حسن عسکری کی تنقید نگاری | Hassan Askari ki tanqeed nigari
حسن عسکری کی تنقید نگاری
سرور کے بعد سب سے نمایاں نام محمد حسن عسکری ہے ۔ ۱۹۴۰ء میں عسکری نے الہ آباد یو نیورسٹی سے بی اے اور ۱۹۲ء میں وہیں سے ایم اے انگریزی کیا۔ ایم اے سے پہلے ہی ان کی تحریریں ساقی ” اور ” ادبی دنیا میں شائع ہونا شروع ہو گئیں تھیں ۔ الہ آباد یو نیورسٹی کا شعبہ انگریزی اپنے اساتذہ کی وجہ مشہور تھا۔ عسکری نے خاص طور پر ستیش چندرد بیب اور فراق گورکھپوری کو ہمیشہ یاد رکھا۔
یہ بھی پڑھیں: اردو تنقید پر محمد حسن عسکری کے اثرات تحقیقی مطالعہ مقالہ نگار،.pdf
عسکری ساقی میں ۱۹۴۳ء سے لکھ رہے تھے ۔ ۱۹۴۳ء میں فراق "ساقی ” میں ” باتیں” کے نام سے کالم لکھا کرتے تھے۔ ان کی عدم موجودگی میں یہ کالم معسکری لکھتے ۔ ۱۹۴۴ ء سے عسکری نے ” جھلکیاں“ کے نام سے مستقل کالم کا سلسلہ شروع کیا جو ۱۹۵۷ء تک جاری رہا۔ وہ دیگر رسائل میں بھی لکھتے رہے۔ انسان اور آدمی عسکری کا پہلا تنقیدی مجموعہ ہے جو ۱۹۵۳ء میں شائع ہوا۔ اس میں وہ مضامین ہیں جو ۱۹۴۶ء سے ۱۹۵۳ء کے درمیان لکھے گئے۔ اس مجموعے میں زیادہ تر وہ مضامین شامل ہیں جو فرانسیسی بیئت پرستوں کی نئی تعبیر اور ترقی پسند نظریات سے اختلاف کے سلسلے میں لکھے گئے تھے۔
عسکری کا دوسرا اور ان کی زندگی میں آخری مجموعہ "ستار و یا باد بان“ ہے جو ۱۹۶۳ء میں شائع ہوا۔ اس مجموعے کے اٹھائیس مضامین کا تعلق ۱۹۵۳ء سے ۱۹۶۰ء کے دورانیے سے ہے۔ مضامین کا تیسرا مجموعہ ” وقت کی راگنی ان کے انتقال کے ایک سال بعد ۱۹۷۹ء میں شائع ہوا ۔ کتاب کا مسودہ عسکری نے خود تیار کیا تھا۔ اس میں شامل ۱۶ مضامین ۱۹۶۰ء سے ۱۹۷۷ ء تک کے تحریر کردہ ہیں۔
عسکری کی سب سے متنازعہ فیہ کتاب جدیدیت یا مغربی گمراہیوں کا خاکہ ہے جو ان کے انتقال کے بعد ۱۹۷۹ء میں شائع ہوئی۔ یہ دو مضامین پر مشتمل ہے۔ دراصل یہ کتاب دینی مدارس کے طلبا کے لیے ایک کورس کے خاکے کے طور پر لکھی گئی تھی ، اس لیے کتاب میں بہت تنگی ہے اور اس کے متنازعہ ہونے کا ایک سبب یہ بھی ہے۔
ایک لحاظ سے کتاب میں کوئی نئی بات اس لیے نہیں کہ عسکری ان خیالات کا اظہار پہلے کر چکے تھے کہ مغرب نے ادھوری صداقتوں کے ذریعے نہ صرف ساری انسانیت کو گمراہ کیا بلکہ مشرقی اور مسلم معاشروں میں ان کے تصور حقیقت کو بھی مسخ کرنے کی کوشش کی ۔ دوسرا یہ کہ مغربی نشاہ الثانیہ خود اپنی روایت سے بھی انحراف ہے کیونکہ یہ حادثہ انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ رونما ہوا کہ مابعد الطبیعیات کا انکار کیا گیا اور مرکز و محور انسان کو بنا دیا گیا۔
عسکری اپنے ادبی دور پر حاوی تھے۔ ادبی و علمی مضامین کے علاوہ انھوں نے افسانے لکھے، تراجم کیے ، انتخابکیسے، مدیر رہے غرض خود بھی متحرک رہے اور اپنے خیالات کی بدولت دوسروں کو بھی متحرک رکھا۔ متعدد مرتبہ ایسا ہوا کہ عسکری کے تصورات اور جملوں سے نئی بحثوں کا دروازہ کھل گیا اور یہی ان کا مقصد تھا۔
عسکری نے متنوع موضوعات پر لکھا اور یہ محض تنوع نہیں تھا بلکہ ان کے موضوعات اور تحریروں سے ان کے مطالعے کی وسعت اور سوچ کی گہرائی کا انداز ہوتا ہے۔ جن دنوں عسکری مضامین لکھ رہے تھے ان دنوں مجنوں گورکھپوری اور احتشام حسین کی قدرے سادہ تحریروں کا دور تھا۔ دوسری طرف کلیم الدین احمد تھے جو انگریزی ادب کے معیارات سے اپنا ادب ناپ رہے تھے۔ گویا ایک طرف مغرب پسند تھے تو دوسری طرف ترقی پسند ۔
کم و بیش انھی دنوں میں عسکری کی تحریروں کا آغاز ہوا۔ مجنوں ، احتشام حسین، کلیم الدین احمد اور آل احمد سرور کی طرح عسکری بھی انگریزی ادب کے طالب علم تھے۔ فکری دنیا میں اقبال وہ پہلے شخص تھے جن کے ہاں مغرب سے کوئی تکلف نہیں تھا۔ وہ برابری کی بنیاد پر مشرق و مغرب سے فیض حاصل کرتے تھے اور پاؤں مضبوطی سے اپنی تہذیب میں جھے ہوئے تھے۔ تنقید میں حسن عسکری اور آل احمد سرور نے بھی یہی تو ازن قائم رکھنے کی کوشش کی۔
یہ بھی پڑھیں: تنقید کے نئے تصورات مضامین | pdf
سلیم احمد نے عسکری کے فکری سفر کو دو حصوں میں تقسیم کیا ہے۔ ایک وہ جب انھوں نے مغربی ادب اور فکر کو گہرائی سے دیکھا اور اسے اردو کے قاری تک پہنچایا اور دوسرا وہ جب وہ مشرق کی روایت اور روح تک پہنچے۔ مشرق و مغرب کی روح کی بازیافت عسکری کا سب سے بڑا کارنامہ ہے۔ ان کی ساری تنقید اور فکریات کو اسی تناظر میں دیکھا جا سکتا ہے۔
عسکری نے فکری اور ادبی موضوعات پر بہت نظری بخشیں کیں، اس کے ساتھ ساتھ عملی تنقید کے بھی اچھے نمونے فراہم کیے۔ ان کی عملی تنقید کی ایک اہم خوبی کی طرف نظیر صدیقی نے اشارہ کیا ہے جو آج بھی کم دیکھنے میں آتی ہے:
حسن عسکری کی تنقیدوں میں فلسفیوں کے فلسفے سے نہیں فن کاروں کے فلسفے سے بحث ہوتی ہے، یعنی وہ فلسفہ جو انہوں نے بڑے ناول نگاروں کے ناول اور بڑے شاعروں کی شاعری سے اخذ کیا۔
اس اعتبار سے اگر حسن عسکری کی تنقید فلسفیانہ ہے تو انھی معنوں میں جن میں بڑے ناول نگاروں کے ناول اور بڑے شاعروں کی شاعری فلسفیانہ ہے، ان کی تنقید تعارف ، تشریح، ترجمان اور تبلیغ کے فرائض انجام نہیں دیتی بلکہ زیر بحث موضوع یا مسئلے کی طرف ایک تحقیقی فن کار کے رویے کو ظاہر کرتی ہے۔
پروفیسر حسن عسکری، مشمولا محمد حسن عسکری: ایک عہد آفریں نقاد، مرتبہ اشتیاق احمد، بیت الحکمت: لاہور ، ۲۰۰۵، ص ۶۷ ) احتشام حسین اور آل احمد سرور کی طرح عسکری بنیادی طور پر ایک دانشور ہیں۔ اسی لیے جب خالص ادبی لحاظ سے دیکھا جائے تو عسکری کو ادبی نقاد کی بجائے ادبی مفکر کہنا زیادہ مناسب لگتا ہے۔
اس کا سبب ان کا مختلف علوم کا گہرا مطالعہ تھا۔ سماجیات، مذہبیات، اسلام، فلسفہ، مغربی و مشرقی ادب کا مطالعہ بہت سی زبانوں پر عبور ایسی باتیں ہیں جو کسی اور شخص میں یکجا نہہوئیں ۔ یہی وجہ ہے کہ ان کی باتیں اکثر پیچیدہ محسوس ہوتی ہیں۔ شمیم حنفی عسکری کے اس پہلو کو یوں بیان کرتے ہیں:
وہ اپنے علم اور آگہی کو ادبی ذوق اور تحسین کی دنیاؤں تک اس طرح لے گئے کہ ان کے نظام میں کوئی خلل واقع نہ ہو سکا۔
دوسری طرف انھوں نے ادب کے مطالعے کو کسی تاثراتی نقاد کے برعکس اس روشنی ، گہرائی ، وسعت اور دقیقہ شناسی کے موڑ تک پہنچایا جہاں مختلف علوم فنون اور ذہنی و حسی تجربات کی پیچیدہ راہیں ایک طویل اور کشادہ شاہراہ میں مدغم ہو جاتی ہیں۔ وہ نہ تو صرف فنی مسائل کے نقاد تھے نہ خالص ذہنی مسائل سے سروکار رکھتے تھے۔
نطقہ کی طرح اپنی تحریروں میں عسکری نے اپنے پورے وجود کو سمودیا تھا۔
کچھ عسکری صاحب کے بارے میں مشمولہ محمد حسن عسکری: ایک عہد آفریں نقاد، ص ۹۴)
ڈاکٹر ابوالکلام قاسمی نے ایک اہم بات کہی کہ عسکری کے نزدیک مذہب، تہذیب ، اقدار اور ادب ایک ہی سلسلے کی کڑیاں ہیں۔ عسکری کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ انھوں نے اپنا سفر مغرب کے ادبی و فکری رجحان کے حوالے سے کیا اور بالآخر مغرب ہی کے راستے دو مشرق کی روح تک پہنچے۔ لیکن وہ ان معنوں میں مشرقی نہیں تھے جس طرح کہ مثلا اکبر الہ آبادی۔
روایت کا تصور مشرق اور اپنی تہذیب کی بازیافت کی طرف توجہ اور مغرب کے فکر وفن کو گہرائی سے دیکھنا اور برابری کی بنیاد پر معاملہ کرنا عسکری کی اردو ادب کو بہت بڑی عطا میں بلکہ یہ ہماری فکری تاریخ کا بھی حصہ ہیں ۔
اوپر عسکری نے اُس وقت ایسے موضوعات پر لکھا جب کچے پکے تصورات کا چلن عام تھا اور ہر طرف سے انتہا پسندانہ رویوں کا مظاہرہ کیا جارہا تھا۔ اگر اس وقت کی صورت حال کا جائزہ لیا جائے تو کہا جا سکتا ہے کہ کم و بیش چار طرح کے نظریات یا گروہ موجود تھے۔
ایک روایتی جو اپنے اندر مست تھا اور اپنے آپ کو بیان و بدیع کے مسائل تک محدود کیے ہوا تھا۔ دوسرا گر وہ اصلاح پسندوں کا کہا جاسکتا ہے جو سرسید تحریک یا حالی و آزاد سے متاثر تھا۔ یہ لوگ اپنی روایت کو تسلیم کرتے تھے مگر اس سے غیر مطمئن تھے اور مغربی ادب کی کچھ شدھ بدھ بھی رکھتے تھے۔ تیسرا گروہ مغرب پسندوں کا تھا جو مغرب کی عینک سے اپنی روایت اور ادب کو دیکھ رہا تھا اور ان میں تبدیلی کا خواہاں تھا۔
بنیادی طور پر یہ گروہ سرسید تحریک کا لازمی نتیجہ تھا تاہم ان کے ہاں مغربی ادب کا مطالعہ نسبتنا گہرا ہے اور کلیم الدین احمد اس کی نمایاں مثال ہیں۔ چوتھا اور اس وقت کا سب سے مضبوط گروہ ترقی پسندوں کا تھا۔ اس کے بھی ڈانڈے سرسید تحریک میں پیوست ہیں۔ عدم اطمینان کا اظہار ۱۹۳۵ء سے پہلے ہی ہونا شروع ہو گیا، جیسے اختر حسین رائے پوری کا مضمون ادب اور انقلاب ۔
۱۹۳۶ء میں جب با ضابطہ تحریک کی بنیاد رکھی گئی تو فکر منظم طور پر سامنے آنے لگا اور تخلیقی ادب اور تنقید میں اس کا کھل کر اظہار ہونے لگا اور اس بات کو واشگاف الفاظ میں کہا جانے لگا کہ ادب انقلاب لانے کا ایک وسیلہ ہے۔
سب سے پہلے کلیم الدین احمد نے ادب کے لیے ادبی معیارات کی بات کی اور ادب کاآلہ کار بنے کی مخالفت کی۔ کلیم الدین احمد کی مغرب پسندی اور ترقی پسند تحریک ایک ہی سکے کے دورخ تھے، اگر چہ اس وقت ہیتی تنقید کی بات کرنا کلیم الدین کی ایک بڑی عطا ہے۔
حسن عسکری پہلے آدمی ہیں جنھوں نے باضابطہ طور پر ان چاروں مکاتیب فکر کی کمیوں پر دوٹوک انداز میں بات کی۔ نہ وہ محض مشرق پسند تھے نہ محض مغرب پسند، نہ انھوں نے ادب کو ایک خود مختلفی اکائی سمجھا اور بمحض آلہ کار ۔ عسکری کے نزدیک ادب تہذیب کا سب سے کامیاب اظہار ہے اس لیے کسی تہذیب کو سمجھے بغیر اس کا ادب بھی نہیں سمجھا جا سکتا اور دوسرا اپنی تہذیبی روایت سے جڑے بغیر بھی بڑا ادب پیدا نہیں کیا جا سکتا ۔
۱۹۴۰ء۔ ۱۹۵۰ء کی دہائیاں ہمارے ہاں ترقی پسند فکر کے عروج کی ہیں۔ ان دنوں عسکری نے خاص طور پر ترقی پسند خیالات پر گرفت کی بلکہ بعض اوقات عسکری اپنی رائے میں انتہا پسند بھی ہو گئے مثلاً جب وہ ترقی پسند ادب پر نگی تصویروں کو ترجیح دیتے ہیں ( اگر چہ فاروقی نے اس جملے کی توجیہ کی ہے کہ اس سے مراد بالغ ادب ہے ۔ ) اپنے مضمون ” مارکسیت اور منصوبہ بندی” میں عسکری کہتے ہیں:
مارکسیت کی اقدار سراسر خارجی دنیا سے متعلق ہیں اور انسان کی جذباتی اور رومانی زندگی کا کوئی تسکین بخش نقشہ ان اقدار کی مدد سے مرتب نہیں ہو سکتا ۔ مارکسیت کا یقین ہے کہ محض معاشی ماحول کو بدلنے سے انسان کو بھی بدلا جا سکتا ہے۔ پرانے اخلاق اور مذہبی نظام یہ سمجھتے تھے کہ انسان کو بدلنے کے لیے اس کے تصورات اور اعتقادات کو بدلنا لازمی ہے۔“
عسکری محمد حسن، مجموع محمد حسن عسکری ، سنگ میل پبلی کیشنز، لاہور : ۲۰۰۸ ، ص ۹۲)
اس مضمون میں عسکری کہتے ہیں کہ اگر چہ مارکسیت کی بنیاد اخلاقی اور جذباتی نظریہ پر ہے، یعنی معاشی انصاف ، مگر مارکسیت کو جذبات سے متعلق ہونے سے انکار ہے اور محض منطقی اور علمی نظریہ ہونے کا دعوی کرتی ہے ہے۔ ترقی پسندی اور مارکسیت پر عسکری نے کافی لکھا ہے، اور جملے بازی سے بھی گریز نہیں کیا۔
اس دور میں عسکری غالبا پہلے منکر اور نقاد ہیں جنھوں نے نو آبادیاتی سوچ پر مستقل طور گھل کر لکھا۔ اس ضمن میں ان کے یہ چند مضامین خاص طور پر قابل ذکر ہیں :
” ہمارا ادبی شعور اور مسلمان پیروی مغرب کا انجام مشرق اور مغرب کی آویزیش ، اکبرالہ آبادی وغیرہ۔ وہ سرسید اور حالی پر تنقید کرتے ہیں۔ ان کے مطابق تمام اہل دماغ میں اکبر الہ آبادی واحد شخص تھا جسے ( ہندوستانیوں اور خصوصا) مسلمانوں کی پوری صورت حال کا گہرا علم تھا۔ اپنے مضمون ” ہمارا ادبی شعور اور مسلمان میں وہ ۱۸۵۷ء کے بعد مسلمانوں کے رد عمل کا گہرا تجزیہ کرتے ہوئے کہتے ہیں
کہ ایک طبقہ تو انگریزوں سے تعلق رکھنے والی ہر شے کو معیوب سمجھتا تھا اور دوسرے طبقہ پر انگریزوں کا ایسا رعب پڑا کہ انھیں اپنی تہذیب ، ادب، علم اور سب کچھ کمتر نظر آنے لگا۔ اس رویے کے دور رس نتائج نکلے۔ ادب اپنی روایت سے کٹ کر عوام سے بریگا نہ ہو گیا۔ یہ صرف چند اشارے ہیں، جن کا مقصد یہ دکھانا تھا کہ اس دور میں عسکری نے ہماری فکر اور تنقید کو کیسے اور کتنا ثروت مند کیا۔
نوٹ:یہ تحریر پروفیسر آف اردو واٹس ایپ کمیونٹی کے ایک رکن نے پی ڈی ایف سے تحریری شکل میں منتقل کی ہے۔براہ کرم نوٹ کریں کہ پروفیسر آف اردو نے اس کی پروف ریڈنگ نہیں کی ہے۔
وٹسپ پر اس فائل کا پی ڈی ایف یہاں سے حاصل کریں