حسن منظر کی حالات زندگی

حسن منظر کی حالات زندگی | Hassan Manzar ki Halat-e-Zindagi

حسن منظر کی حالات زندگی

خاندانی پس منظر

ابتدائی زندگى

حسن منظر سادات خاندان سے تعلق رکھتے تھے ان کے آباؤ  اجداد عرب سے آنے کے بعد دہلی میرٹھ، قبض آباد، بجنور گڑھ، مکتبرہاپڑ ، گور گھپور  وغیرہ میں گاہے بگاہے آباد ہوتے رہے یعنی اتر پردیش  کی چھ شمالی کمیشزیوں میرٹھ، بدایوں، روہیلکھنڈ، اودھ، فیض آباد اور گھورکھپور میں رہیں۔ ان کے دادا سید بنیاد علی خاندانی تنازعات سے گھبرا کر ۱۸۵۰ میں گور کھپور چلے گئے جب ان کی عمر محض ۱۵ سال تھی۔ حسن منظر کے آبا و اجداد کے بارے میں مہر ونہ لغاری لکھتی ہیں کہ: ان کے مورثین میں جنگی مہم جوئی کی روایات بھی موجود ہیں۔

’’مورث دہلی سے نواب برہان الملک کے ساتھ فیض آباد (اتر پردیش) گئے اور وہیں بس گئے وہاں کچھ زمین جنگی خدمات کے صلے میں ملی ہوگی۔ بعد میں ایک ہوگی۔ بعد میں ایک جنگی مہم میں میر احمد نے دو آباگنگا جمنا فتح کیا تو وہ ( اجداد) فیض آباد سے گنگار کنارے کی آبادی گڑھ مکتبر (ہندوؤں کا تیرہ استھان) منتقل ہوگئے (ثبوت، عماد استعارات بوستان ۔‘‘ (۱) ‏

یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کی ادبی خدمات

جب کہ ان کے نانا یا پر نانا نے ۱۸۵۷ء کی جنگ آزادی میں انگریزوں کے خلاف جنگ میں حصہ لیا تھا نتیجتاً برٹش گورنمنٹ نے ان کے سر کی قمیت مقرر کر دی تھی اور انھیں باقی ماندہ زندگی اپنے گھر والوں سے دور روپوشی میں گزارنی پڑی۔ گورکپھور میں ہی ان کے دادا سید مہدی حسن محکمہ جنگلات میں ایک عہدے پر فائز رہے انہیں حکومت برطانیہ کی طرف سے "خان بہادر” کا خطاب بھی دیا گیا ۔ وہ جنگلات کے کنزرویٹر کے عہدے سے ریٹائر ہوئے ۔

مولانا شوکت علی کے دوست تھی۔ مطالعہ کے بے حد شوقین تھے۔ ان کی کتابوں کے زخیرہ میں مثنوی مولانا روم ابھی تک بطور یادگار حسن منظرکے پاس موجود ہے ۔ حسن منظر کو اعلیٰ تعلیمی روایات ورثہ میں ملی ہیں طب گھر کی فضا میں تھی دادی معالجہ تھیں۔

 حسن منظر اس بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ :

’’ انہوں نے دہلی سے میڈیسن کا کوئی کورس کیا تھا اور دادا جان کے انتقال کے بعد جب ہاپڑ والے گھر میں آکر رہیں تووہیں پریکٹس کرتی تھیں (ان کی) چھوٹی بیٹی ، میری چھوٹی پھو پھی، ان کے کمپاونڈر کا رول ادا کرتی تھیں یعنی مریضاؤں کو مکسچر وغیرہ بنا کر رہتی ہوں گی ۔ دادی ( ڈاکٹرنی) بولتی جاتی تھیں۔

فلاں ننکچر اتنا، فلاں پاؤڈر اتنا اور پانی اتنا پر۔  پانی نہ ڈالنے کے لیے ہندو عورتیں پکار اٹھی تھیں وہ ہم گھر میں ڈال لیں گے۔اس پر دادی نے کہنا شروع کیا ۔ ایکوا (aqua) اتنا پھوپھی بوتل سے آونس فلاسک میں ڈالتی ہوں گی اور اس پر عورتوں کو اعتراض نہ ہوتا ہوگا۔‘‘(۲)

حسن منظر کے والد سید مظہر حسین نے ننتی تال اور گورکھپور کے کانونٹس میں اپنی ابتدائی تعلم کا آغاز کیا۔ پھر ایم اے او کالج علی گڑھ اور مسلم یونیورسٹی سے بی۔ایس۔سی کیا۔آتے ہی شادی ہوئی  تاہم سال بھر کے اندر یتیم  ہو گئےاور خاندانی زمداریوں  کا بوجھ ان پر آن پڑا ایم ایس سی کمیسٹری ان کا شوق سول سروس ان کا خواب تھا۔

یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کی شخصیت اور عملی زندگی

جس کی تیاری ابھی انہوں نے کی لیکن والد کی وفات کے بعد مالی مشکلات کا سامنا کرنا پڑا۔ یوں اسی تعلیم پر اکتفا کرتے ہوئے انہیں ریلوے گارڈ کی معمولی ملازمت اختیار کرنی پڑی۔ اس وقت تک ان کی شادی انورجہاں بیگم سے ہو چکی تھی ۔ اور وہ بچوں کے باپ بن چکے تھے۔ بطور گارڈ۱۹۴۷ء میں اپنے کنبے کے ساتھ لاہور آئے ۱۹۶۲ء تک لاہور میں رہے کراچی مسلمان کی سروس اختتام کو پہنچی۔ ۹ اکتوبر ۱۹۸۲ء کو حیدرآباد میں انتقال کر گئے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اپنے اندر پیدا  ہونے والی تلخی  کو چھپا نہ سکے ۔والد کے انتقال کے وقت اسپتال میں موجود نا کافی سہولتوں اور ہسپتال عملے کی ہے حسی کا ذکر کرتے ہوئے  کہتے ہیں کہ:

 ’’پا با مشکل ڈیڑھ دو ماہ میرے پاس رہ کر ایکا ایکی اپنے پیدا کرنے والے سے جاملے منہ سے کچھ نہیں کہتے تھے میں سمجھتا رہا وہی گھبراہٹ ہے کراچی جانے کی کہ گھر بند پڑا ہے اور ان کے مسائل۔۔۔ لیکن انھیں اندرونی تکلیف تھی جب ایکس ریز وغیرہ اور Scan کی نوبت آئی تو وہ غشی میں چلے گئے۔ سول اسپتال میں رکھنے کا دکھ ہے جہاں سے ہزار درجہ بہتر نانیچریا کا قصبوں کا اسپتال ہے۔ اور جب ایکا غیر متوقع طور پر وہ لمحہ آیا ہے تو رودابہ کلینک کےSucker سے حلق صاف کر رہی تھی، میں فٹ لیمپ جلا رہا تھا۔ وہیں ناجیہ اور طاہرہ بھی مصروف تھیں اور نوفل بھی یعنی ہم گھر والے کاش یہ لوگ اپنے کو انسان کہنا چھوڑ سکیں۔ (۳)

والد جو کہ اس دنیا کی عظیم ہستی ہے ۔ اور اپنے بچوں کا سر تاج ہوتا ہے۔لہذا اپنے والد کے بارے میں حسن منظر بناتے ہیں کہ:

’’ علم کے شیدائی تھے جیسے بھی ضرورت ہوا انہیں انگلش سائنس وغیرہ پڑھنا محکمے کے ساتھیوں کی سرکاری خطوط و کتابت ان کی دلچسپیاں تھیں۔ مذہبی آدمی تھے۔ انگلش ادب کا ذوق انھوں نے ہی مجھ میں پیدا کیا۔ برنارڈشاہ،چارلس ڈکنز، آتھر کونن ڈویل اور آسکر وائلڈ ان کے پسندیدہ مصنف تھے ۔ (۴)‘‘

حسن منظر کی والدہ کا نام انور جہاں بیگم تھا(وہ قاضی عاشق حسین کی بیٹی تھیں جو تیرتھ میں اٹینشن ماسٹر تھے۔

قاضی عاشق حسین نے دو شادیاں کی تھیں۔ پہلی شادی سےحسن منظر کی والدہ انور جہاں کے علاوہ تین بیٹیاں اور دو بیٹے تھے۔ امیر جماعت اسلامی سید منور حسن، حسن منظر کے سگے خالہ زاد بھائی ہیں انہوں نے رسمی تعلیم حاصل نہ کی تھی۔ بہت کم عمری میں ان کی شادی ہوئی۔مذہبی اور عبادت گزار خاتون تھیں ۔ مزاج میں سادگی، رواداری اور فراخ دلی حد درجہ موجود تھی۔

"ماں اس دنیا کی عظیم ہستی ہے” اپنے بچوں کے دکھ درد کی ساتھی  ہوتی ہے ۔

حسن منظر اپنی والدہ کو کوں یاد کرتے ہوئے کہتے ہیں :

’’والدہ نے کسی درسگاہ کی شکل نہیں دیکھی تھی شادی سے پہلے ہی ان کی والدہ چل بسی تھیں۔  بہت کم عمری میں شادی ہوئی عبادت گزار تھیں۔ ساری زندگی سوائے آخری چند سالوں کے جمعہ کے دن ظہر کی نماز کے بعد صلوٰۃ التسبیح پڑھی ۔

ان آخری چند سالوں میں وہ مجھ تک کو نہیں پہچان سکتی  تھیں میں ریلوے میں ملازم ہوا اور کہتی تھیں۔سب کو ارٹرالاٹ کر رہے ہیں آپ بھی کرا لیجیئے۔ کٹر پن  ان میں نام کو نہیں تھا۔ ادب کا شوق انہوں نے میری گھٹی میں ڈالا تھا فلمیں والد صاحب کے ساتھ کم والدہ کے ساتھ (۱۹۶۷) سے پہلے، زیادہ دیکھیں ۔ ان کا بھی قابل تعریف ذوق ان میں تھا۔ مگر آخر میں فلم دیکھتے ہوئے سوجانا ان کی مجبوری بن گئی تھی” (۵)

ان کا انتقال ۱۹۹۱ ء میں ہوا۔

سید مظہر حسن کی پانچ اولادیں ہوئی تین بیٹیاں اور دو بیٹے، دو بھائی اور تین بہنوں میں حسن منظر دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان کی ترتیب اس طرح سے ہے بڑی بہن ماظرہ خاتون  (۲) منظر حسن (۳)  چھوٹا بھائی حسن نیز (۴) بہن ناہید (۵)  بہن تمینہ  ان کے بھائی نیز تقریباً گیارہ سال کی عمر میں سینے کے کینسر میں مبتلا ہو کہ کراچی میں وفات پاگئے۔ انہوں نے اپنے افسانوی مجموعہ” رہائی ”  کا انتساب اپنے بھائی کے نام ان الفاظ  سے معنون کیا:

’’اپنے اکیلے مرحوم بھائی

نیر

کے نام

پیدائش لاہور ۔ اگشت ۱۹۵۱ء‘‘

وفات کراچی ۲۸ مئی ۱۹۶۲ ( المفوسار کو مار سینے کا کینسر ہے۔‘‘(۶)

 جس  نے مرنے سے تھوڑی دیر پہلے شدید سینے کے دور کی حالت میں جس سے باہر ایک درخت پر گلہری کو دیکھ کر اپنی اس مسرت میں شریک کیا تھا۔”

اپنے اکلوتے بھائی کی جدائی کا غم انہیں تا عمر رہا۔

پیدائش

 گداپاڑہ، ضلح ہاپوڑ میڑھ صوبہ جات متحدہ آگرہ اودھ (موجودہ اترپردیش ) میں بروز اتوار ۴ مارچ ۱۹۳۴ء کو ایک بچے کی پیدائش ہوئی۔ جس کا نام حسن منظر جبکہ اصل نام سید مظہر حسن ہے۔ جو کہ پانچ بہن بھائی ہیں۔ جن میں دو بھائی اور تین بہنیں شامل ہیں اور حسن منظر دوسرے نمبر پر ہیں۔ ان کی ترتیب اس طرح ہے۔بڑی بہن ناظره خاتون (۲) منظر حسن (۳) چھوٹا بھائی حسن، نیز،(۴) بہن ناہید،(۵)  بہن ثمینہ  شامل ہیں۔لیکن ان کے بھائی حسن نیز تقریبا گیارہ سال کی عمر میں سینے کے کینسر میں مبتلا ہو کر کراچی میں وفات پاگئے۔ حسن منظر خود اپنی پیدائش کے بارے میں ذکر کرتے ہیں:

’’میری پیدائش ۴ مارچ ۱۹۳۴ء کو اتر پردیش میں ہوئی ۔‘‘(۷)

کچھ عرصہ انہوں نے  "حسن معوض” کے  قلمی نام سے بھی اپنی نگارشات پیش کیں ۔  اس بارے میں خود ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

’’حسن معوض دراصل میرے بچن کا نام ہے ۔‘‘(۸)

جس محل میں حسن منظری کی پیدائش اور پرورش ہوئی وہ محل کے نام سے موسوم تھا۔ ممتاز فکشن نگار ڈاکٹر حسن منظر کی پیدائش کے حوالے سے لکھتے ہیں کہ:

’’حسن منظر ۴ مارچ ۱۹۳۴ ء کو ہاپڑ، اتر پردیش برطانوی ہندوستان میں پیدا ہوئے۔‘‘(۹)

حسن منظر کا بچپن اتر پردیش کے مختلف چھوٹے شہروں مرادآباد، ہاپڑ میں گزرا۔ اس کے علاوہ انکا دوسرا آبائی مکان محلہ خوبی پور گور کپھورمیں تھا جب کہ دہلی میں حسن منظر کے ننھال کے جابسنے کے بعد سال میں ایک سے تین بار تک دلی میں جانا ہو جاتا ہے ۔

تعلیمی زندگی

تعلیم چاہے وہ دینی ہو یا دنیاوی دونوں کا حاصل کرنا ضروری ہے۔اسی طرح  حسن منظر نے  بھی قرآن پاک کی تعلیم گھر میں حاصل کی۔ اس کے علاوہ پہلی تین جماعتیں بھی گھر میں مکمل کیں۔۱۹۴۱ء میں وہ پہلی مرتبہ مراد آباد کے ایک اسکول میں داخل ہوئے اور ابتدائی تعلیم بیوئٹ مسلم ہائی اسکول حیدر آباد سے حاصل کی اپنے اسی دور  کے اساتذہ میں سے وہ بھگت رام صاحب، عبدالمجید صاحب ، عبد ال صاحب ، محبوب احمد خان اور محمد احمد خان کا نام بڑی عقیدت سے لتے ہیں،حسن منظر اپنے اساتذہ کے بارے میں ذکر کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

’’میرے بعض اساتذہ اچھے شعر گوں تھے اُنہوں نے ہائی سکول تک پڑھایا لیکن اگر آج بھی مل جائیں اور میں ان کے سامنے سر جھکا کر بیھٹوں تو مزید کچھ حاصل کرکے ہی اٹھوں گا۔‘‘(۱۰)

اس کے بعد حسن منظر کو ھیوئیٹ مسلم ہائی اسکول مراد آباد میں داخل کروایا گیا۔ حسن منظر شروع سے قابل طلباء میں شمار ہوتے ہیں۔ تمام اساتذہ اکرام نے ان کی تعلیم و تربیت کو سنوارنے میں اہم کردار ادا کیا ۔ لیکن سابقہ استاد بھگت رام شرما کا ان سے لگاؤ زیادہ دیکھ کو ملتا ہے۔اپنی تعلیمی زندگی کا احوال حسن منظر ان الفاظ میں بیان کرتے ہیں کہ:

’’میرے سابقہ استاد بھگت رام شرما صاحب نے زائد مطالعہ کے لیے کچھ کتابیں دے رکھی تھیں جو کہ ہائی اسکول کے امتحان میں اعلیٰ کامیابی کے لیے مدد گار ہوگی ۔ ارادہ یہ تھا جب چند ماہ بعد واپس پاکستان آئیں گے انہیں ان کی کتابیں پہنچا دوں گا۔وہ سارا سامان جن صاحب کے حوالے کرکے آئے تھے وہ بچھڑاؤں لے گئے کیونکہ مکان متروکہ جائیداد قرار دے کر ان سے خالی کرا لیا گیا تھا ۔‘‘(۱۱)

یہ اس دور کی بات ہے جب ہندوستان کی آزادی کی تحریک عروج پر تھی۔ مسلم لیگ اور کانگریس ہر دو جماعتیں اپنے اپنے پلیٹ فارم خاصی فعال آنے والے وقت کی تیاری میں مصروف تھیں۔ 

سکول کی فضاء میں مسلم لیگ کی حمایت

حسن منظر کے والد   مسلم لیگ کے حامی تھے۔ خود حسن منظر کے اسکول کی فضا میں مسلم لیگ کی حمایت رچی بسی تھی۔ مسلم اسٹوڈنٹس فیڈریشن کے پلیٹ فارم سے حسن منظر کو بھی چند ذمہ داریاں تفویض کی گئی کئی مرتبہ ۱۹۴۹ء کے انتخابات میں وہ پردہ ذاد خواتین کو مسلم لیگ کے حق میں امادہ کرنے کے لیے بھی جاتے رہے لیکن اس کے باوجود مسلم لیگ کے باقاعدہ رکن نہیں بنے۔ اگرچہ حیدرآباد فسادات کے لپیٹ میں نہیں آیا لیکن خوف کے ماحول نے تقسیم کے بعد وہاں کے مسلمانوں کو ہجرت کی تحریک دی۔ دسمبر ۱۹۴۷ء میں حسن منظر اور ان کے اہل خانہ نے لاہور کے سرزمین پر قدم رکھا۔ حسن منظر ہجرت کے وقت کی غیر یقینی صورتحال کا اعادہ کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:

’’ میں ہجرت کے وقت وہاں بہت کچھ چھوڑ آیا تھا ان میں دادا کی، والدہ کی اور میری کتابیں تھیں جن کا تعلق اسکول سے نہیں تھا۔ والدہ نے باسمتی چاول شاید پانچ دس سیر ایک لوہے کی ٹنکی میں آئندہ کے لیے رکھے کیونکہ دوسری عالمی جنگ کے پسند کا اناج مشکل تھا دو چارپائیاں باورچی خانے کی چیزیں سب کام آئے گیں۔ پھر جیسا کہ خبر گرم تھی دونوں ملکوں میں آنا جانا رہے گا میں اپنے میڈل کپ اور دیگر انعامات پاکستان لے جاؤں گا لیکن سب وہی رہ گئے ۔‘‘(۱۲)

جب ۱۹۸۳ء  میں مراد آباد آگیا طبیعت میں مردانی  چھائی تھی ۔ محلوں کی آبادی بدل چکی تھی پہچانے ہوئے چہرے کراچی میں تو نظر آتے تھے جہاں کے تھے وہاں نہیں نئے ملک میں قدم رکھتے ہی ان کا پہلا مستقر اگلے چند دن ریلوے کیمپ تھا وہاں انہیں بہت سی مشکلات کا سامنا تھا۔ حسن منظر ان شب و روز کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں ۔

’’ ہم جب ہندوستان سے آکر لاہور ریلوے اسٹاف ٹرانزٹ کیمپ (۴۰ میو روڑ) لاہور میں رہے تھے ایک منجی میرے بستر میز کرسی کا کام دیتی تھی۔ والد والدہ اور بڑی بہن فرش پر سوتے تھے۔ وہ عجیب و غریب چارپائی موٹی رسی سے اس طرح بنی گئی تھی کہ اگر کوئی چھوٹا بچہ اس پر  چھوڑا جاتا تو اس کی ٹانگیں نیچے نکل جاتیں اور دو ٹانگیں نکالتے اور دوبارہ گھسانے کے عمل میں لگ جاتا یا رو رو کر آسمان سر پر اٹھا لیتا میں اس منجی پر آلاارم لگا کر تو سوتا تھا۔ دوبجے سے اٹھ کر بلب روشن کرتا جو سب کے سر پر لٹک رہا تھا اور پڑھنے میں لگ جاتا۔‘‘(۱۳)

ماحول میں اجنبیت کا حساس دوچند تھا  تو اندیشہ فردا بھی لاحق تھا۔ اسی دوران ریلوے کیمپ کے انچارج شیر احمد بٹ نے ان کاداخلہ اقبال ہائی اسکول گڑھی شاہو میں کرا دیا جہاں انھوں نے میٹرک کا امتحان امتیازی نمبروں سے پاس کیا اور وظیفہ حاصل کیا۔ تب تک لاہور شہر سے اجنبیت کا احساس کم ہو گیا تھا انٹر فارمین کرسچین کالج لاہور سے کیا۔ اسلامیہ کالج سے ۱۹۵۰ء میں بی ایس سی کیا۔ کنک ایڈ ورڈ میڈیکل لاہور سے ۱۹۵۰ ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری حاصل کی اس دوران طویل علالت ( گردوں اور گلے کی تکلیف)کے باعث کئی وقفے بھی آئے۔ بہر حال ایم بی بی ایس کے بعد ۱۹۵۸ ء میں کراچی آگئے اسی طرح طبی نفسیات میں مہارت حاصل کرنے کی خوائش یونیورسٹی آف ایڈمبنرا اسکاٹ لینڈ لے گئی اور وہاں پر سے ڈی بی ایم کی ڈگری پائی رائل کالج آف فریشتر اینڈسر جنیز  ایڈ مبرا گلاسگو سے ڈی ایم (سائکیسڑئ) کی اعلیٰ اسناد پائیں۔ وطن واپس آکر طب کے شعبے سے منسلک ہوئے۔

ملازمت

پاکستان آنے کے بعد ملازمت کے سلسلے میں کراچی رہائش اختیار کی۔ اور پہلی ملازمت سینٹرل ایکسائز اینڈ کسٹمر ہسپتال ہری پور کراچی میں اختیار کی ۔ اور یوں ۲۴۵ روپے ماہوار پر بطور میڈ یکل آفیسر کی حثیت سے ملازمت کا آغاز کیا ایک برس تک سمندری لہروں کا نظارہ کیا پھر رائل ڈچ مرچنٹ نیوی کا حصہ بن گئے اور بطور ٹیپ سرجن سمندر کے سینے پر سفر کرتے رہے ایک برس بعد کراچی آئے ۔ بعد ازاں وہ دوسرے ممالک میں بھی رہے کچھ عرصہ لاکھیت میں پریکٹس کی ۔ پھر سعودی عرب کا رخ کیا جہاں بطور گائنا کالوجسٹ الشرق ہسپتال الخوبر سے جڑے رہے۔ ایک برس بعد شمالی نائیجریا کے شہر کدونہ پہنچ گئے کچھ عرصہ ایڈہ میں گزرا پھر لیگوس (نائیچریا) کا رخ کیا ۱۹۶۸ء تک اسٹنٹ میڈیکل  آفسر آف ہیلتھ کی حیثیت سے طبی خدمات انجام دیں۔

طبی نفسیات میں مہارت حاصل کرنے کی خواہش پونیوسٹی  آف ایڈمبرا (اسکاٹ لینڈ) لے گئی انہیں ابتدا ہی سے اس شعبہ میں دلچسپی تھی تاہم خواہش کی تکمیل کے لیے انھیں دس سال انتظار کرنا پڑا کچھ عرصہ رائل ایڈ مبرا ہسپتال میں کام کیا۔ پھر ڈی ہمونٹ کے ایک ہسپتال میں بطور سائیکاٹرسٹ ملازمت مل گئی۔ اس عرصے میں یونیورسٹی آف ایڈ مبرااور  رائل کالجز آف فزیشنز اینڈ سرجنز سے نصابی  مراحل طے کیے۔تین برس تک یونیورسٹی آف ملایا کوالالمبور میں تدریسی ذمہ داریاں نبھانے کے بعد پاکستان لوٹ آئے اور حیدر آباد میں کلینک شروع کیا  ۱۹۷۳ء سے وہ سندھ سائیکاٹرک کلینک کے فلیٹ فارم سے نفسیاتی الجھاؤ سلجھانے میں جٹے رہے۔  ایک انٹرویو میں ڈاکٹر حسن منظر نے اپنی معاشی جد و جہد کا خلاصہ ان الفاظ میں بیان کیا ہے:

’’ ۲۲۵ روپے ماہ وار پر ماڑی پور کے سینٹرل ایکسائز اینڈ لینڈ کسٹم اسپتال سے منسلک ہوا۔ رائل ڈچ مرچنٹ نیوی میں وقت بیتایا ، رائل میں پریکٹس کی، پھر سعودی عرب کا رخ کیا وہاں پر پکٹس کی پھر سعودی عرب کا رخ کیا۔ وہاں شہر ایڈہ میں بڑی بیٹی کی پیدائش ہوئی نا نیجریا کے صدر مقام لیگوس میں اپنی بیگم ڈاکٹر ظاہرہ کے ساتھ پبلک ہیلتھ کے شعبے میں بھی کام کیا۔ ۷۳ میں وہ پاکستان لوٹ آئے حیدر آباد میں سندھ سائیکاٹرک کلینک شروع کیا۔ ۲۰۱۲ء میں خاندان کراچی منتقل ہوگیا اور دو برس میں بعد کو خیر باد کر دیا۔”(۱۴)

  یو ملازمت کے بہانے کئی ممالک کی سیاحت بھی کی ۔

ازدواجی زندگی

۱۹۶۰ء  میں اپنی  تایا زاد کرن ڈاکٹر طاہرہ سے رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے۔ ڈاکٹر طاہرہ رحمان حسن منظرکے تایا سید بذل الرحمن کی دختر تھیں اور ۱۹۳۵ میں بریلی میں پیدا ہوئی۔انھوں نے تعلیم حیدر آباد سے حاصل کی ۔ ان کی شریک حیات چائلڈ اسپیشلسٹ اور ایک پڑھی لکھی خاتون تھیں۔ طاہرہ صاحبہ کو مختلف زبانیں سمجھنے میں مہارت حاصل تھیں یہی وجہ ہے کہ حسین منظر اپنی کتابوں سے متعلق یا کوئی مشورے لیتے اور ان مشوروں کو بہت اہمیت دیتے ہیں۔ حسن منظر اس حوالے سے یوں ذکر کرتے ہیں کہ:

 ’’جب لکھنا باقائدگی سے شروع کیا اکثر والدہ سے پوچھتا تھا یہ بات یوں ہے یا یوں ؟ وہ جواب دیتی تھیں وہ ہمیشہ صیح نکلا اب وہ نہیں ہیں تو ڈاکٹر طاہرہ سے پوچھ لیتا ہوں۔‘‘(۱۵)

حسن منظر کی بیوی طاہرہ بیگم جو کہ ایک خیال رکھنے والی نہایت صابر و شاکر خاتون تھیں ڈاکٹر طاہرہ رحمان  نہایت سادگی پسند اور عبادت گزاے تھیں۔حسن منظر طاہر اقبال کا ذکر  کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ:

’’ہم دونوں ایک دوسرے کا خیال رکھتے تھے اور مختلف مقامات میں ایک دوسرے کا ساتھ دیتے تھے اور دونوں ہر کام میں ہر پل خیال رکھتے تھے۔”(۱۶)

حسن منطر کی بیوی طاہرہ اقبال (جو بچوں ڈاکٹر خصوصی تھیں) اور چند ماہ قبل کووڈ(COVID) میں مبتلا ہو کے دنیا سے کوچ کر چکی ہیں۔ اس حوالے سے حسن منظر لکھتے ہیں کہ :

’’۱۹۶۲ سے لے کر ان کے دنیا سے ۲۰۲۱ء ، رخصت ہو جانےتک ہم دونوں جہاں گئے ساتھ گئے ۔ ایک دوسرے کے والدین کا بہت خیال رکھتے تھے ۔دونوں ایک دوسرے کو والدین کا خیال بہت رکھتے تھے ۔ آخری بیماری میں میرے چھوٹے بھائی والد، والدہ کو انہوں نے ہی سنبھالا میرے کی بہترین کھری ناقدوہ تھیں میں ان کی بچوں کی بیماریوں کی دنیا میں دلچسپی لیتا تھا وہ میری دماغی نفسیاتی بیماریوں کی دنیا میں۔‘‘(۱۷)

اولاد

حسن منظر کو خدا تعالیٰ نے اولاد کی نعمت سے بھی نوازا ہے۔ اس لیے حسن منظر نانا اور دادا دونوں کے منصب پر فائز ہو چکے ہیں حسن منظر کی دو بیٹیاں اور ایک بیٹا ہے۔ جسکا نام نوفل ہے۔ جو کراچی میں ۱۹۶۳ ء میں پیدا ہوا۔ حسن منظر اپنے بیٹے تو فل کا ذکر کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:

’’یہ نام ( نوفل) رکھنے پر کچھ لوگ ہنستے تھے کہ  یہ کیسا نام ہے ان کو بتانا پڑتا تھا کہ م رسولؐ  کی تاریخ میں کس کا نام تھا۔‘‘(۱۸)

اس کے علاوہ حسن منظر کی دو بیٹیاں رودابہ اور ناجیہ ہیں۔ اور  رودابہ جوکہ ایڈہ شمالی نائجیریا  ۱۹۶۵ء کو پیدا ہوئی اور ناجیہ اسکاٹ لینڈ ۱۹۸۰ء کو پیدا ہوئی۔ اور بڑی بیٹی میڈیکل کے شعبے سے منسلک ہے اور آپ کے تینوں بچے شادی شدہ ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ نوفل اور رودابہ دونوں ہی ڈاکٹری کے پیشے سے منسلک ہیں جبکہ ناجیہ نے ایم ایس سی بیالوجی کیا ہے۔

آپ کی بیٹی رودابہ جو کہ شادی شدہ ہے شادی کے بعد نیویارک چکی گئی اور اب وہاں رہائش اختیار کر چکی ہیں ۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں