حسرت موہانی کا تعارف اور شاعری

حسرت موہانی کا تعارف اور شاعری ایک جائزہ | تحریر از علی حنظلہ(پروفیسر آف اردو وٹسپ کمیونٹی کا ممبر)

سید فضل الحسن نام اور حسرت تخلص تھا۔رئیس المتغزلین ان کا لقب ہے۔حسرت 1875 میں ضلع اناؤں کے مردم خیز قصبے موہان میں نیشاپوری سادات کے خاندان میں پیدا ہوئے۔ان کے والد کا نام سید اظہر حسین شاہ تھا ان کا سلسلہ نسب امام علی رضا اور امام موسی کاظم سے ملتا ہے ان کے جد اعلی سید محمود نیشاپور سے ترک وطن کر کے موہان میں آ بسے۔حسرت نے اردو فارسی اور دینیات کی ابتدائی تعلیم موہان سے حاصل کی۔

یہ بھی پڑھیں: حسرت موہانی کی شاعری کی خصوصیات

اس کے بعد قصبے کے مڈل سکول میں داخل ہوئے اور مڈل کے امتحان میں تمام صوبے میں ممتاز رہ کے وظیفہ حاصل کیا اور مزید تعلیم کے لیے فتح پور گورنمنٹ ہائی سکول میں داخلہ لیا اور انٹر کا امتحان امتیازی نمبروں میں وظیفہ حاصل کیا۔فتح پور میں ا کر ان کی شاعری کی زبان کھلی کچھ مخصوص لوگوں کی صحبت سے قصب فیض حاصل کیا۔انٹر پاس کر کے علی گڑھ جا داخل ہوئے چونکہ وہ شرفائے اودھ کے لباس اور وضع میں تھے۔

یہ بھی پڑھیں: حسرت موہانی کی غزل گوئی

کالج کے دستور کے مطابق بے تکلف دوستوں نے انہیں خالہ جان کا لقب دیا۔مگر خالہ جان نے بھانجوں کی چھیڑ چھاڑ کی کبھی پرواہ نہ کی۔اور اپنے مذاق طبیعت پر برابر جمے رہے۔حسرت نے 1903 میں علی گڑھ یونیورسٹی سے بی اے کی ڈگری حاصل کی اور اعلی ملازمت کی بجائے علم و فن اور شعر و سخن کی خدمت کا تحیہ کیا اور ایک بلند پایہ رسالہ "اردو معلی” شائع کیا۔

اس کے ساتھ حسرت کانگرس میں شامل ہوئے اور کچھ اختلافات سے الگ ہو گئے۔پانچ برس تک اوردو معلی نکلتا رہا 1908 میں اس میں ایک بے نام صاحب قلم کا ایک مضمون مصر کے نامور لیڈر مصطفی کمال کی موت پر شائع ہوا۔اس مضمون میں مصر میں انگریزوں کی پالیسی پر بے لاگ تبصرہ اور تنقید ہوئی یہ مضمون سرکار کی نظر میں قابل اعتراض ٹھہرا۔

یہ بھی پڑھیں: حسرت موہانی: ایک عظیم شاعر کی زندگی اور شاعری

اس جرم کی پاداش میں حسرت کو دو برس قید ہوئی اور ان کا کتب خانہ اور پریس پولیس کی نظر ہو گیا۔یہ مضمون حسرت کا نہ تھا مگر مقدمہ قائم ہونے پر انہوں نے اپنے ذمے لے لیا۔سیاسی مشاورت کے باوجود حسرت شعر و ادب کی بھرپور خدمت کرتے رہے۔وہ ایک غزل گو ہونے کے علاوہ اور بھی بہت کچھ تھے۔اپنی ذاتی زندگی میں درویش مزاج منکسر المزاج قناعت پسند اور صلح جو انسان تھے۔

1946 کے انتخابات میں وہ مسلم لیگ کے پلیٹ فارم سے مرکز قانون ساز کے رکن بھی تھے قیام پاکستان کے بعد انہوں نے بھارت میں رہنے کو ہی ترجیح دی اب وہاں رہ کر مسلمان بھارت کے لیے اپنی جدوجہد کا اغاز کیا شاعری میں حسرت امین اللہ تسلیم کے شاگرد تھے جو کہ نسیم دہلوی کے شاگرد تھے اور نسیم دہلوی محمد خان مومن کے شاگرد تھے

اپنے مرکز کی طرف مائل پرواز تھا حسن
بھولتا ہی نہیں عالم تیری انگڑائی کا
(نسیم دہلوی)

اس سے حسرت کی ابتدائی شاعری میں تسلیم نسیم اور مومن کا غم جھلکتا دکھائی دیتا ہے مگر بعد کی غزلوں میں ان کا اپنا رنگ سخن ابھرتا ہے جو انہیں جدید اردو میں ایک اہم نام دلاتا ہے حسرت سے پہلے غزل میں سیاسی شاعری کا تصور کہیں بھی نہیں دکھتا لیکن حسرت نے سیاست کو واضح طور پر غزل کی روایت میں شامل کر دیا اور کچھ ایسے انداز سے غزل کی ابرو کو چار چاند لگائے گئے وہ بیان کی شگفتگی خیال کی جولانی عشق کی رنگینی حسن کی رعنائی سوزو گداز کا ایک حسین مرقع بن گئی

اس تحریر پر اپنے رائے کا اظہار کریں