حسن منظر کی افسانہ نگاری

حسن منظر کی افسانہ نگاری | Hassan Manzar ki Afsana Nigari

حسن منظر کی افسانہ نگاری

 حسن منظر بطور افسانہ نگار

 حسن منظر ایک افسانہ نگار ہیں ۔ انہوں نے جو کچھ لکھا ہے اپنی فطری انداز میں لکھا ہے۔ یہ میرا کہنا ہے کہ وہ ایک الگ انداز کے افسانہ نگار ہیں ۔ کئی شاعر اور ادیب ایسے ہو گزرے ہیں جو ہر طرح منفرد تھے مگر ان کی انفرادیت میں وہ طاقت نہیں تھی کہ اس کا اتباع کیا جاسکتا اسے یہ نظر امتحان دیکھایا۔

دیکھنا یہ ہے کہ آخر کن مصنفوں میں حسن منظر ایک الگ انداز کے  افسانہ نگار ہیں۔  ان کایہ الگ قسم کا انداز انہیں افسانہ نگاری کی دنیا میں کس مقام پر فائز کرتا ہے۔  حسن منظر اس کھیپ کے آدمی ہے جو افسانہ نگاری میں ممتاز اور فعال تھے اور ابھی تک ہے ان کا شمار آج کے زندہ افسانہ نگاروں میں ہوتا ہے۔

یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کا ناول العاصفہ کا تنقیدی جائزہ pdf

 حسن منظر نے خاصی تعداد میں افسانے لکھے ہیں ان کی تعداد ساٹھ ستر سے کم نہیں ہوگی۔ یہ غالباً پچاس ساٹھ کی دہائی سے لکھ رہے ہیں مگر سوال یہ نہیں ہے کہ کس  نے دس افسانے لکھے ہیں اور کس نے دس ہزار دیکھنا یہ ہے کہ جس نے جو کام کیا اس کا معیار کیا تھا۔

 حسن منظر کو ایک الگ قسم کا افسانہ نگار اس لیے کہا جاتا ہے کہ ان میں اپنی کسی ہم عصر کی چھاپ نہیں ملتی۔ اگر کسی افسانے کو پڑھنے کے بعد قاری کو کچھ یوں محسوس ہو کہ کہانی تو ختم نہیں ہوئی تو وہ خاصا برا مانتا ہے اور سوچتا ہے کہ لکھنے والے نے جو کچھ کہنا چاہا تھا جب اس نے دیکھا کہ اس نے کہا جا رہا ہےتو نکل بھاگا ہے۔

یا پھر جب وہ افسانے کو پڑھنے کے بعد کچھ یوں محسوس کرتا ہے کہ افسانہ نگار کو تو ابھی بہت کچھ لکھنا چاہیے تھا مگر اس نے نہیں لکھا تو اس کے ذہین میں سوچ پیدا ہوتی ہے کیا واقعی یہی صورتحال ہے: اگر افسانہ نگار نے کہانی یہاں ختم کی ہے تو کیوں کی ہے؟ اور پھر اگر وہ سوچے کہ  افسانہ نگار نے یہ جو اختتام کیا ہے ٹھیک ہی ہے۔

ناول دھنی بخش کے بیٹے کا تجزیہ pdf

یہ تشنگی جو مجھے محسوس ہو رہی ہے یہی اس کا حسن ہے اس میں جو میں سمجھ رہا ہوں کہ نہیں ہے وہ موجود ہے بس میں نے سوچا نہیں تو آپ جان لیں کہ افسانہ نگار کامیاب رہا ہے۔ حسن منظر کے افسانوں کا اختتام ہمیشہ ہمیشہ تو زیادہ تر اسی طرح ہوتا ہے کہ لگتا ہے ابھی اگے بہت کچھ ہونا چاہیے مگر دوسری سوچ بتاتی ہے کہ نہیں اب مزید کچھ نہیں لکھا جا سکتا سب اس میں موجود ہیں اور یہ صفت حسن کے بنا انہیں ایک الگ قسم کا افسانہ نگار کہا جا سکتا ہے۔

حسن منظر نے لکھنے کا آغاز افسانے سے شروع کیا طالب علمی کے زمانے میں انہوں نے  انجمن ترقی پسند مصنفین کے اجلاس میں افسانے پیش کیے سعادت حسن منٹو نے ان کا افسانہ "لاسہ” سنے کے بعد انہیں داد پیش کی۔

حسن منظر نے اپنے بدلتے ہوئے منظر ناموں، متنوع موضوعات اور سادہ اسلوب کی بنا پر اپنا نام پید کیا یہی وجہ ہے کہ ۱۹۸۱ء میں حسن منظر نے افسانوں کا مجموعہ "رہائی” کے نام سے شائع ہوا۔ جس میں موجود تمام افسانے نئے تھے۔ اس کے علاوہ ان کا دوسرا افسانوی مجموعہ "ندیدی ” کے نام سے منظر عام پر آیا اس میں صرف  نو(۹)افسانے ہیں اور صرف ایک افسانہ تیرہ صفحات کا ہے۔ بقیہ کی لمبائی ۴۰ صفحات تک کھینچتی ہوئی ہے یہ سارے افسانے اس کے رہائی میں لکھنے گئے ہیں۔

 ان کے افسانے "ندیدی ” کو سن کر احمد ندیم قاسمی نے کہا تھا ان کا افسانہ اور اسے کہنے کا اسلوب پختگی کو پہنچ گیا ہے۔

حسن منظر کا پہلا افسانہ

حسن منظر کا پہلا افسانہ ۲۲ صفحات پر مشتمل ہے۔ اس کا نام "بے چارے” ہے یہ افسانہ واحد متکلم "میں” لکھا ہوا ہے افسانے کا مین کردار ایک پاکستانی ہے جو انگلینڈ میں رہتا ہے انگریزی کا ادیب ہے کتاب مبیزیل کے لیے کراچی اور دوسرے ممالک کے دورے پر نکلتا ہے۔ وہ کھپوڈ جاتا ہے وہ سلون جاتا ہے یہ گویا سفرنامہ ہوتا ہے جو وہ لکھ رہا ہوتا ہے۔ یہاں وہ اپنے انگلینڈ کے دوستوں کے فرمائش بھی پورا کرتا ہے۔ مثلاً اس کا دوست چاہتا تھا کہ وہ اسی کے رشتہ داروں کے بارے میں پتہ کی۔

’’افسانہ بے چارے” میں افسانہ نگار نے یہئ کچھ بیان کیا ہے۔اور کچھ اس کی جھلکیاں یوں بیان کی گئیں  ہیں ۔کمپوڈ میں اس مہامندر میں جس بوڑھے سے میری ملاقات ہوئی اس نے کھانستے ہوئےتذکرہ کیا تھا۔ سنا ہے پھپھڑوں کی نالیوں کے دمے کے لیے کوئی نئی دو  اانگلینڈ میں ایجاد ہوئی ۔‘‘(۳۳)

افسانہ” بچارے”اس طرح کی کہانی سے عاری کہا جا سکتا ہے گو اس میں کہانی پھر بھی موجود لگتی ہے چھوٹے چھوٹے جملوں سے مشرق کی غربت یہاں کے لوگوں کی فطرت ان کی آرزوئیں اور سوچوں کی تصویر  اس میں ملتی ہیں اور ختم ہو جاتی ہے اسے پڑھ کر معلوم ہوتا ہے کہ کسی ناول کا ایک باب رہا ہو۔

افسانہ کھوکھلا شہر

 حسن منظر کا ایک اور افسانہ کھوکھلا بھی ہے. اس میں غضب کی Readability ہے. کسی پراسرار افسانے کا سا آغاز قاری کو پکڑ کر اگے بڑھاتا ہے اور ایک ایسے علاقے میں پہنچا دیتا ہے جہاں کے لوگوں کے پاس سردیوں کے گھر نہیں گرمیوں کے گھر ہیں ایک اینٹ کے گھر ہیں اور جہاں ایسے بھی ہیں جن کے گھر نہیں۔

حسن منظر ان افسانہ نگاروں میں سے ہے جو حقیقت کو بڑی فنکاری کے ساتھ افسانہ بنا دیتے ہیں ان کی مشاہداتی نگاہ باز کی طرح تیز اور کمرے کی طرح حساس ہیں۔ وہ زندگی کو پرت پرت دیکھتے ہیں اور انسانوں کے چہرے اور ان کی گفتگو سےان کی اندر کی دنیا کی شناخت بھی بڑی مہارت سے کر لیتے ہیں۔      طبقاتی کشمکش اور استحصال کے شکار انسان کا ذکر ان الفاظ میں کرتے ہیں کہ :

’’ مجھے استحصال اور تشدد کے  شکار، درد اور ناانصافی سے خوف زدہ گوشت پوست کے انسان لکھنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔‘‘(۳۴)

یہی وجہ ہے کہ انہوں نے اپنے افسانوں میں طبقاتی ،بوژوائی اور زمیندارانہ نظام کے خلاف ہمشہ آواز بلند کی۔ وہ مراعات سے محروم  طبقے کی نمائندگی کرتے ہیں۔

 افسانہ انسان کا دیش

 افسانہ انسان کا دیش میں دنیا میں آزادی کا ایک خواب دیکھنے والا کردار موجود ہے جو اس زمانے کے تمام بنگالیوں کی زینت کی نمائندگی کرتا ہے۔ وہ اچھی نوکری پر لات مار کر بنگلہ دیش چلا جاتا ہے مگر وہاں  پہنچ کر بے روزگاری کے سبب جس ک کسپمیرسی، مالی پریشانی اور بے وقتی کی دلدل میں پھنس جاتے ہیں اور اس کے سارے خواب گرجیوں میں بدل جاتے ہیں وہ اس حد تک روہا لسان اور مایوس ہو جاتا ہے کہ وہ شرمندہ و شرمسار ہو کر دوبارہ اپنے "شادھن ہانگلا”  کو غربت تنگ دستی  اور انگنت مسائل میں جکڑا ہوا چھوڑ کر اسی ملک میں واپس آجاتا ہے جس سے اسے نفرت اور جس میں بسنے والوں سے اسے شدید عداوت تھی۔ اس کے متعلق حسن منظر کچھ یوں رقم طراز ہیں۔

’’ اس افسانے میں کل دس افسانے ہیں یہ سب سے طویل افسانہ” انسان کا دیش” ہے  کتاب کا نام بھی اس افسانے کے عنوان پر رکھا گیا ہے۔ افسانہ طویل ہونے کے باوجود سب سے اچھا ہے۔ موضوع بنت، ماجرائیت، کردار نگاری انسانی نفسیات اور جنسیت کے ساتھ ساتھ ماحول کی فنکارانہ عکاسی اس میں پائی جاتی ہے۔‘‘(۳۵)

حسن منظر کے تمام افسانے اہمیت کے حامل ہیں۔

 افسانوی مجموعے

  رہائی

ندیدی

 انسان کا دیش

 سوئی بھوک

 ایک اور آدمی

خاک کا رتبہ

طویل کہانی

فرفر اور رنگوں

وہ نہ صرف ظلم کے خلاف آواز بلند کرتے ہیں دنیا میں سردارانہ اور جاگیردارانہ نظام کے تحت متوسط طبقے کے ساتھ پیش آنے والے ناانصافیوں کے واقعات وہ دل ہی دل میں پڑھتے ہیں اور ان کا برملا اظہار اپنی تحریروں، افسانوں، کہانیوں اور ناولوں میں جا بجا کرتے ہیں جو حقیقت اور مقصدیت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں