موضوعات کی فہرست
حسن منظر کی ادبی خدمات
حسن منظر کی ادبی حیثیت اور تخلیقی آثار
کسی بھی ادیب کی زندگی کے مختلف پہلو ہو سکتے ہیں جہاں وہ پیشہ ورانہ تقاضوں، گھریلو زمہ داریوں کے ساتھ تباہ کر رہا ہوتا ہے۔وہیں اس کی زندگی کا ایک پہلو اس کی ادبی یا تخلیقی پہلوداری بھی ہے اس کی یہ جہت اس کی زندگی کے اتار چڑھاؤ کے ساتھ ارتقاء پزیر رہتی ہے یہ ادیب کی زندگی کا ایک ایسا پوشیدہ پہلو ہے جو ہمہ دم اس کے ساتھ رہتا ہے ۔
ایسا نہیں ہے کہ کسی جزیرے کی مانند یہ اچانک دریافت ہوا اور یہ دنیا کے سامنے منظر عام پر آیا۔بلکہ اکتساب کا عمل ہمشہ اس کے ساتھ موجود رہتا ہے یوں ایسے لوگ بھی نظر آتے ہیں جو اپنی ذہنی پختگی کے دور میں ہی بے مثال تحریروں کے ساتھ ظہور پذیر ہوتے ہیں اور ایسے بھی جو اپنی زندگی کی چار پانچ دہائیاں گزارنے کے بعد اپنی شناخت کراتے ہیں۔
حسن منظر بھی ایسے ادیبوں میں شمار ہوتے ہیں جو اپنی زندگی کی چار دہائیاں گزارنے کے بعد منظر عام پرآئے ۔یہاں تک کہ ڈاکڑ انور احمد نے اپنی کتاب ” اردو افسانہ ایک صدی کا قصہ”میں شام ڈھلے طلوع ہونے والے حسن منظر کے عنوان سے ان کا تذکرہ کیا ہے اگرچہ حسن منظر کا پہلا افسانوی مجموعہ( جس کی اشاعت کے تمام مصارف انہيں خود ہی برداشت کرنے پڑتے تھے)۱۹۸۱ میں شائع ہوا اور یہ کئی مراحل طے کرتا ہوا نظر آتا ہے۔
حسن منظر کی پہلی تحریر ۱۱جولائی۱۹۴۸ میں "دہقان” کے عنوان کےساتھ ہفت روزہ استقلال میں چھپی(۲۵) اس زمانے تک حسن منظر نے باقاعدگی سے لکھنا شروع نہیں کیا تھا۔ بعد کے آنے زمانے بیشتر نثری اصناف اور نظم میں بھی طبع آزمائی کرتے رہے لیکن نثر خاص کر افسانے کی طرف ان کا میلان زیادہ ہے۔
یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کی ناول نگاری
حسن منظر نظم سے زیادہ نثر کی طرف رجحان کے متعلق بتاتے ہیں:
’’لکھنے والا ہمیشہ صنف کو اپنے لیے منتخب کرتا ہے اس کا انتخاب کرتا ہے لیکن میرے معاملے میں اس طرح ہوا کہ صنف نے میرا انتخاب کیا نثری چیزیں تھیں نظمیں بھی پڑھا کرتا تھا میں بچپن میں کہانیاں بھی سنتا تھا اور پڑھتا تھا۔ یہ سب کچھ تھا لیکن پڑھنے کو جی چاہا تو وہ نثر کا ایک ٹکڑا تھا جو مجھے اب تک یاد ہے کہ میں نے لکھا تھا۔‘‘(۲۵)
حسن منظر کی پہلی تحریر جو انہوں نے اس وقت تحریر کی جب غالبا پانچ چھ سال کے ہو گئے۔ یہ بھی ایک حیرت انگیز امر ہے کہ انہوں نے اسکول کی چوتھی جماعت میں اس وقت داخلہ لیا وہ سات سال کے تھے۔ اپنی نثری تحریر کے حوالے سے یاداشت کراتے ہوئے حسن منظر نے بتایا:
’’کہیں پر کچھ پڑا تھا تو اس سے ملتی جلتی پیدا کرنے کی خواہش میرے اندر پیدا ہوئی تھی اور میں نے دو چیزیں لکھی تھی اس میں باغ کا ساماں تھا۔ کہانی اس میں نہیں تھی اس میں جانور موجود تھے۔ مور وغیرہ اس کو لکھنے کے بعد مجھے ایک طرح کی خوشی محسوس ہوئی تھی میرا خیال ہے کہ زیادہ تر تحقیقی کام کرنے والوں کو یہ خوشی محسوس ہو گئی ہے کہ جس میں جس کو میں نے Experience کیا تھا اس وقت‘‘(۲۶)
بعد میں آنے والے کچھ دنوں میں حسن منظر کچھ نہ کچھ لکھتے رہے یا ان سے لکھوایا جاتا مثلاً کبھی ریڈکراس کے فنکشن میں ڈرامہ لکھ دیا وغیرہ۔ لیکن شروع کی یہ چیزیں انہوں نے محفوظ نہیں رکھیں اس سلسلے میں انہیں گھر کی طرف سے سرایا گیا۔ گھر آئے مہمانوں کو حسن منظر کی وہ ابتدائی تحریریں دکھائی جاتی تھیں بعد میں آنے والے کچھ عرصے میں حسن منظر نے اپنی تحریریں جموں سے نکلنے والے "رتن” رسالے میں بھیجیں لیکن وہ نہ چھپیں
یہ بھی پڑھیں: حسن منظر کی افسانہ نگاری
جس سے انہیں وقتی طور پر مایوسی ہوئی۔ لیکن ہائی سکول کے زمانے میں ان کی لکھی کوئی تحریر چھپ گئی یوں دیکھا جائے تو انہوں نے باقاعدہ بڑوں کے رسائل سے لکھنا شروع کیا یہی وجہ ہو سکتی ہے کہ اب بھی حسن منظر اپنے بچپن کے اس پھلانگ کا مداوہ اب تک بچوں کی کہانیاں لکھ لکھ کر رہے ہو۔ بعد میں آنے والے کچھ عرصے میں حسن منظر مسلسل لکھتے رہے لیکن اسے ایک دستے میں محفوظ رکھا چھپوانے کے لیے نہیں بھیجا۔ حسن منظر اس حوالے سے بتاتے ہیں کہ:
’’مراد آباد اسکول کے زمانے میں میں نے جو کچھ لکھا اور بچوں کی رسالوں کو جہاں جہاں بھیجا وہاں ناکامی نے میرے قدم چھومے اور میں یہ سمجھنے لگا کہ لکھنے والے کو اپنی تحریر کے چھپوانے کے لیے کچھ گرہ سے دینا پڑتا ہے اور میری گرہ میں بہت کم کچھ تھا‘‘(۲۷)
ادبی زندگی میں والدین کا کردار
حسن منظر کی ادبی تربیت میں ان کی والدین کے ذوق مطالعہ کا بھی بڑا دخل تھا ان کے والد انگریزی ادب کے بڑے شائق تھے بقول حسن منظر ان کی انگریزی ادب کے مطالعے میں ان کے والد کا بڑا ہاتھ ہے۔ مغربی ادب میں حسن منظر نے ٹالسٹائی، دوستو فسکی، چیخوف، دوستوفکسی،چخیوف،ٹرکیف ، ہمرسٹ ماہم، ہارڈی،ٹامس مان،الیگز رابندر ناتھ ٹیگور وہ ادیب ہیں ۔
جنہیں حسن منظر نے دلچسپی سے پڑھا والدہ اردو کلاسیکل ادب اور فلموں کا خاصا قابل تعریف ذوق رکھتی تھیں لہذا بہت سا کلاسیکی ادب اسکول کے رسمی تعلیم سے بہت کہانیوں کی شکل میں انہيں سنا چکی تھیں حسن منظر کی ادبی شخصیت کی تخلیق میں ان کے والدین کے ذوق تربیت و رہنمائی کا بڑا دخل ہے۔
حسن منظر کی ادبی زندگی کی ارتقاء میں اگلا پڑاؤ اس وقت آیا جب ان کا تعارف پریم چند کی کہانیوں سے ہوا۔ بچوں کے ادب کو پڑھنے کے بعد یہ وہ ادیب تھے جنہیں حسن منظر نے سکول کے زمانے میں ہی پڑھا جب وہ چوتھی جماعت میں پڑھتے تھے پریم چند حسن منظر کو ایک ایسا بے غرض اور خوبصورت انسان نظر آیا بطور فنکار بھی انہیں پریم چند کے اپنے کرداروں پر نفسیاتی حوالوں سے گرفت نے متاثر کیا۔ پھر حسن منظر کو ایک اور چیز جس نے پریم چند کے ساتھ ایک رشتے میں منسلک کر دیا وہ پریم چند کی کہانیوں کا وہ وکیل ہے جس میں زیادہ تر اترپردیش خصوصاً اس کے مشرقی نصف حصے پر لکھی گئی تحریریں ہیں جن کے کرداروں کی سوچ فکر اور مکالمے حسن منظر کو متاثر کرتے ہیں۔
لہٰذا پریم چند سے پہلے تعارف کے بارے میں بتاتے ہیں کہ:
’’جس دن غنچہ بجنور میں پریم چند کا افسانہ "ہمدردی” پڑا احساس ہوا یہ بالکل ہی دوسری دنیا ہے۔‘‘(۲۸)
یہی وجہ ہے کہ انسانی کرداروں کو جس طرح پریم چند نے پورٹریٹ کیا ہے وہاں تک کم ہی ادیب پہنچے ہیں۔
حسن منظر کی ادبی شخصیت اور کلاسیکل ادب
یوں حسن منظر کی ادبی شخصیت کی تشکیل میں کلاسیکل ادب سے فہم شناسی کے بعد خود پریم چند کی شخصیت اور پریم چند کے نظریہ ادب وفن کی نمایاں اثرات دیکھے جا سکتے ہیں۔ حسن منظر کی ادبی ترجیحات کے مطالعے میں پریم چند سے ان کی محبت ایک اہم نقطہ فراہم کرتی ہے۔ یہ ان کی پریم چند سے قلبی تعلق کا ہی نتیجہ ہے کہ جس نے ان سے پریم چند کے آخری نامکمل ناول منگل سوتر اور ان کی بیوی کی یاداشتوں پر مشتمل تحریر "پریم چند گھر” کا اردو ترجمہ کرایا۔
یہ حسن منظر کے مطالعے کی وہ دنیا تھی جس سے وہ پاکستان آنے سے پہلے واقف تھے اس کے علاوہ عظیم بیگ چغتائی رتن، ناتھ سرشار اور حسن عسکری ان کی زیر مطالعہ تھے۔
فطرت سے لگاؤ
حسن منظر کی طبیعت کو فطرت سے ہمیشہ ایک خاص لگاؤ رہا ہے۔ یہ فطرت خواہ انسانوں کی ہو جس سے لگاؤ نے ہی انہیں سائکائٹری جیسی فیلڈ میں آنے کا راستہ دکھایا۔ اگرچہ یہ فیلڈ ڈاکٹری کے دیگر شعبوں کے مقابلے میں زیادہ محنت اور کم آمدنی کی حامل ہیں لیکن یہ حسن منظر کی فطرت سے لگاؤ کا اظہار ہے۔جو خود ان کی طبیعت میں قدرت کی طرف سے عطا کی گئی بےمثل دولت ہے ۔
جس کا اظہار ان کے فن اور پیشوارانہ سرگرمیوں میں ہوا حسن منظر کی طبیعت کو ہمیشہ کھلی فضاؤں، جنگلات کھیتوں اور دیہی علاقوں سے ایک خاص مناسبت رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب انہیں مراد آباد میں مسلم ہائی سکول میں داخل کر لیا گیا تب وہ اسکول سے بھاگنے لگے تھے ایک دفعہ پھر اسکول دلجمعی سے جانے لگے تھے اس کی وجہ وہ اسکول کا کھیتوں اور جنگلات کے کنارے ہونا بتاتے ہیں۔ اس حوالے سے حسن منظر کچھ یوں رقم طراز ہیں :
’’اب بھی شہروں میں راستہ بھول جاتے ہیں لیکن جنگلات میں کبھی نہیں بھولے ان کے بقول دیہات کی زندگی میں قدرتی مظاہر فطرت کو انہوں نے مسحور کن پایا۔‘‘(۲۹)
حسن منظر کو ادب میں بھی دیہات کی فضاء بہت بھاتی تھی۔ لہٰذا پنجاب کا البیلا، "بلونت سنگھ کا” اور مولانا صلاح الدین احمد خان کے رسالے "ادبی دنیا” میں پڑھا تو اس کے یہی فضاء نے انہیں متاثر کیا اپنی دیہی دنیا اور مظاہر فطرت سے لگاؤ کو بیان کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ:
’’ میں اپنی اور دوسرے بچوں کی سکول کی کتابوں میں ان اسباق کو دوبارہ تبارہ پڑھتا تھا جن میں گاؤں کی فضا زندگی کا بیان ہو,. کسان، ندی کھیت کنویں سے پر کیا جا رہا ہوں کھلی فضاء میں دوڑتے ہوئے لڑکے لڑکیاں گاؤں کے آس پاس جگتے ہوئے شام کو گھر لوٹتے ہوئے ڈھور، ہاپوڑ اور بعد میں مراد آباد سے دہلی آتے جاتے راستے میں جمنا اور گنگا کے پل مجھے رات کو بھی جگاتے رکھتے تھے۔ کب ترین دریا سے گزرے گے وہ دنیا اپنی جگہ مکمل تھی۔‘‘(۳۰)
اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فطرت سے لگاؤ حسن منظر کے ہاں بھر پور انداز میں پایا جاتا ہے۔
حسن منظر کی آرٹ میں دلچسپی
۱۹۵۰ء کی دہائی میں حسن منظر کو آرٹ کی دیگر صورتوں میں بھی دلچسپی پیدا ہوئی خصوصاً فلم "نگری "سے۔ اس عرصے میں انہوں نے ایک اسکرین پلے لکھا اس میں سب کچھ تھا جو ایک اسکرین پلے میں ہونا چاہیے یعنی مکالمے، کہانی ،شاٹس اور فوٹوگرافی لیکن اس پر پیسہ لگانے کو کوئی تیار نہیں ہوا۔
اس بارے میں حسن منظر نے بتایا:
’’ایک اسکرین پلے مع شوٹنگ کی تفصیل کو کالج کے زمانے میں لکھا جو ڈائریکٹر مرتضیٰ جیلانی(خدا)کرے حیات اور تندرست ہوں)کی پسند پر پورا اترا۔ مگر وہ اس کے لیے وہ خزانہ حاصل نہ کر سکے کیونکہ یہ بیاہتا لڑکی کی کہانی تھی اس کی عمر چالیس سال تھی ۔ڈایر یکڑ شوکت حسین رضوی کو بھی وہ پلے بہت پسند آیا لیکن اسے ہاتھ میں لینے سے پہلے وہ چاہتے تھے میں ان کے لیے اس اسکرین پلے پر کام کروں جس کا پہلا سکوئینس ان کے ذہین میں تھا۔‘‘(۳۱)
یہی وجہ ہے کہ حسن منظر کے ہاں ہمیں آرٹ سے دلچسپی بھی دیکھنے کو ملتی ہے۔
فلم انڈسڑی سے لگاؤ
حسن منظر کو فلم انڈسڑی سے بھی لگاؤ تھا۔ لیکن "فلم نگری” کے حوالے سے دیکھا جائے تو یہ حسن منظر کا فلم انڈسڑی میں آخری دن تھا کیونکہ "فلم نگری”کا ماحول انہیں پسند نہ آیا۔البتہ اس عرصے میں فلم لائن کے چند بڑے ناموں سے حسن منظر کی ملاقاتيں بھی ہوئیں ۔جن سے انہيں کافی کچھ سیکھنے کو ملا اپنی فلم کی تعلیم میں ان فلم کی بڑی ہستیوں اور ان کی بنائی ہوئی فلموں کو بھی کریڈٹ دیتے ہیں ۔آرٹ کی دیگر شکلوں میں حسن منظر کو کلاسیکی ،موسیقی ، کلاسیکل رقص ،بیلے ڈانس سے خاص کر دلچسپی رہی ہے اور کلاسیکل موسیقی کا ایک بڑا کلیکشن ان کے پاس موجود ہے۔
مشاغل
حسن منظر کو جو کھیل زیادہ پسند تھے۔ان میں ڈینٹ،تیراکی ،کشتی ،بیڈ منٹن اور شطرنج شامل ہیں۔باکسنگ میں بھی ایک آدھ مرتبہ حصہ لیا تھالیکن ایک بار چوٹ لگنے کے بعد انہوں نے دوبارہ نہ کھلینے کا تہیہ کیا تھا۔ اور پھر اپنے عہد پر قائم رہے ۔ میڈیکل میں دوستوں کو تاش دیکھ کر بھی آگیا جبکہ کچھ کھیل وہ کبھی نہ سیکھ پائے جن میں پتنگ اڑانا، کنچے کھلینا، گلی ڈنڈا پیڑ پر چڑھنا۔اس ضمن میں حسن منظر کا کہنا ہیں کہ:
’’ہلکی سی انگلی میں چوٹ لگی اجنتی ہوئی سر کو چوٹ اور میں دوبارہ اپنے اصول پر لوٹ آیا۔مجھ میں اور سخت گیند میں قابل تعریف فاصلہ رہنا چاہیے نہ میں بگاڑوں گا نہ وہ میرا کچھ بگاڑے۔‘‘(۳۲)
اس کے علاوہ شطرنج اور تاش کا ذکر بھی ملتا ہے۔
دوست احباب
انڑمیڈیٹ کے بعد ۱۹۵۰ءمیں حسن منظر کو ایسے دوستوں کا خلقہ میسر آیا۔کفیل احمد کے چھوٹے بھائی طفیل احمد خان معائشیات پر افروز اور پاکستان ٹائمز میں پابندی سے لکھتے تھے وہ فیض احمد فیض کا زمانہ تھا۔ فیض، سجادظہیر، فیروز الدین منصور ،منٹو سے تھوڑی ذاتی اور زیادہ ادبی واقفیت تھی بڑے حلقوں میں کم ملنے جلنے والے آدمی ہے ہر ملک شہر میں دوستی کا معیار کبھی کسی کے مذہبی، سیاسی رجحان اور کوئی کون سی زبان بولتا ہے ، سوشل اسٹیٹس، کیا ہے، کس رنگت کا ہے کس تہزیب سے تعلق رکھتا ہے پر نہیں ،رہا تو اس کے سوچنے کے ڈھنگ پر رہا ہے۔حسن منظر کا نا کسی سیاسی پارٹی سے تعلق رہا اور نا کسی "ازم” سے وابستہ رہے ہیں۔
رسائل ا ور تحریر یں
حسن منظر نے تین سال ایک رسالہ کیمکول اپڈیٹ کیا اس رسالےکے ایڈیشن اب بھی پنجاب یونیورسٹی کی لائبریری میں محفوظ ہیں۔ شمارہ ۱۹۵۷،۳۰ء کا عکس ضمیمہ میں موجود ہے۔ اس رسالے کے ایک شمارے کا سرورق عبدالرحمن چغتائی سے بنوایا ہے جس کا انہوں نے معاوضہ نہیں لیا۔ اس دوران حسن منظر کی تحریریں (پہلے کبھی کبھار) مختلف رسائل میں چھپتی رہیں اور یہ سلسلہ آج تک جاری ہے۔ جن رسائل میں یہ تحریری چھپتی رہیں ہے ان میں سویرا لاہور، افکار لاہور، ادب لطیف لاہور، نئی عبادت حیدرآباد ،راوی لاہور، سنگت کوئٹہ، ماحول راولپنڈی افکار و کردار کیمکول لاہور، لوح ادب حیدرآباد، راوی لاہور، لاہور، ادبیات اسلام آباد، طالب علم کراچی، روشنائی کراچی، بادبان کراچی، سب رنگ ڈائجسٹ کراچی، آج کراچی، انشاء کراچی، دریافت کراچی، نونہال کراچی، چہار سو کراچی، دنیازاد کراچی۔
دنیا زاد میں ان کی منفرد تحریریں اب بھی متواتر سے چھپ رہی ہیں ۔حسن منظر اپنی تعلیمی سلسلے کے دور میں ان ادیبوں سے ہفتے میں ایک دو بار ملنا ان کا معمول تھا جن میں نمایاں نام صفدر میر، احمد راہی، قمراخیالوی خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔ بہرحال اس تمام عرصہ میں انہیں ادب کی کئی بڑی ہستیوں سے مل بیٹھنے کا موقع ملا ۔
ایم بی بی ایس کے بعد حسن منظر ملازمت کے سلسلے میں کراچی آگئے ۔ حیدرآباد میں الیاس عشقی سے ملاقات کے بعد کچھ عرصے حسن منظر مجلس مصنفین سے بھی وابستہ رہے بعد میں یہ مجلس مصنفین ختم ہو گئی جس کے بعد ایک اور ادبی تنظیم "ادارت” کا قیام عمل میں آیا جس کے نشستیں الیاس عشقی اور حسن کے گھر پر ہوا کرتی تھیں ۔۱۹۶۲ ء کے بعد جب وہ ملک سے باہر مختلف جگہوں پر رہے اس عرصے میں ان کی بہت کم تحریر یں منظر عام پر آئیں زیادہ تر مختلف رسائل میں ان کے افسانے چھپتے رہے۔