھ ساتھ ان کی پہچان کا شعور ان مخصوص رویوں اور اقدار کی شناخت کرنا ایک دوسری بات ہے۔ مہرونہ لغاری اپنی کتاب "حسن منظر کی ادبی خدمات” میں یوں رقمطراز ہیں:
’’حسن منظر کو اعلیٰ تعلیمی روایات ورثہ میں ملی، طب گھر کی فضا تھی‘‘(۱۹)
حسن منظر نے یوپی کے ہونے کے باوجود جتنے احتیاط سے اپنے تہذیبی و ثقافتی اور علمی و سماجی ورثے کی حفاظت کی ہے اس کے برعکس بڑی سرعت بلکہ دیوانگی کی حد تک اپنے نئے وطن پاکستان خاص طور پر سر زمین سندھ کی فضاؤں موسموں اور پھلوں سے پیار کا سمندر جوڑا ہے بے لوث محبت کی ہے۔
سے وہاں کے رہنے والوں سے گہری آشنائی پیدا کی ہے منجیوں پر بیٹھ کر خوش گیاں کہنے والوں کے ساتھ ہسنے اور رونے والوں کے ساتھ روئے بھی اور کئی بار اشک بار بھی ہوئے ض۱۸۵۷ء کی جنگ میں برطانوی سامراج کے خلاف بغاوت کے سبب ان کے والد کے نانا کے سر کی قیمت لگی تھی جس کے باعث دوسالوں تک ہمالیہ کی چوٹیوں پر روپوش رہے حسن منظر نے اپنے اجداد کی روایات کو قائم رکھا اور اپنی قلمی طاقت کے ذریعے حق تلفی اور ظلم کے خلاف ایک سپاہی کی طرح احتجاج کیا۔
شخصیت
ڈاکٹر حسن منظر اس قدر با کمال شخصیت کے مالک ہیں کہ آپ کے نہ صرف پیشہ وارانہ طب بلکہ تخلیقات ادب میں بھی، وطن اور وطن سے باہر بھی یہ قدرت، شہرت وناموروی کمائی یہی وجہ ہے کہ علمی و ادبی حلقے ان کی جانب عزت احترام کی نگاہ رکھتے ہیں۔
حسن منظر کو بچپن ہی سے مطالعے کا بہت شوق تها اکثر رات کو جاگ کر کتابیں پڑھتے ہیں۔ مطالعے کا شوق اس قدر تھا کہ اس بارے میں یوں فرماتے ہیں:
’’ دوران سفر قرآن پاک اور دیوان غالب ساتھ رکھتا ہوں ‘‘(۲۰)
حسن منظر نے قرآن پاک کا ترجمہ و تفسیر اور سیرت النبیؐ کو بھی پڑھا۔اس حوالے سے حسن منظر کہتے ہیں کہ :
’’حقیقت میں قرآن وہ کتاب ہے جس کا اتنےجم کر میں نے زندگی بھر مطالعہ کیا۔‘‘(۲۱)
حسین منظر مطالعہ سے لگاؤ اور کتابوں کی تلاش کا کریڈٹ ہمیشہ اپنے والدین کو دیا کرتے ہیں اگر حسن منطر کی شخصیت کا بغور مطالعہ کیا جائے تو اس میں اساتذہ سے محبت اور احترام بھی دیکھنےکو ملتا ہے۔حسن منظر کی زبان دانی کے چرچے بھی عام ہیں زبان دانی کی حیثیت مسلم رہے گی اردو میں نہیں تمام بولی جانے والی زبانوں میں مہارت رکھتے ہیں۔ حسن منظر اس بارے میں یوں رقمطراز ہیں۔
یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کی ادبی خدمات
’’مجھے جتنی زبانیں آتی ہے جو زبان نہیں آتی وہ میرے گھر ، گھرانے خاندان ، شہر اور تعلیمی اداروں کا عطیہ ہے اور جتنی آگئی اسے صحیح طرح برتنے اور اسمیں اضافہ کرنے کے لیے میں ان ادیبوں اور شاعروں کا ممنون ہوں جنہیں میں نے پڑھا ۔ ابھی تک پڑھ رہا ہوں ان میں اُردو، ہندی، فارسی ، تھوڑے عربی الفاظ بھی شامل ہیں ۔‘‘(۲۲)
بقول حسن منظر کے:
’’کھانے اور پینے کو جو بھی مل جائے ہمیشہ وطیرہ رہا الحمد الله تا حال ہے، جوتے پھٹتے نہیں پائے کپڑے زیادہ پرانے ہو جاتے تو مرحومہ مجھ سے چھپاکہ کسی کو دے دیتی تھیں نہ چپلیں ٹوٹتی ہیں” ۔(۲۳)
اس کے علاوہ بال بنانا دسویں کے بعد کبھی رستواں کبھی کافی ہاؤس وغیرہ کبھی کبھار کا شوق تکنیک، دنیاتی movies ,بہترین فلمیں بطور ایک آرٹ اور اس کا مطالعہ اس طرح موسیقی کا شوق کلاسیکی اور قدیم سننے تک یہ سب گھر پر ہی محدود ہیں۔
مشرقی روایات کے سچے اور پکے امین
ڈاکٹر صاحب چونکہ مشرقی روایات کے سچے اور پکے امین ہیں اس لیے شہرت اور نامود سےوہ ہمیشہ احتراز کیا کرتے ہیں یہی سبب اہل قلم کی نوجوان نسل سے ڈاکٹر صاحب کے کمزور تعلق کا بھی بنتا ہے۔ ڈاکٹر صاحب کے علمی ادبی تحقیقی اور تنقیدی اس انداز سے نمایاں اور واضح کیا جائے کہ قاری کے ساتھ آنے والے زمانوں کا قاری بھی ڈاکٹر صاحب سے فیضان علم اٹھاتا رہے !
حسن منظر وہ شخص ہے جو اعلی تعلیم یافتہ اونچے آورش رکھنے والا انسان دوست ادیب ہے۔ انھوں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ ملک سے باہر گزارا ہے جھنوں نے برٹش پاسپورٹ محض اپنی ضمیر کی اس آواز پر جن نے اپنے ملک کو چھڑوایا تھا اب اس ملک کا شہری بنوں؟ قبول نہیں کیا۔
یہ جب اپنے ملک آتے ہیں تو بجائے مہاجرین کو کراچی میں رہنے کے حیدرآباد میں رہنے کو ترجیح دیتے ہیں اپنا گھر اور مکان حیدرآباد کے گاؤں کے قریب بنایا دوسروں کے فلاح و بہبود بغیر قومیت باہم زبان یا
اور کسی تفریق میں پڑے۔ کام کر کے خوشی محسوس کرتے ہیں یہی حسن منظر لسانی فسادات کی آگ سے محفوظ نہ رہ سکے۔ نئے وطن میں انہیں مسلسل بے اعتباری نفرت اور شک و شبہ کی نظروں کا سامنا کرنا پڑا اپنی جنم بھومی سے علحیدگی کا غم اپنی جگہ مگر وہ سرزمین جو ان کے لیے جائے فنا تھی وہاں بھی امان نہ مل سکی۔ اس ضمن میں حسن منظر کا کہنا ہے کہ :
’’مجھے ایسا لگتا ہے ان چالیس سالوں میں میرا دماغ دھو دیا گیا۔۔۔۔ مجھے باور کرایا گیا ہے میرا کوئی ماضی نہیں تھا۔ سدا سے بھکاری ہوں۔۔۔۔
میری زبان تک میری نہیں ہے۔ کیا یہ سچ ہے میری زبان لکھنو کی کوٹھے والیوں کی زبان ہے یہاں آکر مجھے پتہ چلا میری زبان دنیا کی واحد زبان ہے جس کا کوئی اہل زبان نہیں مجھ پر دہرے مار پڑی ہے کچھ نے کہا ہے تم اپنی زبان کہتے ہو تمہاری نہیں ہے
تمہارے علاقے کے شہروں میں بولی اور لکھی جاتی تھی اور بس کچھ نے کہا تمہاری زبان ہم پر مسلط کی گئی ہے اس لیے تم برسر اقتدار اور طبقہ ہو انہیں حیدرآباد میں اپنے کے انسان ہیں جب ان کے گھر اور کلینک کو چھوڑنا پڑا۔‘‘(۲۴)
حسن منظر ایک صلح طبعیت کے انسان ہیں جب ان کے گھر پر ناجائز قبضہ کیا گیا تب بھی انہوں نے اپنامعاملہ عدالت کے زریعے حل کرنے کی بجائے اللہ تعالی کے سپرد کر دیا لیکن یہ وہ معاشرہ ہے جہاں نیشلزم کا جنون ہے جس کی زمین ہر وہ چیز بھنیٹ چڑھ رہی ہے لہذا یہ بڑا مشکل کام تھا۔
کہ اپنی جنم بھومی سے کٹ کر کسی ایسے نئے ملک اور جگہ میں لینا جہاں اپنے ہی قدم پر آپکو شک کی نگاہ سے دیکھیں اور یہ احساس بھی دلایئں کہ آپ اس دھرتی کے سپوٹ نہیں بلکہ بن گئے ہیں تب ایسا ایسا صلح جو شخص اپنے ملال کو چھپا نہیں سکتا اور اس کے اقتدار کے فنکار اور باہر کے ماہر نفسیات کے درمیان مکالمہ شروع ہو جاتاہے۔
حسن منظر ایک صلح جو طبیعت کے انسان ہیں جب ان کے گھر پر ناجائز قبضہ کیا گیا تب بھی انہوں نے اپنا معاملہ عدالت کے ذریعے حل کرنے کے بجائے اللہ تعالیٰ کے سپرد کر دیا لیکن یہ وہ معاشرہ ہے جہاں نیشنلزم کا جنون ہے جس کے ضد میں ہر وہ چیز بھنٹ رہی ہے
جس سے کسی بھی ایک سماجی طبقے کی نمائندگی ہو سکتی ہو لہذا یہ بڑا مشکل کام تھا کہ اپنی جنم بھومی سے کٹ کر کسی ایسے نئے ملک اور جگہ میں بسا جہاں اپنی ہی ہر قدم پر اپ کو شک کی نگاہ سے دیکھیں
اور یہ احساس بھی دلائیں کہ آپ اس دھرتی کے سپوٹ نہیں بلکہ بن گئے ہیں تب ایسا ایسا صلح جو شخصیت اپنے ملال کو چھپا نہیں سکتا اور اس کے اندر کے فنکار اور باہر کے ماہر نفسیات کے درمیان مکالمہ شروع ہو جاتا ہے۔